کے این واصف
حکومت تلنگانہ نے کچھ عرصہ قبل این آر آئیز کی فلاح و بہبود کیلئے اقدامات کی پہل کی تھی ۔ اس سلسلے میں حکومت نے ریاست تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے این آر آئیز اور یہاں کام کر رہی سماجی تنظیموں سے گلف این آر آئیز کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کیلئے مشورے و تجاویز طلب کئے تھے ۔
حکومت تلنگانہ کی مجوزہ این آر آئی پالیسی کیلئے ریاض کی مختلف تنظیموں کی تجاویز حاصل کرنے کی غرض سے سماجی تنظیم آل انڈیا یونائٹیڈ سوسائٹی ریاض کی جانب سے ایک مشاورتی اجلاس کا اہتمام کیا گیا تاکہ مختلف این آر آئیز کی تجاویز پر مشتمل ایک میمورنڈم تیار کر کے وزارت این آر آئیز امور حکومت تلنگانہ کو روانہ کیا جائے ۔ اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے معروف سحافی محمد سیف الدین نے اپنے کلیدی خطبہ میں پاؤر پوائنٹ ، پریزینٹیشن کے ذریعہ تارکین وطن کے مسائل کو چار زمروں میں پیش کیا ۔ ان میں متلاشیان روزگار ، خلیج کے گھریلو ملازمین ، عام خلیجی ملازمین اور وطن واپس لوٹنے والے تارکین وطن کے مسائل شامل تھے ۔ سیف نے بتایا کہ اپنے آجر کے گھر سے فرار ہونے والی اکثر خادمائیں ملازمت اختیار کرنے کے ابتدائی ایام میں ہی یہ قدم اٹھاتی ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ضرور کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے جو انہیں بیرون ملک کے اجنبی ماحول سے ہم آہنگ نہ ہونے سے پیدا ہوتا ہے ۔ یہ مسئلہ کبھی کبھی نوجوان مرد کارکنوں یا دیگر ملازمین میں دیکھا جاتا ہے ۔ یہ لوگ ایمبسی کے کمیونٹی ویلفیر شعبہ سے رجوع ہوتے ہیں اور اپنے وطن واپس بھیجوانے کی درخواست کرتے ہیں۔ انہوں نے حکومتِ تلنگانہ کی وزارت این آر آئی امور سے درخواست کی کہ اس قسم کے مسائل سے دوچار ہوئے چند افراد سے گفتگو کر کے اس مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرے ، ان کیلئے Orientation پروگرام کا ہتمام کرے تاکہ ایسے واقعات کی روک تھام ہوسکے۔ خلیجی ممالک میں مقیم تارکین وطن کے مسائل پرمبنی انگریزی کتاب Expat Ride کے مصنف اور معروف ویب سائیٹ yahind.com کے جوائنٹ ایڈیٹر محمد سیف الدین نے حکومت تلنگانہ سے اپیل کی کہ ریاست میں خلیجی ممالک کے مبینہ آزاد ویزوں کی غیر قانونی تجارت پر قابو پانے کیلئے سخت اقدام کئے جائیں اور نوجوانوں میں اس بات کا شعور بیدار کیا جائے کہ غیر قانونی طریقوں سے بیرونی ممالک کے سفر سے اجتناب کریں۔
اس ویب سائیٹ yahind.com کے CEO سید ضیاالرحمن جو ریاست تلنگانہ کی وزارت این آر آئی امور کے حیدرآباد میں اہتمام کردہ مشاورتی اجلاس میں شریک تھے ، نے اس اجلاس کی روداد سے حاضرین کو تفصیلی طور پر واقف کرایا ۔ انہوں نے کہا کہ ٹی آر ایس کے جواں سال قائد و وزیر این آر آئیز امور کے تارک راما را ؤ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باصلاحیت نوجوان ہیں جن سے کافی توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ انہوں نے خلیجی ممالک سے وطن لوٹنے والے تلنگانہ کے باشندوں کی بازآبادکاری پر زور دیتے ہوئے اس مسئلہ کے حل کیلئے اپنی تجاویز پیش کیں۔ صدر تلنگانہ این آر آئیز محمد عبدالجبار نے بھی بار آبادکاری کے مسئلہ کے حل پر روز دیا ۔ صدر تلگو کلا کشترم وینو مادھو نے خلیجی ممالک میں فوت ہونے والے ہندوستانی باشندوں کی لاشوں کو وطن بجھوانے میں درپیش مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ خلیجی ممالک اور ہمارے وطن ہندوستان دونوں جگہ قانونی امور کی تکمیل کیلئے طویل وقت لگتا ہے ۔ کئی لاشیں ایک ایک سال تک مردہ خانون میں رکھی رہتی ہیں۔ انہوں نے حکومت سے اس کارروائی کو آسان بنانے پر زور دیا۔ مینجنگ ڈائرکٹر سکس انٹرنیشنل اسکول ریاض نے اس اجلاس سے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تلنگانہ خلیجی ممالک سے کثیر زر مبادلہ حاصل ہوتا ہے لیکن ان کے مسائل پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی ۔ انہوں نے حکومت تلنگانہ سے اپیل کی کہ خلیجی این آر آئیز کے مسائل پر خصوصی توجہ دے کیونکہ تلنگانہ کے لاکھوں کی تعداد میں یہ باشندے حکومت پر بوجھ بنے بغیر ریاست کیلئے ریونیو پیدا کرتے ہیں ۔ نائب صدر گولڈن تلنگانہ اسوسی ایشن امجد حسین زبیر نے کہا کہ متوسط اور چھوٹے سرمایہ کاروں کیلئے خصوصی اور پرکشش اسکیمات متعارف کرائی جائیں۔اس ریاست کو اقتصادی فائدہ حاصل ہوگا ۔ صدر حرا ایجوکیشن سوسائٹی سالم زبیدی نے این آر آئیز کالونی کیلئے علحدہ فنڈس مختص کئے جانے کا مطالبہ کیا جبکہ سماجی کارکن محمد مظفر الدین نے ہندوستانی تارکین وطن کی ا پنے سفارت خانے میں رسائی اور متعلقہ عہدیداروں سے ملاقات کو آسان بنائے جانے پر زور دیا تاکہ ان کے مسائل کی یکسوئی یقینی ہو۔ میزبان محفل صدر آل انڈیا یونائٹیڈ سوسائٹی ڈاکٹر اشرف علی نے محمد سیف الدین کی صحافتی خدمات کو سراہا اور تلنگانہ این آر آئیز مسائل کی یکسوئی جدوجہد کرتے رہنے کا یقین دلایا ۔ اسوسی ایشن کے نائب صدر محمد رفیق نے بھی اجلاس سے خطاب کیا ۔ انجنیئر محمد عزیز الدین نے اجلاس کی کارروائی چلائی جبکہ سید مقصود حسین نے بطور نگران اجلاس تمام تجاویز کو نوٹ کیا ۔ مختلف تنظیموں کی جانب سے پیش کردہ تجاویز کو آل انڈیا یونائٹیڈ سوسائٹی نے مشترکہ قرارداد کے طور پر حکومت تلنگانہ کو روانہ کیا ۔
دوسری جانب این آر آئیز کی بازآبادکاری کے سلسلے میں عمان میں ڈاکٹر رنگیا کی قیادت میں اور کویت میں ہری پرساد کی قیادت میں گروپس کام کر رہے ہیں ۔ ان گروپس نے حکومت کی جانب سے قائم انڈسٹریل سٹی Skill Development Centre اور Corridor ITجیسے پروگرامس سے اپنا رابطہ بنایا اور وطن واپس ہونے والے این آر آ ئیز کی رہنمائی کرتے ہوئے حکومت کے ان پروگرامس سے فائدہ اٹھانے کے انتظام کر رہے ہیں۔ دس لاکھ جیسے چھوٹے سرمایہ سے بھی این آر آئیز کو اپنا کاروبار شروع کرنے کیلئے تمام ممکنہ سہولتیں حاصل ہونے میں مدد اور رہنمائی کر رہے ہیں۔ ہماری دیگر تنظیموں کو بھی ان خطوط پر کام کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے تاکہ خلیجی این آر آئیز کی بازآبادکاری میں سہولت پیدا ہو۔
