’’زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے‘‘

ڈاکٹر فاروق شکیلؔ

راگھویندر راؤ جذبؔ عالمپوری
اجمالی تعارف :
نام : راگھویندر راؤ ، قلمی نام : جذبؔ عالمپوری، پیدائش : 20 اپریل 1884 ء ، وفات : 28 ستمبر 1983 ء ، تعلیم : منشی فاضل، ادیب فاضل کے بعد جوڈیشل امتحان کامیاب کیا۔ راجہ رام نرسو سے فارسی اور سید مخدوم حسینی سے اردو اور عربی کی تعلیم حاصل کی۔
کتابیں : ’’ارمغانِ جذبؔ ‘‘ (شعری مجموعہ) ۔ ’’آہنگ جذبؔ‘‘ (شعری مجموعہ) ’’ساز غزل‘‘ (غزلیات کا مجموعہ) ۔ خطاب : ’’خیامِ آندھرا‘‘ (آل انڈیا اردو مجلس کی جانب سے دیا گیا)
امجد حیدرآبادی کے بعد حیدرآباد کے رباعی گو شعراء کی فہرست میں جذبؔ عالمپوری کا نام نمایاں ہے۔ ان کی مادری زبان کنڑی تھی لیکن تلگو نے ان کی پرورش کی اور اردو نے پروان چڑھایا۔ اردو سے بے حد محبت تھی یہی وجہ تھی کہ انہوں نے سنسکرت اور دوسری زبانوں کے ادب کو اردو میں منتقل کیا ۔ جذب کے اعلیٰ افکار اور ان کی شاعری کی پاکیزگی سے متاثر ہوکر پروفیسر خواجہ احمد فاروقی رقم طراز ہیں  ’’کلام استادانہ ہے اور اس لائق ہے کہ اسے لب  ادب سے بوسہ دیا جائے‘‘۔ کلام میںگہرائی و گیرائی اور موضوعات انسانیت ، اخلاق اور نصیحت ہیں ۔ سلاست اور سادگی سے کلام مزین ہے ۔ اردو ادب میں جذبؔ عالمپوری کے نام کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
رباعیات
اخلاق کو تن سے ہے اگرچہ نسبت
دونوں میں بہت فرق ہے لیکن حضرت
تن ہے کہ بہت جلد فنا ہوتا ہے
قائم رہتی ہے انتہا تک سیرت
اصلاح جہاں کا کوئی لایا نہ مزاج
رکھنے والے بہت ہیں شاہانہ مزاج
جاتے رہے وہ لوگ جو دیوانے تھے
اب ہر دل دیوانہ ہے فرزانہ مزاج

منتخب اشعار
وہ ہے دوست اور وہ پیارا یہ سب کہنے کی باتیں ہیں
یہاں کوئی نہیں اپنا یہ سب کہنے کی باتیں ہیں
محبت ہو تو فکر ماسوا ہو ہی نہیں سکتی
وفائیں کیا جفائیں کیا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں
وہ میری جان کے دشمن بنے ہیں
وفا یہ ہے تو باز آیا وفا سے
میں دور اندیش راہ عاشقی ہوں
خیالِ انتہا ہے ابتداء سے

غزل
حذر، ان بیدادِ و جفا سے
یہ خونِ بے گناہی کے ہیں پیاسے
یہ تیزی ، یہ خرام حسن توبہ
وہ چلتے کیا ہیں لڑتے ہیں ہوا سے
پڑی دنیا میں بنیادِ حوادث
ہمارے آشیانے کی بنا سے
مرا دردِ منہاں اب تک نہ سمجھی
گلہ ہے اک نگاہِ آشنا سے
مٹا اتنا مجھے ائے خاکساری
کہ مل جاؤں کسی کے نقش پا سے
مسلم خادم اردو ہوں ائے جذب
فدا کا رانِ اردو کی دعا سے