میرا کالم مجتبیٰ حسین
ہمارے ایک خیر خواہ س ۔ ح ۔ ایاز نے جو حیدرآباد کے محلہ ملے پلی میں رہتے ہیں ، ایک خوبصورت خط لکھتے ہوئے ایک دلچسپ موضوع کی نشاندہی فرمائی ہے اور ہم سے خواہش کی ہے کہ ہم اس موضوع کے بارے میں اپنے ناچیز خیالات (ان کی نظر میں فکر انگیز خیالات) کا اظہار کریں ۔ اصل موضوع کی نشاندہی کرنے سے پہلے انھوں نے خط میں ہماری مزاح نگاری کی تعریف میں کچھ ایسے بے مثال اور فکر انگیز کلمات لکھے ہیں جوکسی زمانے میں روشنائی کے دستیاب ہونے کے باوجود سنہرے حروف میں لکھے جاتے تھے ۔ اگر خدانخواستہ ہم ان کی تعریف پر ایمان لے آئیں تو یقین مانئے ان کی خیرخواہی ہمارے حق میں بدخواہی کی صورت اختیار کرسکتی ہے ۔ وہ تو اچھا ہے کہ خدا نے ہمیں مزاح کی بیش بہا دولت سے مالا مال کیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم اپنی اور انسان دونوں کی اصلیت اور حقیقت کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔ اس لئے تعریف کے جال میں بالکل نہیں پھنستے ۔ اب ہم یہ نہیں بتائیں گے کہ ہمارے بارے میں ان کے خیالات کتنے اعلی اور احساسات کتنے ارفع ہیں ۔ اگر کوئی آپ کی اتنی تعریف کرے تو یقیناً آپ خوشی سے پاگل ہواٹھیں گے ۔ لیکن ہمارا معاملہ جداگانہ ہے کیونکہ من آنم کہ من دانم ۔ بہ ایں ہمہ ان کے حق میں ہمارے دل سے یہ دعا نکلتی رہے گی کہ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ ۔ بہرحال انھوں نے جس موضوع کی نشاندہی کی ہے اس کا ذکر ان ہی کی زبان سے سنئے :
’’ان چند عقیدتمندانہ کلمات کے بعد اصل موضوع کی طرف آنے کی اجازت چاہتا ہوں ۔ آج کل شہر اردو (حیدرآباد) کی ادبی محفلوں میں شریک ہونے والا ہر صدر ، خصوصی مہمان ، اہم مقرر اور مقالہ نگار پتہ نہیں کیوں یہ چاہتا ہے کہ اس کے ماضی (قریب یا بعید) سے ہی اس کو پہچانا جائے (جبکہ ماضی کی کوئی حیثیت اس کے ساتھ نہیں ہے) ادبی جلسوں کے دعوت ناموں میں بھی اہم شخصیتوں کے ساتھ برسوں پرانے عہدے یا گزشتہ سماجی ، سیاسی یا ادبی رشتے کا ذکر ہوتا ہے اور ناظم جلسہ بھی انھیں ان ہی القاب سے متعارف کراتا ہے ۔ مثلاً سابق وائس چانسلر ، سابق وزیر ، سابق ایم پی ، سابق صدر اقلیتی کمیشن ، سابق صدر اکادمی وغیرہ اور اس طرح ایسی شناخت جو قصۂ پارینہ بن چکی ہے ، ان کی حالیہ شناخت بن جاتی ہے ۔ مجھ جیسے ذہنوں میں عجب کلبلاہٹ سی ہوتی ہے کہ کیا ان سابقہ اہم شخصیتوں کے پاس امروز کی کوئی قابلِ ذکر بات نہیں رہ گئی ہے کہ وہ اس سے متعارف کرائے جاسکیں ۔ یہ روایت اب عام ہوچکی ہے ۔ ویسے اگر حال کو ماضی کا پیراہن دینے کی روایت ناقابل تنسیخ قانون بن جائے تو پتہ نہیں کیسی کیسی الجھنیں پیدا ہوں گی اور کیا کیا مسائل اٹھ کھڑے ہوں گے ۔ مثال کے طور پر کوئی مطلقہ خاتون اگر اپنی دوسری شادی کے بعد بھی اپنے پچھلے شوہر کے نام کے ذریعے متعارف ہونے پر اصرار کرے تو کیا موجودہ شوہر اس کو برداشت کرپائے گا‘‘ ۔
