زکوٰۃ کے معنی

سوال :   زکوۃ کے معنی و مراد کیا ہیں ، یہ کب فرض ہوئی ، کیا سابقہ امتوں میں بھی اس کی فرضیت تھی ؟
محمد مبین، کالاپتھر
جوا ب :  زکوۃ : مادہ زک و ، زکا، یزکو ، زکاء ، وزکا ، بمعنی بڑھنا ، پھلنا ، پھولنا ، زکوۃ کے اصل معنی نمو (بڑھنے اور افزونی) کے ہیں۔ علاوہ ازیں لغت میں زکوۃ کے معنی طہارت اور برکات بھی ہیں۔ شریعت میں اس سے مراد شرائط مخصوصہ کے ساتھ کسی مستحق آدمی کوا پنے مال کے ایک معین حصے کا مالک بنادینا ہے ۔ تملیک مال مخصوص لمستحقہ بشرائط مخصو صۃ (الجزیری) ، الراغب کے الفاظ میں وہ حصہ جو مال سے حق الہی کے طور پر (لازماً) نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے۔ زکوۃارکان خمسہ اسلام میں سے ایک اہم رکن ہے ۔ اسے زکوۃ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے ۔ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ زکوٰۃ کسی نہ کسی صورت میں سابقہ امتوں میں بھی رائج تھی ۔ بائیبل میںبھی اس کا ذکر آتا ہے۔ زکوٰۃ کا لفظ عام صدقات (انفاق) کے معنوں میں ابتداء اسلام ہی سے مروج ہوگیا تھا ، لیکن اس کا پورا نظام آہستہ آہستہ فتح مکہ کے بعد قائم ہوا ۔ بہرحال 8  ہجری میں زکوۃ کی فرضیت کی تصریح مل جاتی ہے ۔ محرم 9 ھ میں زکوٰۃ کے تمام قوانین و احکام مکمل ہوکر نافذ ہوگئے تھے۔ زکوٰۃ کے احکام تورات اور انجیل دونوں میں موجود ہیں، لیکن ان کتب سماوی میں مدت کی تعیین میں قطعیت نہ تھی ۔ اسلام نے اس سلسلہ میں مدت کا تعیین کیا اور ایک سال کی مدت مقرر ہوئی۔

بیوی کے انتقال کے بعد دوسری شادی کرنا
سوال :   ہمارے معاشرہ کا ایک سلگتا  ہوا مسئلہ ہے ‘ بیوی کے انتقال کے بعد جب مرد حضرات دوسری شادی کرتے ہیں تو پوری اولاد دشمن ہوجاتی ہے ۔ باپ کو کافر یا دنیا کا ذلیل ترین انسان سمجھتے ہیں ۔ جب کسی کا شوہر انتقال کرجاتا ہے تو بیوہ کی خدمت بہو بیٹیاں یا کوئی خاندان کی دوسری عورت کرسکتی ہے  اور کرتی ہے ۔ جبکہ مرد حضرات کی خدمت خود ان کا بیٹا نہیں کرسکتا اور نہ کرتا ہے ۔ ایسے میں اگر کوئی مرد دوسری شادی کرتا ہے تو شرعی احکامات کی روشنی میں کیا یہ عمل غلط ہے ۔ براہ کرم تفصیلی جواب دیں تاکہ معاشرہ میں پھیلی ہوئی غلط فہمی دور ہوجائے اور راحت ملے ۔
محمد سلیم الدین ، اشرف نگر
جواب :   بیوی کے انتقال کے بعد شوہر کا دوسری شادی کرنا شرعاً معیوب نہیں ‘ مسلم معاشرہ میں اس طرح کا رجحان قابل اصلاح ہے ۔ اگر کوئی شخص اس طرح دوسری شادی کرے تو اس کے افراد خاندان کو اپنے رویہ میں تبدیلی نہیں لانی چاہئے۔ تاہم اولاد کو جو اندیشے رہتے ہیں اس کو ملحوظ رکھنا چاہیئے ۔

جماعت تاخیر سے ٹھہرانا
سوال :  نماز کا وقت مقرر ہو مگر امام جماعت کا اہتمام عموماً دیری سے کرے، صرف ذاتی وجوہات کی بناء پر تو کیا ایسی نماز میں قباحت نہیں آئے گی اور امام و موذن فرض نماز سے پہلے کی سنتوں کا اہتمام نہ کرے چاہے وہ سنت موکدہ ہی ہو تو کیا نماز فرض ایسے امام کے پیچھے پڑھنی جائز ہیں ؟
محم بلال، کریم نگر
جواب :  وقت مقررہ پر جماعت کا اہتمام کرنا چاہئے۔ امام صاحب کو بھی اس جانب توجہ کرنا چاہئے ۔ تاہم کسی وجہ سے جماعت تاخیر سے کھڑی ہو تو تاخیر کی بناء جماعت پر کوئی اثر واقع نہیں ہوتا۔ اس طرح امام بغیر سنت ادا کئے نماز پڑھا دے تو نماز ادا ہوجائے گی لیکن امام صاحب کا سنتوں کو بلا وجہ ترک کرنا اور اس کو عادت بنالینا سخت معیوب ہے ۔ امام ، قوم کا مقتدا و پیشوا ہے ۔ اس کو بدرجہ اولی سنت کا اہتمام کرنا چاہئے ۔ وہ خود اس میںکوتاہی کرے تو قوم کے لئے کیا نمونہ ہوگا ۔

