سارے ملک سے صرف 23 مسلم امیدوار منتخب

محمد ریاض احمد
ہندوستان میں فرقہ پرست سمجھی جانے والی بی جے پی نے پارلیمانی انتخابات میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی ہے، اس کے لئے مودی یا بی جے پی لہر کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا، بلکہ کانگریس زیر قیادت یو پی اے کی غلط حکمرانی، اسکامس، اسکینڈلوں، مہنگائی، روپئے کی قدر میں گراوٹ وغیرہ ایسے عوامل رہے، جس کے نتیجے میں کانگریس کا ایک طرح سے صفایا ہو گیا۔ حالانکہ ہندوستان کی اس سب سے قدیم سیاسی جماعت کی قیادت کو کبھی اس طرح کے انتخابی نتائج کی توقع نہیں تھی۔ حد تو یہ ہے کہ یو پی اے کابینہ میں شامل اکثر وزراء کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، جب کہ ملک میں فرقہ پرستی کی لہر نے بھی اپنا کام کردکھایا۔ یہی وجہ ہے کہ آر ایس ایس کیڈر نے بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں کی کامیابی کے لئے اپنی ساری توانائیاں جھونک دیں۔ اس طرح آر ایس ایس اور اس کی ملحقہ تنظیموں کے کیڈر نے عوام کے ذہنوں میں فرقہ پرستی کا زہر گھولنے میں کامیابی حاصل کی۔ سیکولر جماعتوں بالخصوص کانگریس کی نااہلی اور کمزوری کے باعث اس مرتبہ لوک سبھا کے لئے صرف 23 مسلم امیدوار ہی کامیاب ہو سکے، حالانکہ آبادی کے لحاظ سے 543 رکنی لوک سبھا میں 80 تا 120 مسلم ارکان پارلیمان ہونے چاہئے تھے۔ 2014ء کے عام انتخابات میں جہاں فاشسٹ طاقتوں نے سیکولرازم کو چاروں شانے چت کردیا، وہیں میڈیا کے ایک گوشہ کی مدد سے سارے ملک میں ایک ایسی فضا تیار کی گئی، جس سے مسلم امیدواروں کی ناکامی یقینی بنادی گئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1952ء سے اب تک جتنے بھی عام انتخابات ہوئے ہیں، حالیہ انتخابات میں سب سے کم امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ 1952ء میں ملک کے پہلے عام انتخابات کا انعقاد عمل میں آیا تھا۔ 15 ویں لوک سبھا میں مسلم ارکان پارلیمنٹ کی تعداد 30 تھی،

اس مرتبہ اس میں 7 ارکان کی کمی ہوئی ہے، اس طرح موجودہ لوک سبھا میں مسلم ارکان کا فیصد 4.4 تک ہی محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ 1952ء کے بعد سے مسلم ارکان پارلیمنٹ کا فیصد اور 5 اور 6 فیصد کے درمیان رہا، لیکن اب کی بار مودی سرکار کا نعرہ لگانے والوں نے کانگریس اور دوسری سیکولر جماعتوں کی کمزوریوں کا بھرپور فائدہ اٹھاکر مسلم نمائندگی کو کم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ اتر پردیش میں جہاں مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی ہے اور پارلیمنٹ کی سب سے زیادہ 80 نشستیں ہیں، ایک بھی مسلم امیدوار منتخب نہ ہوسکا۔ اسی طرح مہاراشٹرا جیسی ریاست سے بھی جہاں تقریباً 15 فیصد مسلمان آباد ہیں، ایک بھی مسلم امیدوار کامیابی حاصل نہ کرسکا، جب کہ آندھرا پردیش (وہ بھی تلنگانہ) سے ایک، مغربی بنگال سے 8، جموں و کشمیر سے 4، بہار سے 4، کیرالا سے 3، آسام سے 2، تاملناڈو اور لکشا دیپ سے ایک ایک مسلم امیدوار کو کامیابی حاصل ہوئی۔ ویسے بھی جموں و کشمیر اور لکشا دیپ کثیر مسلم آبادی رکھتے ہیں۔ آپ کو بتادیں کہ 1980ء کے انتخابات میں سب سے زیادہ مسلم امیدوار پارلیمنٹ پہنچے تھے، جن کی تعداد 49 تھی۔

