’’زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے‘‘ وقاؔر خلیل اجمالی تعارف :

ڈاکٹر فاروق شکیل

نام : سید شاہ محمد خلیل الرحمن حسینی کوہ سوار، قلمی نام : وقاؔر خلیل، پیدائش :  29 اگست 1930 ء ، وفات : 2 نومبر 1998 ء ، تعلیم : میٹرک ، منشی ، منشی فاضل (ویسٹرن یونیورسٹی جالندھر) ، کتابیں : (1) محمد قلی قطب شاہ کی جیون کہانی (2) ورثہ  (مجموعہ کلام) (3) روشنی ہی روشنی (نامور شعراء کی نعتیں) (4) ’’شاعری ‘‘ ( مجموعہ کلام) (5) ’’سخن‘‘ (مجموعہ کلام)
وقارؔ خلیل نہ صرف ممتاز شاعر تھے بلکہ بہترین ادیب اور صحافی بھی تھے ۔ ان کی ادبی و صحافتی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ 1956 ء سے 1998 ء تک ڈاکٹر زور کے ’’ادارہ ادبیات اردو‘‘ اور ایوان اردو سے وابستہ رہے ۔ابتداء میں ماہنامہ ’’سب رس‘‘ کے مدیر اور آخر وقت تک اردو کے شعبہ امتحانات کے انچارج رہے ۔ گوپی چند نارنگ رقم طراز ہیں۔ وقارؔ خلیل کو میں سراپا رہین سعی اور عمل پیہم تصور کرتا ہو ں۔ شاعری سے ان کی ایسی محبت ہے جو ان کی زندگی کے عملی پہلو کو تقویت پہنچاتی ہے۔
وقاؔر خلیل کے کلام میں ترقی پسند رجحانات ، اخلاقی اقداراور عصری احساسات کا گہرا شعور ہے ۔ وقاؔر خلیل نے اپنی اردو خدمات ، شاعری اور صحافت کے حوالے سے اردو کی ساری بستیوں میں اپنے ارتسامات ثبت کئے ہیں۔ وقار خلیل کے دو لائق و فائق فرزندان عقیل الرحمن اور عظیم الرحمن نے  اپنے والد کی ادبی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے اردو کا ایک خوبصورت پندرہ روزہ رسالہ ’’وقار ہند‘‘ جاری کیا جو مختصر عرصہ  میں ہندوستان کا مقبول عام اردو رسالہ بن چکا ہے۔
منتخب اشعار :
بڑے جتن سے چھپاکر رکھا تھا ہم نے جسے
وہ ایک خو اب بھی کم کم رہا ہے آنکھوں میں
راتوں کا کرب غم کا دھواں ساتھ ساتھ ہے
کیا کیجئے کہ شعلۂ جاں ساتھ ساتھ ہے
جب بھی یادوں کے تسلسل کی کوئی بات چلی
ہم نے دیکھا ہے کہ آنکھوں میں بھر آیا پانی
ہر آنکھ ایک فساد سنا رہی ہے وقاؔر
کہانیوںکو ہماری نظر سے نسبت ہے
کبھی تو یوں بھی ہوا ہے کہ دل میں اُترا ہے
وہ اک خیال جو برہم رہا ہے آنکھوں میں
نظریں اُٹھتی ہیں تو مغموم دریچوں کی طرف
اور کیا دیکھتے خود اپنا ہی چہرہ دیکھیں
میں راہ چلتے ہوئے روز قتل ہوتا ہوں
عجیب وہم سا ہونے لگا ہے ایسا کیوں
ہر اک مصرع رخ انوار کو آئینہ دکھاتا ہے
تمہاری یاد میں جب ڈوب کر اشعار لکھتے ہیں۔
قطعہ
زندگی حرف نارسا ہے ابھی
یعنی خوابوں کی اک ردا ہے ابھی
ہاتھ اٹھاؤ دعا کرو لوگو
بابِ رحمت جو نسیم وا ہے ابھی
غزل
اس کی آواز سنیں روپ انوکھا دیکھیں
زینۂ شام سے مہتاب اُترتا دیکھیں
سوچتی آنکھوں نے ہر روپ بدلتے دیکھا
جھیل کے پار جو منظر ہے اسے کیا دیکھیں
ویسے مدت ہوئی خوشبو کا سفر ختم ہوا
راستے بھاگ رہے ہیں کہ تماشا دیکھیں
کتنے منظر تری آنکھوں نے دکھائے ہم کو
اب یہ سوچا ہے کہ دیکھیں تو اُجالا دیکھیں
لوگ کہتے ہیں کہ ٹوٹا ہے سرابوں کاطلسم
پیاس کے شہر سے گزرے ہیں تو دریا دیکھیں
مطلع ذہن پہ ظلمت کا تسلط ہے ابھی
روشنی تیز اگر ہو تو سویرا دیکھیں
شعر کہتے ہوئے کیا سوچتے رہتے ہو وقارؔ
انجمن دیکھ چکے فرد کو تنہا دیکھیں