بصورتِ علحدگی ،چڑھاوے کا حکم
سوال :  بیوی اپنے شوہر سے خلع کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اگر خلع دے دیا جائے تو بیوی کو مہر دیا جائے گا یا ساقط ہوجائے گا اور بوقت شادی جوڑے کی رقم اور شوہر کے والدین کی جانب سے بیوی کو تحائف و زیورات وغیرہ دئے گئے ہیں آیا اس کے مالک کون ہیں ؟
محمد تاج الدین، متعلم
جواب :  صورت مسئول عنہا میں بیوی اپنے شوہر سے مطالبہ کر کے خلع مانگ رہی ہے اور شوہر اس کو رضامندی کیساتھ چھوڑدے تو ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔ الخلع یفتقر بالایجاب والقبول یثبت الفرقۃ و یستحق علیھا العوض : بصورت خلع اگر عوض کا ذکر نہ کیا جائے تب بھی مہر ساقط ہوجاتا ہے ۔ جیسا کہ شرح و قایۃ جلد 2 با الخلع ص : 132 میں ہے ۔ المھر یسقط من غیر ذکرہ۔
اور سوال میں مذکورہ بوقت شادی جوڑے کی رقم و دیگر تحائف لڑکی والوں کی طرف سے شوہر کو ملے ہیں تو یہ شوہر کی ملک ہیں اسی طرح شوہر کی جانب سے بیوی کو تحائف و زیورات وغیرہ ملے ہیں تو وہ بیوی کی ملک رہیں گے ۔ درحقیقت یہ ایک دوسرے کے حق میں ہبہ ہے ۔ شامی جلد 4 ص : 5 میں ہے ۔ و ھذا یوجد کثیر ابین الزوجین یبعث الیھا متاعا و تبعث لہ ایضا وھو فی الحقیقۃ ھبۃ۔

بیوی سے کبھی قریب نہ ہونیکی قسم کھانا
سوال :  ایک شخص نے اپنی بیوی سے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ میں تم سے زندگی بھر قریب نہیں ہوں گا اور بیوی کو میکے لاکر چھوڑدیا۔ پانچ چھ ماہ اپنے ماں باپ کے پاس رہا پھر بیرون ملک چلے گیا۔ کیا دونوں میں رشتہ باقی ہے یا دوسرے سے نکاح کرسکتے ہیں، نہیں ؟ براہ کرم اس سے متعلقہ تفصیلی احکام بیان فرمائیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔ تاکہ نفس مسئلہ اچھی طرح سمجھ میں آجائے۔
محمد عبدالکریم، خلوت
جواب :  اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی قسم کھائے کہ وہ چار ماہ بیوی سے قریب نہیں ہوگا اور اس قسم  پر چار ماہ کا عرصہ گزر جائے اور اس دوران وہ بیوی سے قربت اختیار نہ کرے تو چار ماہ گزرتے ہی بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہوکر دونوں میں تفریق ہوجائے گی ۔ عالمگیری جلد 1 ص : 476 میں ہے : الایلاء منع النفس عن قربان المنکوحۃ منعامؤکدا بالیمین باللہ … و ان لم یقربھا فی المدۃ بانت بواحدۃ کذا فی البرجندی شرح النقایۃ۔
اور اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے زندگی بھر قریب نہ ہونے کی قسم کھائے اور اس پر چار ماہ گزر جائے تو دونوں میں طلاق بائن کے ذریعہ تفریق ہوجائے گی پھر اگر وہ دونوں باہمی رضامندی سے بقرار مہر جدید دوبارہ عقد کرلیں تو قسم پھر لوٹ کر آئے گی اور بعد شادی چار ماہ کے دوران وہ قربت اختیار کرے تو قسم ٹوٹنے کی وجہ سے اس پر کفارہ لازم ہوگا اور اگر شادی کے بعد وہ چار ماہ تک قریب نہ ہو تو پھر طلاق بائن کے ذریعہ دونوں میں تفریق ہوجائے گی۔ اس میں ہے : وان کان حلف علی الابد بأن قال واللہ لا اقربک ابدا اوقال واللہ لا اقربک ولم یقل ابدا فالیمین باقیۃ الا انہ لا یتکرر الطلاق قبل التزوج فان تزوجھا ثانیا عادالایلاء فان وطئھا والا وقعت بمضی اربعۃ اشھر طلقۃ اخری۔
پس صورت مسئول عنہا میں شوہر نے اپنی بیوی سے زندگی بھر قریب نہ ہونے کی قسم کھائی ہے اس لئے بعد قسم چار ماہ کے دوران شوہر بیوی سے قربت نہ کیا ہو تو چار ماہ گزرتے ہی بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہوکر شوہر سے رشتۂ زوجیت منقطع ہوگیا ۔ اس چار ماہ کے بعد سے ہی عدت (تین حیض) کا شمار ہوگا ۔ بعد مرورِ عدت وہ دوسرے سے نکاح کی شرعاً مجاز ہے۔

