محمد مصطفیٰ علی سروری
ہاں میری بیٹی سانولی ہے مگر وہ میرے لئے دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی ہے۔ ان خیالات کا اظہار بالی ووڈ کے سوپر ا سٹار شاہ رخ خان نے کیا ، وہ اخبار ٹائمز آف انڈیا کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دے رہے تھے ، انہوں نے کہا کہ وہ اپنے مداحوں سے کسی طرح کی غلط بیانی سے کام نہیں لیں گے اور یہ وا ضح کردینا چاہتے ہیں کہ وہ لوگوں کو اُن کی شکل و صورت سے نہیں جانچتے ہیں (بحوالہ ہندوستان ٹائمز 13 نومبر کی رپورٹ)
قارئین فلم انڈسٹری میں بادشاہ کا موقف رکھنے والے فلم اسٹار شاہ رخ کی کہی بات اگرچہ ہر مرتبہ خبر کا درجہ حاصل کرلیتی ہے لیکن اپنی لڑ کی کی رنگت کو لیکر انہوں نے جو کچھ کہا ہے وہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہر ماں باپ ہی نہیں بلکہ لڑکیوں کو ایک ڈراؤنے خواب کی مانند ستاتا ہے۔
ضرورت رشتہ کے کسی بھی اشتہار کو ملاحظہ کیجئے یا بیوی اور بہو کے خواہشمند کسی بھی شخص سے پو چھ لیجئے ہر ایک کی بس یہی خواہش ہے یا مطالبہ کہہ لیجئے کہ بھائی ہمیں تو کچھ نہیں چاہئے بس خوبصورت ، فیر کلر بلکہ ویری فیر اور دراز قد لڑکی سے رشتہ مطلوب ہے اور یہ بات بھی سچ ہے کہ آج دو ایک نہیں بلکہ سینکڑوں لڑ کیاں صرف اس لئے بن بیاہی بیٹھی ہیں کہ ان کا رنگ فیر نہیں ہے اور وہ سانولی رنگت کی حامل ہیں ۔
آج کل اخبارات کے علاوہ آن لائین ویب سائیٹس بھی رشتے لگانے کا کام کر رہی ہیں، ایسی ہی ایک ویب سائیٹ نے باضابطہ طور پر سروے کرنے کے بعد رپورٹ پیش کی کہ لڑکے لڑکیوں کے لئے رشتوں کی تلاش کیلئے سرگرداں 71 فیصدی افراد گوری رنگت (فیر کلر) والے رشتے کے خواہشمند ہیں۔ سروے رپورٹ میں ایک خاتون کا انٹرویو شامل ہے جس کے مطابق اس کے لئے کئی لڑ کوں کے رشتے آتے تھے لیکن اس کو دیکھنے کے بعد ہر کوئی کچھ نہ کچھ بہانہ کر کے رشتے کو منع کردیتا تھا ۔ خاتون کو سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ آخر اس کو آنے والے رشتے کی بات آگے کیوں نہیں بڑھتی پھر ایک مر تبہ ایسا ہوا کہ لڑکی نے خود رشتہ کیلئے بات آگے بڑھانے سے منع کرنے والے نوجوان سے سچ سچ بتانے کی درخواست کی تو پتہ چلا کہ وہ لوگ دراصل ایک گوری رنگت والی لڑ کی کی تلاش میں ہے ۔ لڑکے کی بات سن کر پہلے تو لڑکی کو بہت برا لگا لیکن بعد میں ایک اور لڑ کے نے بھی سچ بتانے کی درخواست پر وہی جواب دیا تب کہیں لڑکی والوں کو معلوم ہوگیا کہ لڑکی کی کم رنگت ہی اس کی شادی میں اصل رکاوٹ بن گئی ہے ۔ ا یک طرف والدین کا دباؤ کہ جیسا بھی رشتہ ملے شادی کرلو، دوسری طرف اپنے ہم عمر ساتھیوں کی شادی کا ہوجانا ۔ بہت زیادہ دباؤ کا سبب بن رہا تھا ۔ جب رنگ کم ہونے کے سبب شادی میں رکاوٹ برقرار رہی تو رپورٹ کے مطابق ایک کم رنگت والی لڑ کی نے گھر سے بھاگ کر اپنی پسند سے دوسری جگہ شادی کرلی ۔ (بحوالہ اخبار ہندوستان ٹائمز)
