فیض محمد اصغر
اس کرہ ارض پر روہنگیائی مسلمان انتہائی مظلوم انسان ہیں جن کے ساتھ مائنمار کی حکومت اور بدھسٹ دہشت گرد تنظیمیں غیر انسانی سلوک روا رکھی ہوئی ہیں ۔ حکومت مائنمار جہاں ان بے بس و بے کس مجبور روہنگیائی مسلمانوں کو ان کے شہری حقوق سے محروم کررہی ہے وہیں انتہائی درندگی کے ساتھ ان بیچاروں کے انسانی حقوق بھی پامال کئے جارہے ہیں ۔ حکومت انہیں اپنا شہری تسلیم کرنے سے انکار کرنے کے جرم کا بھی ارتکاب کررہی ہے ۔ ان لوگوں کو زبردستی اپنے گاؤں ، شہروں اور علاقوں سے نکالا جارہا ہے ۔ ایسے حالات پیدا کئے جارہے ہیں کہ وہ خود زندگی سے فرار اختیار کرکے موت کی جانب رواں دواں ہوں ۔ حد تو یہ ہے کہ حکومت ان مظلوم مسلمانوں سے زبردستی سرکاری پراجکٹس کے لئے مزدوری کروارہی ہے ۔ روہنگیائی مسلمان حکومت کی اجازت کے بغیر شادی تک نہیں کرسکتے ، ان کی زندگیاں اجیرن کردی گئی ہیں ۔ حالیہ تاریخ کے دوران برما کی سرزمین اور اس کے اطراف واکناف کے سمندروں نے ایسے دردناک مناظر دیکھے ہیں جس میں ماں باپ کی نظروں کے سامنے نوجوان بیٹے سمندروں کی نذر ہورہے تھے ۔ انسانی اسمگلنگ کا کاروبار کرنے والے درندوں کے ہاتھوں روہنگیائی مسلمانوں کی عورتوں اور بیٹیوں کی عزت و ناموس پامال کی جارہی تھی ۔ حالات سے تنگ روہنگیائی مسلمانوں نے جب ملیشیا ، انڈونیشیا ، تھائی لینڈ اور بنگلہ دیش کی جانب کوچ کرنا شروع کیا تب وہ انسانی اسمگلنگ کے دلالوں کے ہتھے چڑھ گئے ۔
یہ ایسا منظر تھا کہ دیکھنے والوں کے کلیجے پھٹ جاتے ، ان کی آنکھوں سے رواں ہونے والوں آنسوؤں کا سلسلہ نہ تھمتا ۔ ظالم بھی کانپ جاتا شاید شیطان سے شرماجاتا ۔ لیکن شرمناک بات یہ ہے کہ دنیا میں امن کا دعویدار اقوام متحدہ UNO کو اس روہنگیائی مسلمان ماں کے سینے سے لگی اس کے کمسن بیٹے کی سر کٹی لاش نظر نہیں آئی ۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ عالمی ادارہ قوت بصارت سے محروم ہوگیا ہے تب ہی تو ایسے روہنگیائی مسلمانوں پر حکومت مائنمار اور بدھسٹ انتہا پسندوں کے مظالم نظر نہیں آتے ۔ سرزمین برما پر شہید کی جارہی مساجد اسے دکھائی نہیں دیتی ۔ یہی حال اقوام متحدہ کی قوت سماعت کا ہوگیا ہے اسے روہنگیائی بوڑھوں ، جوانوں ، عورتوں اور بچوںکی چیخیں سنائی نہیں دے رہی ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ ، اسرائیل کے مفادات کی تکمیل کیلئے ہمیشہ تیار رہنے والے اقوام متحدہ سے ان روہنگیائی باشندوں کو صرف اسلئے نظر انداز کیا ہے کیونکہ وہ مسلمان ہیں ۔ ہندوستان میں جب ہندو فرقہ پرستوں نے چند گرجا گھروں پر حملے کئے اور ایک ضعیف راہبہ کی اجتماعی عصمت ریزی کا انسانیت سوز واقعہ پیش آیا تب امریکی صدر بارک اوباما سے لیکر پوپ فرانسس نے بھی تشویش ظاہر کی ۔ امریکی کانگریس کی انسانی حقوق سے متعلق کمیٹی سے لیکر ایمنسٹی انٹرنیشنل پریشان ہوا ہے لیکن ہزاروں کی تعداد میں روہنگیائی مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا تو کسی نے آواز اٹھانے کی زحمت نہیں کی ۔ دوسری جانب دنیا کے زائد از 57 مسلم ممالک نے بھی اپنے اسلامی بھائیوں اور بہنوں برمائی شیطانوں کے ہاتھوں لٹنے مٹنے کے لئے چھوڑ دیا ۔ 1971ء میں پاکستانی فوج کے ہاتھوں غیر انسانی اور وحشیانہ سلوک برداشت کرنے کا دعوی کرنے والی بنگلہ دیشی قوم نے بھی روہنگیائی مسلمان کے لئے اپنی سرحدیں بند کردیں اور انہیں سمندروں میں ڈھکیل دیا ۔ افسوس اس بات پر ہے کہ ایسے پریشان حال مسلم بھائیوں کو مرنے کے لئے چھوڑنے والا بنگلہ دیش خود کو ایک مسلم اکثریتی ملک کہتا ہے حالانکہ برمائی اور بنگلہ دیشی مسلمانوں میں وضع قطع ، صورت شکل ہر لحاظ سے یکسانیت پائی جاتی ہے ۔
انسانی اسمگلروں کے گروہوں نے حالات کے ستائے ہوئے روہنگیائی مسلمانوں کو ایسے نوچ نوچ کر کھایا جس طرح بھوکے کتے پھینکی ہوئی ہڈیوں پر لپک کر نوچ نوچ کر کھاتے ہیں ۔ اکثر مسلم ممالک بھی روہنگیائی مسلمانوں سے صرف زبانی ہمدردی کررہے ہیں ۔ یہ اچھی بات ہے کہ سعودی عرب ترکی کے زور دینے پر تنظیم اسلامی کانفرنس نے حسب روایت روہنگیائی مسلمانوں کے حق میں کچھ لب کشائی کی ہے لیکن اس میں مائنمار حکومت پر برہمی کا اظہار کرنے کی تھوڑی سی بھی جرأت و ہمت نہیں ۔ موجودہ حالات سے تو ایسا لگ رہا ہے کہ سرزمین برما کو ایک اور محمد بن قاسم کا انتظار ہے ۔ جو چن چن کر روہنگیائی مسلمانوں پر ڈھائے گئے اور ڈھائے جارہے مظالم کا بدلہ لے سکے ۔ اکثر اسلامی اور عام مسلمان روہنگیائی مسلمانوں کے بارے میں جانتے ہی نہیں یہ دراصل مغربی برما میں رہنے والے مسلمان ہیں اور ان کی اکثریت ریاست رکھائیں میں مقیم ہے ۔ اس ریاست کی سرحدیں بنگلہ دیش اور خلیج بنگال سے متصل ہیں ۔ ایک اندازہ کے مطابق 15 تا 20 لاکھ روہنگیائی مسلمان ریاست کے مغربی حصہ میں خوف کی زندگی گذار رہے ہیں ۔ ان میں سے ہزاروں بنگلہ دیش ، سعودی عرب ، پاکستان ، تھائی لینڈ اور ملیشیا فرار ہوچکے ہیں ۔ حکومت برما انہیں اپنا شہری تسلیم نہیں کرتی ۔ ملک کا قانون شہریت 1982 ء روہنگیائی مسلمانوں کو برما کے نسلی شہری تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے ۔ حکومت نے خود کو برما کا شہری ہونے کی حیثیت سے تسلیم کروانے کے لئے مسلمانوں پر سخت ترین شرائط عائد کی ہیں ان سے کہا گیا ہے کہ وہ اگر شہریت چاہتے ہیں تو پہلے یہ ثابت کریں کہ ان کے آبا و اجداد 1823 ء سے قبل اس ملک میں آباد ہوئے ۔ حقوق انسانی کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ ایسی شرط ہے جس کی صرف چند خاندانوں نے تکمیل کی ہے ۔ یہ شرط دراصل روہنگیائی مسلمانوں کو شہریت سے روکنے کے لئے عائد کی گئی ، حکومت نے مسلمانوں کو شہریت دینے سے ہی انکار نہیں کیا بلکہ روہنگیائی بچے سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل نہیں کرسکتے ۔ سرکاری محکموں میں انہیں ملازمت نہیں دی جاتی ۔ حق رائے دہی سے بھی وہ محروم ہیں ۔ مسلمانوں کو صوبہ راکھین سے باہر جانے کی اجازت نہیں ۔ سرکاری پراجکٹ پر بنا رقم دئے روہنگیائی مسلمانوں سے زبردستی کام لیا جاتا ہے ۔ ظلم کی انتہا ہیکہ سات برس کی عمر کے معصوم بچوں سے بھی مزدوری کروائی جاتی ہے ۔ برما میں 28 مئی 2012ء سے مسلمانوں پر ظلم و جبر کی حد کردی گئی ۔ یہ افواہ پھیلائی گئی کہ مسلم نوجوانوں نے ایک بدھسٹ خاتون کی عصمت ریزی کرتے ہوئے اس کا قتل کردیا ۔ اس واقعہ کے بعد ایک سرکاری چیک پوائنٹ 10 مسلمانوں کا انتہائی بے دردانہ انداز میں قتل کیا گیا ۔ اس طرح رکھائیں اسٹیٹ میں فسادات پھوٹ پڑے ۔ سیکورٹی فورسس 75 ہزار مسلمانوں کو ان کے گھر سے بے گھر کردیا اور کثیر تعداد میں مسلم مردوں کو گرفتار کیا ۔ مسلمانوں پر کئی مقامات پر حملے کئے گئے ۔ چند دنوں میں ہی 40 ہزار مسلمان گھر بار چھوڑ کر فرار ہوگئے ۔ کم از کم 100 لوگ مارے گئے ۔ ان میں شیر خوار بچے بھی تھے ۔ فسادات میں مسلمانوں کے خلاف سیکورٹی فورسس سرکاری ملازمین نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ اقوام متحدہ کے ایک ادارہ کے مطابق ایک لاکھ چالیس ہزار مسلمان اب بھی برما میں ہی لگائے گئے عارضی کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گذار رہے ہیں ۔ برما میں 90 فیصد بدھسٹ ہیں جو اقلیتوں کو برداشت نہیں کرتے حالانکہ بدھسٹوں کا دعوی ہوتا ہے کہ گوتم بدھ نے عدم تشدد کی تعلیم دی ہے ۔ اگر آج گوتم بدھ بھی ہوتے تو وہ بدھ دہشت گردوں کی شیطانیت کو دیکھ کر شرمسار ہوجاتے ۔ برمائی مسلمانوں کا قصور ہے کہ پہلے جنگ عظیم میں جب جاپان نے 1941 کے دوران برما پر قبضہ کیا اس وقت ان لوگوں نے برطانیہ سے وفاداری کی ۔
1978ء اور 1991 کے دوران بھی فوجی کارروائیاں کی گئیں جس کے نتیجہ میں تقریباً 5 لاکھ روہنگیائی مسلمانوں کو اپنی زندگیاں بچانے کے لئے فرار ہونا پڑا ۔ موجودہ حالات میں اقوام متحدہ امریکہ یا خود کو مہذب ہونے کا دعوی کرنے والے ممالک کی جانب امید کی نظروں سے دیکھنے کے بجائے خود مسلم ممالک کو اپنے مظلوم برمائی مسلم بھائیوں کی مدد کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں ۔ اس سلسلہ میں سعودی عرب ، ترکی اور دیگر خلیجی ممالک حکومت برما پر زبردست دباؤ ڈال سکتے ہیں ۔ اب بھی مسلم ممالک اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں کرپارہے ہیں تو ایک دن وہ خود بھی ایسی ہی مصیبتوں کا شکار ہوسکتے ہیں جس سے آج روہنگیائی مسلمان گذر رہے ہیں ۔ روہنگیائی مسلمانوں کو زبانی ہمدردی کی نہیں بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے ۔