میرا کالم سید امتیاز الدین
ایک صاحب دنیا کے مستقبل کے بارے میں تقریر کررہے تھے ۔ انھوں نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ یہ دنیا جس میں ہم عیش و آرام کی زندگی گزار رہے ہیں بیس کھرب سال کے بعد تباہ ہوجائے گی ۔ پہلی صف میں ایک بزرگ تشریف فرما تھے انھوں نے چیخ مار کر پوچھا ’’کتنے سال؟‘‘ ۔ مقرر نے جواب میں دہرایا ’بیس کھرب سال‘۔ بزرگ نے اطمینان کی سانس لی اور کہا ’پھر تو ٹھیک ہے میں نے سمجھا ’بیس ارب سال‘ ۔ یہ انسان کی بے خبری اور مجرمانہ غفلت کا حال ہے کہ ترقی کے دعوؤں اور عیش و عشرت کے مزے لوٹنے میں اتنا مگن ہے کہ اسے آنے والی تباہیوں کا کوئی احساس ہی نہیں ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ قیامت ابھی دور ہے ۔ آج کل فرانس میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں ایک عالمگیر کانفرنس چل رہی ہے جس میں دنیا بھر کے سربراہانِ مملکت شریک ہیں ۔ خود ہمارے وزیراعظم اور ان کے کابینی رفیق اور بعض اعلی عہدہ دار وہاں تشریف لے گئے ۔ ہمارے ملک کی جانب سے ایک اسٹال لگایا اور مذاکرات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور متبادل کے طور پر شمسی توانائی کی تجویز پیش کی ۔
اگرچہ کہ ہم سائنس کے طالب علم رہے ہیں اور یونیورسٹی کی آنکھ بچا کر ایک دو ڈگریاں بھی حاصل کی ہیں لیکن ہم خود پوری طرح نہیں جانتے کہ اس کانفرنس میں کیا کیا باریک نکتے زیر بحث آئیں گے لیکن ہم کو اندازہ ہورہا ہے کہ دنیا خطرے میں ہے اور چونکہ ہمارا تعلق بھی فی الحال اس دنیا سے باقی ہے اس لئے ہم خود اپنے کو بھی خطرے میں محسوس کرتے ہیں ۔ ہم نے ابھی اپنی ناقص معلومات کا جو اظہار کیا ہے اسے آپ ہماری انکساری پر محمول نہ فرمائیں ۔ یہ بالکلیہ اظہار حقیقت ہے ہمارا حال حضرت جوش ملیح آبادی کی بیگم کی طرح ہے ۔ ان سے کسی نے پوچھا تھا کہ جوش صاحب کی شاعری کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے تو انھوں نے جواب دیا تھا ’’شاعری واعری تو ہماری سمجھ میں نہیں آتی لیکن ہم کو معلوم ہے کہ ہمارے شوہر بہت بڑے شاعر ہیں ۔ بس‘‘ ۔ جب ہمارے وزیراعظم اور دنیا کے تمام بڑے بڑے لوگ آنے والے کل کے بارے میں اتنے فکرمند ہیں تو ہمارا پریشان ہوجانا بھی ضروری ہے ۔ ویسے بھی ہم بعض چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر حیرت زدہ ہیں ۔ مثال کے طور پر دسمبرکا مہینہ شروع ہوگیا ہے لیکن ہمارے گھر کے پنکھے ابھی تک کھلے ہوئے ہیں ۔ پچھلے سال ہم نے رضائیاں اور بلانکٹ اٹھا کر رکھ دیئے تھے اور ابھی تک ان کو نکالنے کا دھوپ دکھا کر دوبارہ اوڑھنے کی نوبت نہیں آئی ۔ یادش بخیر ہم نے جون کے مہینے میں ایک اچھی سی چھتری خریدی تھی لیکن اس کے استعمال کی ضرورت ہی نہیں پیش آئی ۔ بارش جو نہیں ہوئی ۔
کل ہم نے ایک انگریزی اخبار میں سرخی دیکھی ’’دنیا کی زندگی خطرے میں۔ دنیا کے 150 ممالک کے صدر مملکت ایک پلیٹ فارم پر‘‘ ۔ خبر میں لکھا تھا کہ دنیا بھر کے ممالک اس بارہ دن تک چلنے والی کانفرنس میں یہ غور کریں گے کہ مہلک ماحولیاتی تبدیلیوں سے کیسے نپٹا جائے ۔ تمام ممالک سر جوڑ کر اس لئے بیٹھے ہیں کہ ایک معاہدہ طے پاجائے جس سے گلوبل وارمنگ یا عالمگیر درجہ حرارت میں اضافہ کو روکا جاسکے ۔ معلوم ہوا ہے کہ روزمرہ کی زندگی اور صنعتی اغراض کے لئے ایسا ایندھن استعمال ہورہا ہے جس سے گلوبل وارمنگ بڑھ رہی ہے ۔ اس کے اثر سے خشک سالی بڑھے گی ۔ سمندروں کی سطح آب بڑھے گی اور بعض جزیروں کے ڈوب جانے کا خطرہ بھی بڑھ جائے گا ۔ ہم کو قرآن شریف کی ایک آیت شریف یاد آئی جس میں سمندروں کے ابلنے کا ذکر ہے ایک اور جگہ اللہ تعالی فرماتا ہے جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ اگر کنویں کا پانی نیچے چلے جائے تو پانی کہاں سے لاؤگے ۔ آج ہم سنتے ہیں کہ کئی شہروں کا واٹر ٹیبل نیچے چلا گیا ہے ۔ ہر سال کئی بورویلس کے خشک ہوجانے کے بارے میں تو ہم سنتے ہی رہتے ہیں ۔
