زندہ رہنا ہے تو حالات سے ڈرنا کیسا

مہاراشٹرا اور راجستھان…ہندوتوا ایجنڈہ کی تجربہ گاہ
بہار الیکشن … نتیش ، لالو کا پلڑا بھاری

رشیدالدین
آر ایس ایس کے دربار میں نریندر مودی کی حاضری کے ساتھ ہی ملک میں ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری میں شدت پیدا ہوچکی ہے۔ مہاراشٹر اور راجستھان سے اس کا آغاز ہوا ہے۔ نریندر مودی اور ان کے اہم وزراء نے آر ایس ایس سرسنچالک موہن بھاگوت کو حکومت کی دیڑھ سالہ کارکردگی کی رپورٹ پیش کی تھی۔ اطلاعات کے مطابق سنگھ پریوار نے حکومت پر ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری میں ناکامی پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ سنگھ پر یوار کے منصوبہ کے مطابق مہاراشٹرا، راجستھان اور گجرات سے ایجنڈہ پر عمل آوری کا تجربہ شروع کیا گیا تاکہ بہار کے مجوزہ انتخابات میں بی جے پی کو فائدہ ملے۔ ملک کی سب سے چھوٹی اقلیت جین طبقہ کے مذہبی جذبات کے احترام کے نام پر مہاراشرا ، راجستھان، چھتیس گڑھ اور گجرات میں گوشت کی فروخت پر پابندی عائد کردی گئی۔ جین طبقہ جس کا شمار اقلیت میں ہوتا ہے اور جس کی آبادی تازہ ترین سنسیس کے مطابق صرف 45 لاکھ ہے۔ اس کے مذہبی جذبات کے احترام کا خیال اچانک بی جے پی کو کیوں آیا؟ ظاہر ہے کہ یہ تو محض ایک بہانہ تھا، اصل مقصد ہندوتوا کے ایجنڈہ پر عمل آوری ہے۔ چند دن کیلئے سہی گوشت پر پابندی عائد کرنا نہ صرف دستور کے مغائر ہے بلکہ عوام کو دی گئی مذہبی آزادی کو سلب کرنے کے مترادف ہے۔

جین طبقہ کے مذہبی تہوار کے احترام میں کیا گیا یہ فیصلہ دراصل سماج کو بانٹنے کی ایک کوشش ہے۔ حیرت تو اس بات کی ہے کہ بی جے پی کو کبھی بھی دوسری اقلیتوں کے جذبات کا خیال نہیں آیا۔ کاش بی جے پی کو ملک کی سب سے بڑی اقلیت اور دوسری بڑی اکثریت کے مذہبی جذبات کا بھی اسی قدر خیال ہوتا۔ بی جے پی نے سنگھ پریوار کے اشارہ پر مسلم اقلیت کی دل آزاری اور انہیں نشانہ بنانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ عید اور تہواروں سے عین قبل بی جے پی نے سماج میں نفرت کا زہر گھولنے کی کوشش کی ہے۔ مہاراشٹرا ، گجرات اور راجستھان ہمیشہ سے ہی سنگھ پریوار کے مراکز رہے ہیں، جہاں نفرت کے پرچار اور اس کے پرچارکوں کو تیار کرنے کی فیکٹریاں ہیں۔ سنگھ کے ایجنڈہ پر عمل آوری کیلئے نریندر مودی نے بااعتماد چیف منسٹرس کی ریاستوں کا انتخاب کیا۔ بی جے پی حکومتوں نے گوشت کے کاروبار پر جو پابندی عائد کی ہے، وہ نہ صرف مضحکہ خیز بلکہ کسی بھی اعتبار سے قابل قبول نہیں۔ عوام کب کیا کھائیں اور کیا نہ کھائیں ، اسکا فیصلہ کیا بی جے پی کرے گی ؟ کیا دیویندر فڈنویس اور وسندھرا راجے اب عوام کے کچن پر کنٹرول کریں گے؟ کس نے دیا ان کو یہ اختیار ؟ دستور ہند سے وفاداری اور اس کی پاسداری کا حلف لینے والے چیف منسٹرس دراصل سنگھ پر یوار کی کٹھ پتلی بن چکے ہیں۔ سب کا ساتھ ، سب کا وکاس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک طبقہ کی خوشنودی کے ذریعہ سماج میں نفرت کے جذبہ کو پروان چڑھایا جائے۔ مہاراشٹرا میں بی جے پی کی حلیف شیوسینا نے اس فیصلہ کی مخالفت کی ہے۔ راج ٹھاکرے کی ایم این ایس نے حکومت کے فیصلہ کے خلاف سڑکوں پر احتجاج منظم کیا۔ یہ دونوں پارٹیاں اپنا اپنا ووٹ بینک مضبوط کرناچاہتی ہیں۔ میٹ اور چکن پر پابندی کے خلاف دونوں پارٹیوں نے احتجاج کے ذریعہ کاروباریوں کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اگر حکومت مسلمانوں کے خلاف کوئی فیصلہ کرتی تو یقیناً دونوں جماعتیں حکومت کا ساتھ دیتیں۔ مہاراشٹرا میں بیف پر پابندی ہے لیکن کسی کو مسلمانوںکے مذہبی جذبات کا خیال نہیں۔ دستور کی روح سے ایک مذہب کی رسوم و رواج کو دوسرے مذہب پر مسلط نہیں کیا جاسکتا۔ اس مسئلہ پر خود کو سیکولر قرار دینے والی کانگریس اور این سی پی کی خاموشی معنیٰ خیز ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک وکیل نے ایک ٹی وی مباحثہ میں چبھتے ہوئے سوالات کے ذریعہ کانگریس ترجمان کو لاجواب کردیا۔ دراصل 1964 ء میں کانگریس نے جین طبقہ کے تہوار کے موقع پر گوشت کی فروخت پر 2 روزہ پابندی عائد کی تھی۔ اسی روایت کو جاری رکھتے ہوئے 2004 ء میں کانگریس نے اسے 4 دن کردیا۔ بی جے پی کی فڈنویس حکومت دراصل کانگریس کی روایات پر عمل پیرا ہے۔ دراصل بی جے پی حکومت کو دیگر مذاہب کی دلآزاری کا ہتھیار کانگریس پارٹی نے فراہم کیا ہے۔ اگر مسلمان عیدالاضحی کے موقع پر مہاراشٹرا میں بڑے جانور کی قربانی کی اجازت مانگیں تو کیا حکومت ان کے مذہبی جذبات کا احترام کرے گی ؟ کیا رمضان المبارک کا ایک ماہ شراب کی فروخت پر پابندی کیلئے بی جے پی حکومتیں تیار ہوں گی ؟ کیا مسلمانوں کے مذہبی جذبات کی بی جے پی کے پاس کوئی اہمیت نہیں ؟ ایک قانون داں نے کچھ اس طرح تبصرہ کیا کہ مذہبی جذبات کی سیاست میں کانگریس اور بی جے پی میں کوئی فرق نہیں۔ شاہ بانو مقدمہ کے فیصلے کے بعد مسلمانوں کو خوش کرنے دستور میں ترمیم کی گئی اور پھر اس کے بعد بابری مسجد شہید کی گئی۔

ہندوتوا کے ایجنڈہ پر عمل آوری میں وسندھرا راجے نے دوسری ریاستوںکو پیچھے چھوڑدیا ہے ۔ للت مودی اسکام میں چیف منسٹر کے عہدہ سے برطرف نہ کئے جانے کے عوض انہوں نے مسلمانوں پر دوہرا وار کیا۔ 25 ستمبر کو عیدالاضحیٰ کی عام تعطیل کے باوجود راجستھان حکومت نے اس دن آر ایس ایس کے نظریہ ساز دین دیال اپادھیائے کی جینتی منانے اور تمام کالجس کو کھلا رکھنے کا فیصلہ کیا۔ طلبہ اور اساتذہ کے علاوہ محکہ صحت کے ملازمین بھی اس دن ڈیوٹی پر حاضر رہیں گے اور خون کے عطیہ کی مہم چلائی جائے گی۔ کیا یہی مسلمانوںکے جذبات کا احترام ہے کہ ان کی اہم عید کے موقع پر بھی بی جے پی خوشیاں منانے سے روک رہی ہے۔ مسلمانوں کے احتجاج کے بعد اس فیصلہ کو اختیاری کیا گیا۔ وسندھرا راجے نے تمام اسکولوں میں سوریہ نمسکار کو لازم کیا ہے اور کرسمس کے دن حکومت نے گڈ گورننس ڈے کا اہتمام کرتے ہوئے سرکاری ملازمین کو شرکت کیلئے مجبور کیا تھا ۔ ملک میں ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری میں شدت آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے لئے چیلنج اور امتحان ہے۔ بورڈ نے ملک میں دین اور دستور بچاؤ تحریک کا آغاز کیا ہے ۔ ممبئی وہ سرزمین ہے جہاں مسلم پرسنل لا بورڈ کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اسی سرزمین پر شریعت میں مداخلت کی کوشش کی جارہی ہے۔ راجستھان کے جئے پور میں حال ہی میں پرسنل لا بورڈ کا اجلاس منعقد ہوا تھا لیکن وہاں کی بی جے پی حکومت نے بھی شریعت میں مداخلت میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ ممبئی ہو کہ جئے پور یا پھر احمد آباد ، یہ تینوں مقامات سنگھ پریوار کی تجربہ گاہ میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ بی جے پی حکومتوں نے دین اور دستور دونوں پر حملہ کیا ہے ۔ شریعت میں اس کھلی مداخلت کے باوجود مسلم جماعتوں اور تنظیموں کی خاموشی اور بے حسی معنیٰ خیز ہے ۔ آخر ملک بھر میں شریعت کے تحفظ کا جذبہ ماند کیوں پڑگیا ؟ مسلم پرسنل لا بورڈ کہاں ہے جس نے دین کو بچانے کا بیڑہ اٹھایا ہے ۔ کیا ہر شہر میں ایک پریس کانفرنس اور اجلاس سے دین کو بچایا جاسکتا ہے۔ صرف اخباری بیانات اور جلسوں میں جذباتی تقاریر سے فسطائی طاقتوں کا مقابلہ ممکن نہیں۔ عدالتوںکا فیصلہ ہو تو اسے قانونی لڑائی سے چیلنج کیا جاسکتا ہے جبکہ حکومتوں کے فیصلوں کو سڑک پر چیلنج کرنا ضروری ہے اور یہی جمہوریت کا تقاضہ اور عوام کا حق ہے۔ تادم تحریر مسلم پرسنل لا بورڈ نے بی جے پی حکومتوںکے فیصلوں کے خلاف عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا۔ حکومتوں نے جب کسی حلال شئے کو حرام قرار دیدیا تو پھر علماء کو رہنمائی کرنی چاہئے کہ آیا ایسے حالات میں کیا جہاد فرض نہیں ہوجاتا ؟ جہاد کا مطلب ملک کے دستور اور قانون کی روشنی میں جدوجہد ہے جس سے مسلم سیاسی اور مذہبی جماعتیں کنارہ کشی اختیار کرچکی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ علماء کی دو ٹیمیں جئے پور اور ممبئی پہنچ کر شریعت میں مداخلت کا مقابلہ کریں ورنہ یہ بے حسی سنگھ پریوار کو یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی طرف لے جائے گی۔ ممبئی میں بنات والا اور ضیاء الدین بخاری جیسے قائدین کی کمی آج شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ جنہوں نے ہمیشہ حکومت کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر مخالف مسلم اقدامات سے باز رکھا۔ کہاں ہیں وہ علماء و مشائخ اور مذہبی قائدین جو وقتاً فوقتاً غیر اہم مسائل پر فتوؤں کی سیاست کے ذریعہ اپنی دکان چمکاتے ہیں۔