ہم س ح ایاز صاحب کے ممنون ہیں کہ انھوں نے اس موضوع کی نشاندہی فرمائی لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اس موضوع کی طرف پہلے کبھی ہمارا دھیان نہ گیا ہو ۔ ہم تو خود ایسی باتوں کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ اصل میں ہمارا معاشرہ سابقوں اور لاحقوں کا معاشرہ ہے ۔ ہمارے ہاں صرف نام سے کام نہیں بنتا بلکہ جب تک نام سے پہلے یا بعد میں کوئی دُم چھلہ نہ لگایا جائے تب تک کسی کی پہچان یا تو مکمل نہیں ہوتی یا اگرمکمل ہوتی بھی ہے تو اس شخص کی تشفی نہیں ہوتی جس کی پہچان کرائی جارہی ہو ۔ آخر وہ بھی تو جاننا چاہتا ہے کہ وہ اصل میں ہے کون ۔ وہی ہے ، کوئی ایرا غیرا تو نہیں ہے ۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بارے میں مشہور ہے کہ ایک بار کسی فوجی مہم پر جاتے ہوئے انھوں نے اچانک اپنے سپہ سالار سے پوچھ لیا ’’میرا گھوڑا کہاں ہے؟‘‘ سپہ سالار نے دست بستہ عرض کی ’’حضور ! آپ تو اس وقت بہ نفس نفیس اپنے ہی گھوڑے پر سوار ہیں ۔ اس بارے میں آپ نے مجھ ناچیز کی رائے جاننے کی زحمت کیوں گوارا کی‘‘ ۔ اس پر مہاراجہ رنجیت سنگھ نے جواب دیا ’’وہ تو میں بھی جانتا ہوں کہ میں اپنے ہی گھوڑے پر سوار ہوں لیکن کبھی کبھی دوسروں کی رائے جان لینا بھی اچھا ہوتا ہے ۔ رموز مملکت تم کیا جانو‘‘ ۔ یہی حال ان سابق مقتدر ہستیوں اور سربرآوردہ اصحاب کا ہوتا ہے کہ اگرچہ وہ خواب میں بھی اپنے سابق عہدوں پر سوار رہتے ہیں لیکن پھر بھی لوگوں سے اپنے اطمینان قلب کی خاطر پوچھ لیتے ہیں کہ بتاؤ میں ماضی میں کیا تھا ۔ اب آپ سے کیا چھپائیں کہ پچھلے دنوں ہمارے پاس ایک صاحب کا خط آیا ہے جس میں انھوں نے ہمیں ’’سابق مزاح نگار جناب مجتبیٰ حسین‘‘ لکھ کر مخاطب کیا ہے ۔ ہمیں اس بات پر کوئی اعتراض بھی نہیں ہے کیونکہ ہم دنیا کی بے ثباتی اور ہر شے کے فنا ہوجانے کے قائل ہیں ۔ اللہ نے چاہا تو ایک دن ہم بھی سابق مزاح نگار بن جائیں گے ۔ سنا ہے کہ ایک صاحب جب کسی کو خط لکھتے تھے تو آخر میں بربنائے انکسار اپنے نام کے ساتھ ’’ننگِ اسلاف‘‘ ضرور لکھا کرتے تھے ۔ دیکھا دیکھی لوگوں نے بھی انھیں ’’ننگِ اسلاف فلاں ابن فلاں‘‘ لکھنا شروع کردیا اور لطف کی بات یہ ہے کہ انھوں نے بھی اس پر کوئی اعتراض کرنا ضروری نہیں سمجھا ۔ جیسا کہ ہم نے کہا ہے ہمارا معاشرہ سابقوں اور لاحقوں کا معاشرہ ہے ۔ ایک زمانے میں اہل علم اور مقتدر ہستیوں کو شمس العلماء اور خان بہادر یا رائے بہادر وغیرہ کے خطابات دئے جاتے تھے اور یہ خطابات ان کے ناموں کے ساتھ سابقوں کے طور پر لکھے جاتے تھے ۔ بعد میں ان کی سماجی حیثیتوں کے لاحقوں کا نمبر آتا تھا اور نام اتنا لمبا ہوجاتا تھا کہ اسے زبان پر لاتے ہوئے بسا اوقات بولنے والے کا سانس اکھڑ جاتا تھا ۔ مغربی ادب نے بڑی بڑی ہستیاں پیدا کیں لیکن نہ تو شیکسپئر کو کبھی شمس العلماء کہا گیا اور نہ ہی مارک ٹوئین کو خان بہادر یا ڈاکٹر جانسن کو بحر العلوم کہا گیا ۔یہ چونچلے تو خود ہم نے اپنی انا کی تسکین کے لئے پیدا کررکھے ہیں ۔