لڑکیوں کی خوبصورتی کیلئے رنگ کو پیمانہ بنانے کا مسئلہ کسی ایک مذہب یا طبقہ تک محدود نہیں ہے اور ساتھ ہی یہ صرف شادیوں تک ہی نہیں بلکہ رنگت کی بنیادوں پر بچوں کے ساتھ امتیاز زندگی کے ہر شعبہ میں نمایاں ہے ۔ حکومت مہاراشٹرا نے درج فہرست قبائل کی لڑکیوں کو بااختیار بنانے کے لئے انہیں تربیت دیکر مختلف ایرلائینز میں ملازمت دلانے مدد کرنے کا پروگرام شروع کیا ۔ سرکاری خرچ پر (100) لڑکیوں کو ایر ہوسٹس اور کیبن عملے کے لئے درکار تربیت دی گئی لیکن ان لڑکیوں کو ایرلائینز کی جانب سے ایر ہوسٹس کی نوکریاں نہیں دی گئی اور 100 میں سے بھی صرف 8 لڑکیوں کو اخبار انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق گراؤنڈ اسٹاف میں شامل کیا گیا یعنی اگر لڑکیوں کی رنگت سانولی ہو اور وہ گوری نہیں ہو تب انہیں ملازمت کے حصول میں بھی پریشان یاں جھیلنی پڑتی ہے۔
صرف ملازمت ہی نہیں زندگی کے ہر شعبہ حیات میں کم رنگت کی حامل بچوں اور لڑکیوں کے ساتھ سوتیلا سلوک رکھا جاتا ہے ۔ ’’اسکول میں بچوں کا ایک پروگرام تھا ۔ پروگرام کے دوران اسکول کے انتظامیہ نے اگلی صفوں میں صرف گوری رنگت والے بچوں کو ہی بٹھایا ۔ یہاں تک کہ بچوں کے قد کا بھی کوئی لحاظ نہیں رکھا گیا ۔ کوئی چھوٹا ہو یا طویل قد کا اگر وہ گورا ہے تو اس کو اگلی صف میں جگہ دی گئی اور جتنے بچوں کے رنگ کالے تھے یا سانولے تھے ، انہیں پچھلی صفوں میں بٹھایا گیا ، اس وا قعہ سے میرے دل کو کافی صدمہ ہوا کیونکہ میری لڑکی کو بھی اس کی کم رنگت کے سبب پچھلی صفوں میں جگہ دی گئی تھی (بحوالہ Muna Beauty سماجی جہد کار کے کالم مطبوعہ 10 ستمبر 2018 ء )
گورے رنگ کے طلبگار سماج کے متعلق خواتین کے میگزین Femina نے 17 اکتوبر 2018 ء کو گلشن آراء خاتون کا ایک مضمون شائع کیا۔ گلشن نے لکھا ہے کہ انہوں نے جب مشہور زمانہ Matrimonial ویب سائیٹ پر اپنا پروفائیل اپ لوڈ کیا تو ان کی گندمی رنگت والی فوٹو پر کسی نے دلچسپی نہیں دکھائی اور جب انہوں نے بغیر تصویر کے ا پنا اشتہار لگایا تو تب کچھ لوگوں نے ان کے رشتے میں دلچسپی دکھائی ۔ اس پس منظر میں کولکتہ کی خاتون نے لکھا کہ ’’لوگوں کو صرف شو پیس چاہئے زندگی میں شریک سفر نہیں ‘‘۔