بیرون ملک کی تنظیموں کو دہشت گرد قرار دینے میں وہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن  ملک میں شریعت میں مداخلت پر وہ خاموش ہیں۔ کیا انہیں حکومت کی ناراضگی  سے خوف لاحق ہے۔ اب وقت آچکا ہے کہ مسلمان اور ان کی قیادتیں  بیان بازی کے بجائے جدوجہد کا راستہ اختیار کریں۔ دوسری طرف بہار الیکشن کا بگل بجتے ہی 3 سیاسی محاذ سرگرم ہوچکے ہیں۔ تاہم اصل مقابلہ این ڈی اے اور عظیم اتحاد کے درمیان ہے جس میں نتیش کمار ، لالو پرساد اور کانگریس پارٹی شامل ہیں ۔ بائیں بازو کی جماعتوں نے تمام نشستوں پر مقابلہ کا اعلان کیا جبکہ سماج وادی پارٹی اور این سی پی بھی میدان میں اترنے کی تیاری میں ہے۔ اس طرح بظاہر سیکولر ووٹ کی تقسیم کا خدشہ دکھائی دے رہا ہے لیکن پھر بھی عظیم اتحاد کو برتری حاصل ہے۔ بہار میں پارٹی کے کمزور موقف سے پریشان بی جے پی قیادت نے عظیم اتحاد میں پھوٹ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ بی جے پی مرکز میں حکومت کی کارکردگی کی بنیاد پر بہار کے عوام کا دل نہیں جیت سکتی لہذا غیر محسوس طریقہ سے ملائم سنگھ یادو کو نتیش کمار کے خلاف چھوڑ دیا گیا۔ ملائم سنگھ نے بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت چلانے کیلئے نتیش کمار کو نشانہ بنایا۔ ملائم سنگھ خود این ڈی اے کا حصہ رہے اور یو پی میں بی جے پی کے ساتھ ان کی مخلوط حکومت رہی۔ اتنا ہی نہیں کلیان سنگھ جیسے شخص کے ساتھ انہوں نے اتحاد کیا تھا ۔ ملائم سنگھ کو سیکولرازم کی دعویداری کا کوئی حق حاصل نہیں۔ نتیش کمار کے ساتھ لالو پرساد یادو ہیں، جن کے سیکولر ہونے پر شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ رام مندر کی تعمیر کیلئے ایل کے اڈوانی کی رتھ یاتراکو روکنے اور گرفتار کرنے کا کارنامہ لالو پرساد کا ہے ۔ انتخابی شیڈول کے اعلان کے ساتھ ہی مختلف اوپنین پول منظر عام پر آئے۔ زیادہ تر اوپنین پول عظیم اتحاد کے حق میں ہیں۔ 53 فیصد عوام نے نتیش کمار کو چیف منسٹر کیلئے اپنی اولین ترجیح قرار دیا ہے جبکہ بی جے پی قائد سشیل کمار مودی کو صرف 18 فیصد ووٹ ملے۔ گزشتہ عام انتخابات میں مودی لہر کے باعث بی جے پی کو 174 اسمبلی نشستوں پر فائدہ ہوا تھا لیکن اس بار مودی لہر کا کوئی اثر نہیں ہے ۔ الغرض بہار کے عوام ترقی اور سیکولرازم کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کرنے کا ذہن بناچکے ہیں۔ یہ الیکشن بی جے پی کیلئے مرکزی حکومت کی کارکردگی پر عوامی ریفرنڈم ہوگا۔ ملک میں جاری نفرت کی اس مہم پر ہمیں معراج فیض آبادی کا یہ شعر یاد آگیا  ؎
زندہ رہنا ہے تو حالات سے ڈرنا کیسا
جنگ لازم ہو تو لشکر نہیں دیکھے جاتے
rasheeduddin@hotmail.com