ایسا نہیں ہے کہ ہم نے ماضی کے حوالوں کا مذاق نہ اُڑایا ہو ۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ہم نے اپنے کالم میں ایک سابق وزیر کا ذکر کیا تھا ۔ جب تک یہ برسراقتدار رہے لوگ جلسوں میں ان کے نام کے ساتھ ’’عزت مآب‘‘ ضرور لگادیتے تھے لیکن جب اقتدار کی کرسی ان سے چھن گئی تو ہم نے دیکھا کہ ایک جلسہ میں ناظم جلسہ انہیں بار بار ’’سابق عزت مآب فلاں ابن فلاں‘‘ کہہ کر مخاطب کررہا ہے اور ساتھ میں ’’سابق وزیر‘‘ کا حوالہ بھی دے رہا ہے ۔
قصہ دراصل یہ ہے کہ ہم ماضی پرست لوگ ہیں اور اردو معاشرہ تو ان دنوں ضرورت سے کچھ زیادہ ہی ماضی پرست بنتا چلا جارہا ہے ۔ اس لئے کہ ہمارا جو حال ہے وہ بے حال ہے بلکہ بدحال ہے اور مستقبل ایسا ہے جو نظر نہیں آرہا ہے ۔ جب حال خراب ہو اور مستقبل نظر آنا بند ہوجائے تو آدمی مجبوراً اُلٹے پاؤں ماضی کی طرف لوٹتا ہے ۔ اس لئے کہ اسے کسی نہ کسی دور میں تو جینا ہی پڑتا ہے ۔ ہمارے معاشرے کے اکثر اصحاب خود اپنے کارناموں کے حوالے سے اپنا ذکر نہیں کرتے (کارنامے ہوں تو ذکر بھی کریں) بلکہ اسلاف کے کارناموں کو یاد کرکے دن گزارتے ہیں لہذا کچھ لوگ اگر خود اپنے سابقہ عہدوں اور کارناموں کے حوالے سے جانے جاتے ہیں تو اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے ۔ ہمیں تو یہ ڈر بھی ہوتا ہے کہ اگر خدانخواستہ یہ لوگ بھی ہمارے درمیان سے اُٹھ گئے تو ہمارے پاس کیا باقی رہ جائے گا ۔
ہم نے ایک قبرستان میں ایک قبر پر ایسا کتبہ بھی لکھا ہوا دیکھا تھا جس میں نہ صرف مرحوم کا نام بلکہ ان کے اسلاف کے کارناموں کا تفصیلی ذکر تھا ۔ ان کی تعلیمی قابلیت اور عملی تجربے کا بیان بھی موجود تھا اور آخر میں نہ صرف ان کا مکمل پتہ موجود تھا بلکہ ان کا ٹیلی فون نمبر بھی درج تھا ۔ وہ تو اچھا ہوا کہ اس وقت تک موبائل فون کا رواج عام نہیں ہوا تھا ورنہ موبائل فون نمبر بھی درج ہوتا ۔ یوں لگتا تھا جیسے یہ کتبہ نہیں ہے بلکہ جنت کی کسی حور کے نام بھیجی گئی مرحوم کی ’’اسم نویسی‘‘ ہو ۔ س ح ایاز صاحب نے اپنے خط میں یہ بھی پوچھا ہے کہ اگر کوئی مطلقہ خاتون دوسری شادی کے بعد بھی اپنے سابقہ شوہر کے نام کے حوالے سے پہچانے جانے پر اصرار کرے تو کیا ہوگا ۔ اس معاملے میں ہم اپنے آپ کو اس قابل نہیں پاتے کہ کوئی رائے دے سکیں ۔ اس لئے کہ شادی کا بندھن بھی اب ویسا نہیں رہا جیسا کہ کسی زمانے میں ہوا کرتا تھا ۔ پچھلے زمانے میں لوگ ایک مقدس سماجی بندھن کے طور پر ضرورتاً شادی کرتے تھے اب تفریحاً شادی کرنے لگے ہیں ۔ یہ مذاق نہیں ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ایک قریبی دوست نے کچھ عرصہ پہلے دوسری شادی کی تو اُن کی شادی کا دعوت نامہ ان کی پہلی بیوی کی طرف سے آیا تھا جس میں لکھا تھا کہ میرے شوہر کی شادی فلاں تاریخ کو فلاں صاحبہ سے ہونے والی ہے ۔ اس تقریبِ سعید میں آپ کی شرکت میرے لئے باعثِ مسرت ہوگی ۔ کیا کریں ان دنوں معاملات دل بھی یکسر بدل گئے ہیں ۔ اس لئے ہم اس خصوص میں کوئی اظہار خیال نہیں کرنا چاہتے ۔ (ایک پرانی تحریر)