اس مرتبہ جن مسلم امیدواروں نے کامیابی حاصل کی، ان میں تلنگانہ کے حلقہ پارلیمنٹ حیدرآباد سے مجلس کے امیدوار اسد الدین اویسی بھی شامل ہیں، انھوں نے بی جے پی امیدوار کو 2,02,454 ووٹوں کی اکثریت سے شکست دی۔ آسام کے بار پیٹا حلقہ سے آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے سراج الدین اجمل کو 42,341 ووٹوں سے کامیابی حاصل ہوئی۔ اسی طرح آسام کے ہی پارلیمانی حلقہ دھوبری سے آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے بدرالدین اجمل نے 2,29,730 ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ بہار کے پارلیمانی حلقوں سے جن چار امیدواروں نے کامیابی حاصل کی، ان میں حلقہ ارریہ سے آر جے ڈی کے تسلیم الدین، کٹیہار سے این سی پی کے طارق انور، کھگڑیا پارلیمانی حلقہ سے ایل جے پی کے چودھری محبوب علی اور کشن گنج پارلیمانی حلقہ سے کانگریس کے مولانا محمد اسرار الحق شامل ہیں۔

ان چاروں نے بالترتیب 1,46,504، 67,723، 76,003 اور 76,300 ووٹوں کی اکثریت سے اپنے حریفوں کو شکست دی۔ کشمیر کے 3 حلقوں پر پی ڈی پی کے امیدواروں نے کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ اننت ناگ سے محبوبہ مفتی نے 65,417، بارہمولہ سے مظفر بیگ نے 29,212 اور سری نگر سے طارق حمید کرا نے 42,280 ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ کیرالا سے کامیابی حاصل کرنے والے تین میں سے دو امیدواروں کا تعلق انڈین یونین مسلم لیگ سے ہے۔ مالاپورم سے ای احمد نے 1,94,739 اور پونانی سے ای ٹی محمد بشیر نے 25,410 ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی درج کروائی، جب کہ کانگریس کے ایم آئی شاہنواز کو ویاناڈ حلقہ سے 20,870 ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی ملی۔ ہندوستان کے سب سے چھوٹے پارلیمانی حلقہ لکشا دیپ سے این سی پی کے محمد فیصل پی پی کو 1535 ووٹوں کی برتری سے کامیابی ملی۔ اس حلقہ میں جملہ رائے دہندوں کی تعداد 50 ہزار سے کم ہے۔ تاملناڈو سے کامیابی حاصل کرنے والے واحد مسلم امیدوار کا تعلق اے آئی اے ڈی ایم کے سے ہے۔ انور راجہ اے کو پارلیمانی حلقہ رامنتا پورم سے 1,19,450 ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی نصیب ہوئی۔

سب سے زیادہ 8 مسلم امیدواروں نے ممتا بنرجی کی ریاست مغربی بنگال سے کامیابی حاصل کی، جن میں ٹی ایم سی کے ادریس علی (حلقہ بیرہاٹ)، ممتاز سنگھ مترا (حلقہ بردوان۔ دُرگا پور)، سلطان احمد (البیریا)، آفرین علی (حلقہ آرام باغ) شامل ہیں۔ آفرین علی کو 3,46,845 ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی ملی۔ سلطان احمد نے 2,01,141 ووٹوں کی اکثریت سے اپنے حریف کو ہرایا۔ اسی طرح کانگریس کے ابوحسن خاں چودھری (مالدہ)، معصوم نور (حلقہ پارلیمان مالدہ شمالی)، سی پی آئی ایم کے بدرالدجی خاں (حلقہ پارلیمان مرشدآباد) اور محمد سلیم (رائے گنج) نے بھی اپنی کامیابیاں درج کروائیں۔ محمد سلیم کو صرف 1356 ووٹوں کی معمولی اکثریت سے کامیابی ملی۔ ایک مرحلہ پر ایسا لگ رہا تھا کہ وہ شکست سے دوچار ہوجائیں گے۔ دلچسپی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ کم از کم 53 پارلیمانی حلقوں میں مسلم امیدوار دوسرے مقام پر رہے، ان میں بی جے پی کے واحد امیدوار شاہنواز حسین بھی شامل ہیں، جنھیں 9485 ووٹوں سے شکست اٹھانی پڑی۔ جموں و کشمیر کے پارلیمانی حلقہ لداخ سے آزاد امیدوار غلام رضا نے صرف 36 ووٹوں سے شکست کھائی، جب کہ ہندوستانی ٹیم کے سابق کپتان محمد اظہر الدین کو راجستھان کے پارلیمانی حلقہ ٹونک۔ سوائی مادھو پور سے 1,35,311 ووٹوں کے فرق سے شکست ہوئی۔ کرکٹ کھلاڑی محمد کیف کو بھی شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