مرحوم بھائی کے لڑکوں کی کفالت
سوال :  زید کو تین لڑکے اور دو لڑکیاں تھے۔ ان میں سے ایک لڑکے بکر کا ان کے والد کی زندگی میں انتقال ہوا، جس کی بیوی، دو لڑکیاں اور ایک لڑکا ہے۔ اس کے بعد زید فوت ہوئے۔ اب سوال یہ ہے کہ بکر مرحوم کی اولاد کا نفقہ و کفالت شرعا کس کے ذمہ ہے ؟
عابد حسین، مہدی پٹنم
جواب :   صورت مسئول عنہا میں بکر مرحوم کے لڑکے اور لڑکیوں کے پاس کوئی مال نہ ہو تو ان بچوں کے نفقہ و خرچ کا تین حصوں میں سے ایک حصہ ماں پر بقیہ دو حصے زید کے موجود دونوں لڑکوں کے ذمہ ہے ۔ فتاوی عالمگیری جلد اول کتاب النفقات ص : 516 میں ہے ۔ ولو کان لہ ام وجد فان نفقتہ علیھما اثلاثا علی قدر موار ثیھما الثلث علی الام والثلثان علی الجد و کذلک اذا کان لہ … عم لأب و أو و احد من العصبۃ فان النفقۃ علیھما اثلاثا علی قدر مواریثھما ۔

عرب شہری کے نکاح میں رہتے ہوئے دوسرے سے نکاح کرنا
سوال :   ہندہ نے 14 اپریل 2002 ء کو ایک عرب شہری سے نکاح کیا ۔ بعد ازاں مذکورہ عرب شہری سے ، طلاق یا خلع کے بغیر اپنا نام تبدیل کر کے سیاہہ میں لکھواکر پہلا نکاح ہونا باور کرواکرزید سے 16 اگست 2009 ء کو نکاح کیا ۔ تقریباً تین ماہ قبل زید کو اس دھوکہ دہی کی اطلاع ہوئی ہے۔ ان حالات میں مذکورہ نام کی تبدیلی اور نکاح اول بتاکر زید سے کئے گئے نکاح کے بارے میں شرعاً کیا حکم ہے ؟
نام…
جواب :  غیر کی منکوحہ سے شرعاً نکاح فاسد ہے ۔ ردالمحتار جلد 2 کتاب الطلاق باب العدۃ میں ہے۔ (قولہ نکاحا فاسدا) ھی المنکوحۃ بغیر شھود و نکاح امرأۃ الغیر بلا علم بانھا متزوجۃ۔ نکاح فاسد میں مباشرت ہوئی ہو تو عاقد پر مہر مثل اور مہر مقرر میں سے جو کم ہو وہ واجب ہوگا ۔ اسی کتاب کے باب المہر میں ہے (و یجب مہر المثل فی نکاح فاسد بالوطئی لا بغیرہ) کالخلوۃ لحرمۃ و طئھا ولم یزد مھرالمثل علی المسمی، منکوحۃ الغیر سے نکاح کے بعد علم ہوجانے کے بعد اس سے مباشرت کرنا زنا ہے ایسے شخص پر شرعاً حد زنا واجب ہے ۔ اگر وہ اسلامی ملک ہو ۔ در مختار باب العدۃ میں ہے … ووطئھا عالما بذلک و دخل بھا ولا بدمنہ و بہ یفتی و لھذا یحد مع العلم بالحرمۃ لانہ زنا ۔ البحرالرائق جلد 5 کتاب الحدوہ میں ہے ، لان الوطۂ فی دارالاسلام لا یخلو عن الحد او المھر عقد فاسد کا حکم یہ ہے کہ عاقدین فوری علحدگی اختیار کرلیں۔لہذا ہندہ کا عرب شہری سے رشتہ زوجیت منقطع ک ئے بغیر دھوکہ سے زیدسے شادی کرنا شرعاً گناہ ہے۔ دونوں فی الفور علحدہ ہوجائیں۔