بتایا گیا کہ حکومت نے این آر آئیز پالیسی پروگرام پر عملی اقدام کا آغاز کردیا ہے ۔ اس کے تحت ابتدائی طور پر انڈسٹریل سٹی کے قیام کو عملی جامہ پہنایا گیا ہے ۔ دوسری طرف سارے تلنگانہ میں ویزوں کا کاروبار کرنے والے غیر مجاز ایجنٹوں کی سخت تفتیش کا آغاز کردیا گیا ہے جس سے نوجوانوں کو ٹھگنے والوں کی دکانیں جلد بند ہوجائیں گی۔ تیسرے یہ کہ خلیجی ممالک میں انتقال کرجانے والے تلنگانہ این آر آئیز کی لاشیں جو حیدرآباد ایرپورٹ میں آتی ہیں لواحقین کو لاش حاصل کرنے میں کئی دشواریوں کا سامنا رہتا ہے ۔ ان مسائل کے ازالہ کیلئے حیدرآباد کے گاندھی انٹر نیشنل ایرپورٹ پر ایک پولیس آؤٹ پوسٹ قائم کردیا گیا ہے تاکہ لوگ میت حاصل کرنے کی تمام دستاویزی کارروائی احاطہ ایرپورٹ ہی میں نمٹا کر میت حاصل کریں اور بعجلت آخری رسومات انجام دے سکیں۔ بتایا گیا کہ ریاست تلنگانہ کے خلیجی ممالک میں انتقال کرجانے والوں اور حادثات میں زخمی ہونے والوں کی مدد کیلئے بھی حکومت نے ایک خاص فنڈ مختص کیا ہے ۔ حکومت تلنگانہ کی وزارت این آر آئیز امور نے ریاست کیرالا جہاں ایک عرصہ سے علحدہ این آر آئیز امور کی نگرانی کیلئے وزارت قائم ہے این آر آئیز کی فلاح و بہبود اسکیموں پر معلومات حاصل کر رہی ہے تا کہ تلنگانہ این آر آئی پالیسی کو موثر بنایا جاسکے ۔ نیز حکومت نے خلیجی ممالک میں ملازمت حاصل کرنے والوں کیلئے Orientaion پروگرام اور کونسلنگ وغیرہ پروگرام شروع کیا ہے۔
این آر آئیز کی فلاح و بہبود کے سلسلے کی اس گفتگو کو ختم کرنے سے قبل ہم اس کالم میں 1990 ء کی دہائی میں دی گئی ایک تجویز کا ذکر کرنا چاہیں گے ۔ ہم نے اس وقت کی متحدہ آندھرا حکومت کو اپنے کالم کے ذریعہ این آر آئیز کی فلاح و بہبود کے سلسلے میں کچھ تجاویز پیش کی تھیں جس میں ایک تجویز یہ تھی کہ حکومت ایک ’’گلف این آر آئیز اسٹیٹ انشورنس ادارہ‘‘ قائم کرے جس میں تمام این آر آئیز کو ممبر ہونے کی ترغیب دے اور اس کی سہ ماہی ، ششماہی یا سالانہ پریمیم کی ادائیگی کو ان کے بینک سے مربوط کرے تاکہ یہ پریمیم کی رقم پابندی کے ساتھ انشورنس ادارے میں جمع ہوجائے جس سے ایک بھاری رقم انشورنس ادارے میں جمع ہوگی جس سے حکومت این آر آئیز کی فلاح و بہبود کے کام بہ آسانی انجام دے سکے گی ۔ یہ انشورنس پالیسیز مختلف نوعیت کی ہوسکتی ہیں۔ ہمارے اس کالم میں پیش کردہ تجاویز پر مشتمل ایک تفصیلی میمورنڈم تیار کر کے اس وقت کچھ سماجی کارکنان کے حکومت کو پیش بھی کیا تھا ۔ اس میمورنڈم کی پیشکشی کے بعد سماجی کارکنان کی مسلسل پیروی اور دباؤ کے باوجود تجویز کردہ ا سکیم اور این آر آئیز وزارت تو نہیں بلکہ سکریٹریٹ میں ایک NRI’s Cell قائم کیا گیا تھا اور ایک وزیر کو اس کا انچارج مقرر کیا گیا تھا مگر اس Cell نے این آر آئیز کی فلاح و بہبود کے سلسلے میں کوئی خاص کام انجام نہیں دیئے ۔ مگر اب جبکہ ریاست تلنگانہ نے این آر آئیز امور کی وزارت قائم کردی ہے تو اب یہ وزارت مجوزہ انشورنس ادارہ قائم کرسکتی ہے اور اس میں مختلف قسم کی انشورنس پالیسیز متعارف کر کے این آر آ ئیز کی مدد کو یقینی بنایا جاسکتا ہے ۔
knwasif@yahoo.com