آج کل کاربن ڈائی آکسائیڈ سے دنیا پریشان ہے ۔ گلوبل وارمنگ کے معاملے میں فساد کی جڑ یہی کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے ۔ ہم کو یاد آیا کہ ہم کاربن ڈائی آکسائیڈ کو بچپن سے ہی بے ضرر سمجھتے تھے ۔ پتہ نیں کہاں تک سچ تھا لیکن یہ بات ہمارے ذہن میں بٹھائی گئی تھی کہ درخت دن میں کاربن ڈائی آکسائیڈ لیتے ہیں اور آکسیجن چھوڑتے ہیں اور رات میں آکسیجن لیتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ چھوڑتے ہیں ۔ اس لئے صبح سویرے چہل قدمی اور کھیل کود مفید کہا جاتا تھا ۔ پتہ نہیں آج کل درختوں کا معمول کیا ہے کیونکہ درخت ذرا کم ہی نظر آتے ہیں ۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بارے میں ایک اور دلچسپ بات یاد آئی ۔ اسکول کی ابتدائی جماعتوں میں کبھی کسی بچے کی ہوا خارج ہوجاتی تو آس پاس کے بچے چیخ مار کر ٹیچر سے کہتے کہ فلاں بچے نے یہ حرکت کی ہے تو ٹیچر اس بچے کو دو تین منٹ کے لئے کلاس سے باہر کردیتے تھے ۔ آج دنیا کے بڑے بڑے ممالک کاربن ڈائی آکسائیڈ مسلسل خارج کررہے ہیں لیکن انھیں کلاس سے باہر کرنے والا کوئی نہیں ۔
عالمی ماحولیات کانفرنس اتنی دھوم سے شروع ہوئی لیکن دو تین دنوں میں ہی کچھ ایسی باتیں سننے میں آرہی ہیں کہ اس کانفرنس کی افادیت مشکوک نظر آنے لگی ہے ۔ سنا ہے کہ اس کانفرنس میں شریک ہونے والی اہم شخصیتوں کے آنے جانے میں تین لاکھ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ہوگا جو بجائے خود ماحولیاتی خطرہ ہے ۔ صرف امریکی پریسیڈنٹ کا ہوائی جہاز اتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرچکا ہے جو بہتر 72 موٹر کاریں ایک سال میں خارج کریں گی ۔ بہرحال اس کانفرنس سے کیا مثبت نیتجے برآمد ہوں گے کوئی نہیں جانتا ۔ ہم گلوبل وارمنگ کے اثرات سے پوری طرح آشنا نہیں ہوئے ہیں لیکن روز بروز بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے بعض عجیب خدشات ذہن میں آنے لگے ہیں ۔ کیا پتہ کل کو چولہا دیا سلائی سلگائے بغیر ایک معمولی سی پھونک میں جل اٹھے ۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کسی سے ملنے جائیں ، میزبان چائے لا کر رکھے اور آپ سے درخواست کرے کہ چائے جلد پی لیجئے کہیں رکھے رکھے اور گرم نہ ہوجائے ۔
گلوبل وارمنگ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اثرات تو شاید ہمارے بعد آنے والی نسلیں ہم سے زیادہ دیکھیں گی لیکن روز بروز خود ہمارے ملک کا ماحول بگڑتا جارہا ہے ۔ فیض احمد فیض کا ایک شعر ہے ۔
گھر رہیے تو تنہائی در کھانے کا آوے
رہ چلیے تو ہر گام پر غوغاے سگاں ہے
کتوں کا بھونکنا تو کچھ کم ہوگیا ہے لیکن ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جن کی تقاریر اور بیانات غوغائے سگاں سے کم نہیں ہیں ۔ افسوس ان کو مناسب طریقہ سے کوئی روک نہیں رہا ہے ۔ آج کل انسان کی زبان کاربن ڈائی آکسائیڈ اور گلوبل وارمنگ سے زیادہ خطرناک ثابت ہورہی ہے ۔ ہمارے ملک بلکہ ہر ملک میں سب سے زیادہ قابل احترام شخصیت صدر جمہوریہ کی ہوتی ہے اور اس جلیل القدر عہدے پر فائز ہستیاں زیادہ تر پروقار انداز سے خاموش رہنے کو ترجیح دیتی ہیں لیکن ہمارے راشٹرپتی کو بار بار اس بات کی تلقین کرنا پڑرہا ہے کہ لوگ صبر وتحمل اور رواداری کا مظاہرہ کریں ۔ اگر آج ملک میں صحت مندانہ فضا پیدا نہ کی جاسکے تو یہ آلودگی ہم سب کو نقصان پہنچاسکتی ہے ۔ اتفاق کی بات ہے کہ ہمیں ہر روز ایک اسکول کی طرف جانا پڑتا ہے ۔ ہم اکثر چھوٹے بچوں کے منہ سے بھی ایسی گالیاں سنتے ہیں جنھیں سن کر ہم لرز اٹھتے ہیں ۔ ٹی وی کے ڈرامے ، فلموں کے سین اور تو اور بعض اشتہارات بھی ایسے دیکھنے میں آتے ہیں جن سے ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی ہوتی ہے ۔
قصہ مختصر انسان چاند فتح کرچکا ہے ۔ مریخ پر کمند ڈال چکا لیکن اپنے آپ کی اصلاح نہ کرسکا ۔ ایسے میں ہم کو حضرت جگر مرادآباد کا ایک شعر یاد آتا ہے جس کا ایک مصرع ہمارے آج کے کالم کا عنوان بھی ہے
باہم ذوق آگہی ہاے رے پستیٔ بشر
سارے جہاں کا جائزہ اپنے جہاں سے بے خبر