’’زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے‘‘ حیرتؔ بدایونی

ڈاکٹر فاروق شکیل

اجمالی تعارف :
اصل نام : سید حسن ، قلمی نام : حیرتؔ بدایونی ، پیدائش : 15 ربیع الاول 1894 ء ، وفات : 15 فروری 1975 ء ، تعلیم : گھر پر فارسی کی تعلیم ، مدرسہ شمس العلوم اورمدرسہ قادریہ (بدایوں) سے عربی نصاب کی تکمیل ، الہ یونیورسٹی سے ملا کا امتحان اور پنجاب یونیورسٹی  سے مولوی عالم ، منشی فاضل اور مولوی فاضل کا امتحان کامیاب کیا ۔ کتابیں : ’’ایربق‘‘ (فارسی کلام) ’’آئینہ‘‘ اردو مجموعہ کلام ۔ اس کے علاوہ بچوںکیلئے بھی کئی کتابیں لکھیں۔
حیرتؔ بدایونی کے جد اعلیٰ قاضی محمد جلیس سے شہنشاہ اورنگ زیب نے فتاویٰ عالمگیری مرتب کروائی تھی ۔ حیرتؔ بدایونی کو شاعری ورثے میں ملی تھی ، ان کے دادا ، والد چچا اور بھائی بھی شاعر تھے ۔ انہیں فن عروض اور زبان و بیان پر قدرت حاصل تھی ۔ کلام میں استادانہ رنگ تھا ۔ فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں ان کا کلام ہے ۔ کلام میں گہرائی و گیرائی ہے اور کلاسیکیت سے بھرپور ہے۔ حیرتؔ بدایونی بڑے وضع دار، خوش گو، بذلہ سنج بزرگ تھے ، ان کی حا ضر جوابی اور شگفتہ مزاجی مشہور تھی ۔ ان کے دو فرزندان اورایک صاحبزادی نے دنیائے علم و ادب میں بڑی شہرت حاصل کی ۔ افضل محمد وائس چانسلر ڈاکٹر بی آر امبیڈکر یونیورسٹی اور JNTU کے وائس چانسلر تھے ۔
ایک اور فرزند احمد جلیس ڈائرکٹر دوردرشن بنگلور تھے اور صاحبزادی ممتاز افسانہ نگار پدم شری ڈاکٹر جیلانی بانو ہیں ۔ حیرتؔ بدایونی مشہور و معروف ماہر نشریات و ممتاز شاعر اسلم فرشوریٰ کے پھوپا تھے ۔ حیرتؔ بدایونی نے حیدرآباد کی شعری ، ادبی ، علمی اور تہذیبی زندگی میں اپنے گہرے نقوش ثبت کئے ہیں۔
منتخب اشعار :
کسی سے بھی بلندی عشق کی جانی نہیں جاتی
خرد بھی ماورائے حدِ امکانی نہیں جاتی
اسی کو چاہتا ہے جس نے ٹکڑے کردیئے دل کے
نہیں جاتی دل ناداں کی نادانی نہیں جاتی
شکستوں پر شکستیں زندگی بھرمیں نے کھائی ہیں
مگر پھر بھی تمناؤں کی طغیانی نہیں جاتی
تری ہستی بھی وہ ناقابلِ انکار ہستی ہے
وہاں سنوائی جاتی ہے جہاں مانی  نہیں جاتی
کچھ ایسی چھا گئی ہیں عشق کی نیرنگیاں حیرتؔ
کہ مجھ سے بھی اب اپنی شکل پہچانی نہیں جاتی
خر سنی جو قفس میں بہار آنے کی
نظر میں پھر گئی تصویر آشیانے کی
طلوعِ صبح بھی دیکھا فروغِ ایمن بھی
مگر وہ بات کہاں اُن کے مسکرانے کی
عجلتِ عرضِ تمنا وجہۂ رسوائی ہوئی
ائے دلِ ناداں تجھی سے ناشیکبائی ہوئی
میری ہستی ہے ترے موجود ہونے کی دلیل
میری زیبائی سے تیری جلوہ آرائی ہوئی

غزل
نئے فتنے اُٹھاتے انقلابِ بحر و بر کرتے
وہ آتے ہیں نظام دہر کو زیر و زبر کرتے
کفایت ایک ہی آنسو پہ کی تھی اور رخصت ہوگئے
ہم اپنی داستاں آخر کہاں تک مختصر کرتے
جو اُن کی نرگسِ مخمور کا دیدار ہوجاتا
انہیں آنکھوں سے ہم بھی سیر دنیائے دگر کرتے
ہم آئے ہیں نئی دنیا سے جانا ہے نئی دنیا
جہانِ رنگ و بو میں بھی نکل آئے سفر کرتے
خبر ہوتی کہ دل خود جلوہ گاہِ خاص ہے ان کی
تو پھر حیرتؔ ہم ان کی جستجو کیوں در بدر کرتے