ساحر لدھیانوی ہندی فلموں کا اردو شاعر

ڈاکٹر محمد فیض احمد
ساحر لدھیانوی (عبدالحئی) 8 مارچ 1921ء کو لدھیانہ پنجاب میں پیدا ہوئے ۔ ساحر لدھیانوی اردو شعر و ادب کو اپنے کلام سے باثروت بنایا اس کے کینوس کو وسیع تر کردیا ۔ انہوں نے اردو شاعری اور فلمی نغمہ نگاری میں اچھوتے موضوعات کا انتخاب کیا تھا جو بیسویں صدی کی اردو شاعری میں ایک اہم اضافہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اس لحاظ سے ساحر کا شاعرانہ منصب دوسرے شاعروں اور نغمہ نگاروں سے منفرد رہا کیونکہ انہوں نے اپنے کلام میں زندگی اور اس سے جڑی سچائیوں کو برتا اور سماج کے دہرے پن پر احتجاج بھی کیا اور ان بیڑیوں کو توڑنے کی سعی بھی کی اور تلقین بھی ، ساحر ہندوستانی ہندی فلموں میں بحیثیت فلمی گیت کار اور شاعر شہرت کی بلندیوں پر پہنچے ان کے گیتوں کی حقانیت اور اردو زبان کی دل پذیری فلم بینوں اور سامعین پر سحر کا کام کرتی تھی وہ اس لئے کہ جہاں انہوں نے ایک عام آدمی کے جذبات کی اپنے گانوں میں عکاسی کی وہیں ایک رومانی آسودگی سے سرشار احساسات کا اظہار بھی خوب کیا ہے ۔ فلم ’’برسات کی رات‘‘ کے لئے ان کا لکھا ہوا نغمہ جسے شہرہ آفاق گلوکار محمد رفیع اور آواز کی ملکہ لتا منگیشکر نے اپنی آواز دی اور موسیقی روشن کی ہے اس نغمہ کے خیال اور فکری احساس سے میری بات کی صراحت ہوجاتی ہے

زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات
ایک انجان حسینہ سے ملاقات کی رات
ہائے وہ ریشمی زلفوں سے برستا پانی
پھول سے گالوں پہ رکنے کو ترستا پانی
دل میں طوفان اٹھاتے ہوئے جذبات کی رات
زندگی بھر …………
ڈرکے بجلی سے اچانک وہ لپٹنا اسکا
اور پھر شرم سے بل کھا کے سمٹنا اس کا
کبھی دیکھی نہ سنی ایسی طلسمات کی رات
زندگی بھر ………
بھیگے آنچل کو دبا کر جو نچوڑا اس نے
دل پہ جلتا ہوا اک تیر سا چھوڑا اس نے
آگ پانی میں لگاتے ہوئے حالات کی رات
زندگی بھر ………
میرے نغموں میں وہ بستی ہے وہ تصویر تھی وہ
نوجوانوں کے حسین خواب کی تعبیر تھی وہ
آسمانوں سے اتر آئی تھی جو رات کی رات
زندگی بھر ……… وہ برسات کی رات
ساحر ہندی فلم آزادی کی راہ پر (1949) جس کے لئے چار گیت لکھے وہ ان کی پہلی فلم تھی مگر ان کی پہچان بحیثیت فلمی نغمہ نگار فلم نوجوان (1951) سے ہوئی جس میں ایس ڈی برمن نے سنگیت دیا تھا ۔ ساحر اپنی فلمی نغمہ نگاری میں اردو ادبیت کی چاشنی گھولتے رہے ۔ انہوں نے اپنے تئیں وضع کردہ اصولوں سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا ، کہتے ہیں ساحر کے زمانہ میں فلمی گیت کار کی اتنی وقعت نہیں تھی جتنی کسی گلوکار کی ہوتی تھی ۔ ساحر نے اس بھرم کو بھی توڑ ڈالا ۔ انہوں نے یہ لازمی شرط رکھی کہ انہیں اپنے کام کا معاوضہ گلوکار سے ایک روپے زائد ملنا چاہئے ۔ یہ شرط دراصل اپنے پیشہ کی سربلندی ثابت کرنے کے لئے تھی جنہیں یہ شرط منظور ہو وہ ان سے فلمی گانے لکھوائیں ۔ اس شرط کو ہندی فلمی صنعت کے کامیاب پروڈیوسرس اور ڈائرکٹرس نے مانا ، کیونکہ ساحر لدھیانوی کے گیت ہندوستانی عوام کی آواز اور جذبات کی ترجمانی تھے ۔ میں یہاں فلم گمراہ (اولڈ) کے اس گیت کو درج کررہا ہوں جسے مہیندر کپور نے اپنی آواز سے سجایا تھا ۔ جس میں جذبات اور ہمارے مشرقی معاشرے کی بلند قامت آہنی دیواروں کے سایہ تلے اپنی محبت کے جذبہ کو کچھ یوں بیان کیا ہے ۔

چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
نہ میں تم سے کوئی امید رکھوں دلنوازی کی
نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے
نہ میرے دل کی دھڑکن لڑکھڑائے میری باتوں سے
نہ ظاہر ہو تمہاری کشمکش کا راز نظروں سے
تمہیں بھی کوئی الجھن روکتی ہے پیش قدمی سے
مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ جلوے پرائے ہیں
میرے ہمراہ بھی رسوائیاں ہیں میرے ماضی کی
تمہارے ساتھ گزری ہوئی راتوں کے سائے ہیں
تعارف روگ بن جائے تو اس کا بھولنا بہتر
تعلق بوجھ بن جائے تو اس کا توڑنا اچھا
وہ افسانے جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
ساحر کے مندرجہ بالا گیت میں جذبات کی کرچیاں اور کاٹ نظر آتی ہے ۔ ان دنوں یہ خبر عام ہے کہ ساحر لدھیانوی کے نجی رشتے پر ایک فلم بھی بنائی جارہی ہے اس رشتے سے متعلق خود امریتا پریتم ’’رسیدی ٹکٹ‘‘ نامی اپنی تصنیف میں اس کی صراحت کی ہے ۔ بعض وجوہ کے سبب یہ رشتہ ٹوٹا اس فلم میں ساحر کا رول فواد خان اور امرتیا پریتم جو پنجابی زبان کی مشہور رائٹر اور شاعرہ تھیں ان کا رول سوناکشی سنہا نبھائیں گی ۔ ساحر کہتے ہیں۔

انہیں کھوکر دکھے دل کی دعا سے اور کیا مانگوں
میں حیراں ہوں کہ آج اپنی وفا سے اور کیا مانگوں
گریباں چاک ہے آنکھوں میں آنسو لب پہ آہیں ہیں
یہی کافی ہے دنیا کو ہوا سے اور کیا مانگوں
مری بربادیوں کی داستاں ان تک پہنچ جائے
سوا اس کے محبت کے خدا سے اور کیا مانگوں

تدبیر سے ٹوٹی ہوئی تقدیر بنالے
اپنے پہ بھروسہ ہے تو ایک داؤ لگالے
ٹوٹے ہوئے پتوار میں کشتی … … … …
ہار کی بانہوں کو پتوار بنا لے
اپنے پہ بھروسہ ہے تو ایک داؤ لگالے … …
تدبیر سے ٹوٹی ہوئی تقدیر بنالے
اپنے پہ بھروسہ ہے تو ایک داؤ لگالے … …
ان دونوں گیتوں میں الگ الگ جذبات بیان ہوئے ہیں ایک میں کسی کو کھونے کا غم تو دوسرے میں اس سے ابھرنے کی تدبیر یعنی ساحر اپنے تخلص کے لحاظ سے ایک جادوگر تھے ۔ اپنے خیالات ، جذبات اور احساسات سے دوسروں پر سحر برپا کردیتے تھے ، کبھی رومانی شاعر کی حیثیت سے کبھی ترقی پسند شاعر کی حیثیت سے :
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
سماج میں پائے جانے والی بیمار ذہنیت جو ساحر لدھیانوی کی زندگی میں بھی اپنا اثر دکھارہی تھی سو آج بھی بھی اپنے وجود کا احساس دلاتی ہے ۔ گذشتہ دنوں مغربی بنگال کی ایک معمر راہبہ کی آبرو ریزی حیوانیت کی دلیل ہے ۔ ایسے ہی سماجی لعنتوں کے خلاف اپنے قلم سے آواز اٹھائی ۔ ساحر کی شخصیت کے الگ الگ پہلو ہیں ان کی اردو شاعری اور فلمی گیتوں میں نظر آتے ہیں ۔ ان کے الفاظ بے باکی اور جرأت کے اظہار کا نمونہ ہوتے تھے ۔ فلم سادھنا کے ایک گیت جو لتا منگیشکر نے گایا تھا کہتے ہیں۔
عورت نے جنم دیا مردوں کو
مردوں نے اسے بازار دیا …
ساحر کا یہ نغمہ اس سوچ پر ایک چوٹ ہے جو عورت کے تقدس کا قائل تو ہے لیکن وہ اس کے حقوق کے تحفظ میں پس وپیش کرتی ہے ۔ مزید اس دنیا کی مختلف ستم گریوں کے احتجاج میں کہتے ہیں۔
جلادو اسے پھونک ڈالو یہ دنیا
میرے سامنے سے ہٹالو
یہ دنیا تمہاری ہے تم ہی سنبھالو یہ دنیا …
یہ دنیا ہے یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے …

جہاں ساحر نے سماج میں پائی جانے والے بے ہنگم اصولوں کے خلاف آواز اٹھائی وہیں انسانی زندگی اور اس کی حقیقت سے بھی وہ خوب واقف تھے ۔ فلم کبھی کبھی (1976) کے شاعرانہ اور حقیقی خیال کو ملاحظہ کیجئے
میں پل دو پل کا شاعر ہوں
پل دو پل میری کہانی ہے
پل دو پل میری ہستی ہے
پل دو پل میری جوانی ہے
مجھ سے پہلے کتنے شاعر …
آئے اور آکر چلے گئے …
یہ سچ ہے کہ ساحر سے پیشتر بھی بلند مرتبت شعراء اس جہاں فانی میں اپنے افکار و خیالات سے ایک طبقہ متاثر کیا اپنی اسی فکر کو چھوڑ کر وہ چلے بھی گئے وہ بھی ساحر کی طرح سماج کے مروج تانے بانے پر وار کرتے رہے اور اپنے تئیں اس ڈگر جس پہ ہمارا سماج کاربند ہے اس کی خامیاں بیان کرتے رہے جیسے ساحر نے کہا ہے ۔
زندگی بھیک میں نہیں ملتی
زندگی بڑھ کے چھینی جاتی ہے
ساحر اپنے کلام کا مجموعہ تلخیاں کے عنوان سے 1945 میں شائع کروایا اس کا ایک اور مجموعہ کلام پرچھائیاں بھی ہے ۔ ساحر ہندی فلموں کے مایہ ناز موسیقاروں ایس ڈی برمن ، روی ، روشن اور خیام کے ساتھ مل کر ناقابل فراموش گیت ہندوستانی فلم بینوں کو دئے ۔ وہ گرودت ، بی آر چوپڑہ ایس چوپڑہ نے بھی ساحر لدھیانوی کو سر آنکھوں پر بٹھایا ۔ دراصل ساحر لدھیانوی نے اردو ادب کو ہندوستانی فلموں کا جز لازم بنادیا تھا ۔ اردو زبان کی سحر کاری اور جذبات کی پیشکشی میں اس زبان کی اثر انگیزی کی بابت سارا ملک اردو زبان کا شیدائی ہو اٹھا ۔ فلم تاج محل 1963 میں انکے نغمہ کے لئے فلم فیئر ایوارڈ اور 1971میں مرکزی حکومت نے ان کی ادبی خدمات کے صلے میں پدماشری خطاب سے بھی نوازا ۔ مزید 1977 کا فلم فیئر ایوارڈ بھی انہیں کو ملا ۔
ساحر کے فلمی گیتوں کے تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اپنے گیتوں میں مقصدیت اور ادبیت کے دو دھاروں کو ساتھ لئے ہوئے تھے ۔ انہوں نے اپنے قلم کے ذریعہ زندگی اور اس سے جڑے مسائل اور انسانی جذبات کی بھرپور نمائندگی کی ہے ۔ آیئے ان پہلوؤں کا مطالعہ کریں کسی بھی ذمہ دار شہری کے لئے اپنے وطن اور اس کی عظمت کی پاسداری کے علاوہ وطن کی ترقی میں حصہ داری بھی از حد ضروری ہے ۔ اس پس منظر میں ساحر کے گیتوں کے دو خیال پیش ہیں۔

ساتھی ہاتھ بڑھانا ساتھی رے
ایک اکیلا تھک جائے گا مل کر بوجھ اٹھانا
یہ دیش ہے ویر جوانوں کا ،اس دیس کا یارو کیا کہنا
سماج اور اس کے رکھ رکھاؤ میں جبر و استبداد بھی ہے اس لحاظ سے فرد کو اپنے حقوق کی پاسبانی اسے خود کرنی ہوگی ۔ ساحر لدھیانوی دراصل لفظوں اور خیال کے جادوگر تھے ۔ انسان اپنی زندگی میں جن مسائل و آلام کا شکار ہوتا ہے وہ اس کے ذہن و دل پر چوٹ ضرور کرتے ہیں ، اسی لئے زندگی علائم اور شگفتگی کا ملا جلا سنگم ہے ۔ یہی دو تاثرات ساحر کے گیتوں کی روح ہے ۔ اس لحاظ سے ساحر ہندی فلمی صنعت میں کم و بیش بحیثیت گیت کار اکتیس سال گذارے ، تقریباً 733 گانے ، 122 فلموں کے لئے لکھے یہ تمام گیت ، خیالات اور جذبات کی اپنائیت کی بابت سامع پر سحر بن کر ٹوٹتے ہیں ۔ ساحر بمبئی اس وقت کی بمبئی کے محلہ اندھیری میں قیام پذیر تھے جہاں ان کے پڑوس میں ایک اور معروف و مقبول شاعر اور فلم کار ڈاکٹر گلزار اور بلند مرتبت افسانہ نویس کرشن چندر رہتے تھے ۔ 1970 میں ساحر نے اپنے لئے ایک مکان تعمیر کروایا جس کا نام اپنے مجموعہ کلام کے نام پر پرچھائیاں رکھا ۔ اسی مکان میں انہوں نے 25 اکتوبر 1980 کو بعمر 59 سال آخری سانس لی ۔ ان کے 93 یوم پیدائش کے موقع پر 8 مارچ 2013 کو محکمہ ڈاک نے یادگار ٹکٹ (Commemorative Stamp) بھی جاری کیا ہے ۔