اپنے بچپن سے ہی کم رنگت کے سبب بچوں کو کیسے امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، اس کے متعلق گلشن آراء خاتون نے لکھا خود ان کے بچپن میں لوگ ان کے گھر آتے اور اس کی گندمی رنگت کو دیکھتے تو اس کی ماں کو مشورہ دیتے تھے کہ اپنی لڑکی کو بیسن اور ہلدی لگایا کرو تاکہ اس کا رنگ صاف ہوسکے ۔ اپنی سانولی رنگت کے ساتھ جب کولکتہ کی یہ خاتون فلموں میں کام حاصل کرنے کیلئے گئی تو اس کو زیادہ تر گھریلو خادماؤں جاروپ کش اور فقیروں کا رول آفر کیا گیا ۔
شادی بیاہ سے لیکر زندگی کے ہر شعبہ میں گورے رنگ والے افراد کو فوقیت دینے کا مسئلہ عام ہے اور اس طرز عمل کی بڑے پیمانے پر شکایات بھی ہیں ، سال 2013 ء میں نینا دولوری نامی ہندوستانی نژاد لڑکی نے مس امریکہ کا خطاب جیت لیا تھا ، سانولی رنگت والی لڑکی کے امریکہ کے مقابلہ حسن جیت لینے کے بعد بہت سارے لوگوں نے برسر عام اس بات کا اظہار کیا تھا کہ یہ لڑکی اگر خود ہندوستان کے کسی مقابلہ حسن میں حصہ لیتی تو نہیں جیت سکتی تھی اور اس کی جیت اس لئے ممکن ہوئی کہ وہ امریکہ میں تھی۔ (بحوالہ دی گارجین 17 ستمبر 2013 ء )
Emami کولکتہ کی ایک کمپنی ہے جو رنگ کو گورا کرنے اور صاف کرنے والی مختلف کریم تیار کرتی ہے ۔ مالیاتی سال 2018 ء کے دوران ایمامی کمپنی نے 2540 کروڑ کی آمدنی کا تخمینہ لگایا ہے ۔ جی ہاں ہم ہندوستانی ہر سال دو ہزار پانچ سو چالیس کروڑ ایک ایسی کمپنی کو آمدنی کا ذریعہ فراہم کرتے ہیں جو خوبصورتی کو نکھار نے رنگ کو نکھارنے کے پراڈکٹس تیار کرتی ہے۔ (بحوالہ Q2.com )
کیا کریم اور لوشن لگاکر ہم لوگ اپنی رنگت اور جلا کے رنگ کو گورا بناسکتے ہیں ؟ اس حوالے سے قطعی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے لیکن یہ حیثیت ہے کہ لوگوں کی جلد کو نکھارنے اور رنگ کو گورا کرنے کے نام پر کاروبار کرتے ہوئے کمپنیاں ضرور لاکھوں کروڑوں کا کاروبار ضرور کر رہی ہیں۔ گورے رنگ اور گوری چمڑی کے ہم ہندوستانی جس قدر دیوانے ہیں ، اس کا راز جاننے کے لئے شہر حیدرآباد کے ایک سائنسی تحقیقاتی ادارے کی سال 2016 ء میں پیش کی گئی ایک تحقیقی رپورٹ کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔
(CCMB) Center for Cellular and Molecular Biology نے اپنی رپورٹ میں بعد تحقیق کہ بتلایا کہ ہندوستانی لوگوں کی رنگت کا تعلق ان کی جینیاتی ساخت سے ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں رہنے والے لوگ مختلف نسل رنگ اور مختلف ساخت رکھتے ہیں ۔
کیا ہر لڑکی کی رنگت گوری ہوسکتی ہے ، کیا ہر لڑکی ویری ویری فیر ہوسکتی ہے ؟ کیا لڑکی کا قد لڑکوں کے برابر ہوسکتا ہے ۔ اگر نہیں تو وہ لڑکیاں کیا کریں جن کی رنگت سانولی ہو یا جن کا قدر لڑکوں کے برابر نہ ہو۔
شاہ رخ خان جیسا اداکار اپنی لڑکی کے سانولے پن کا فخریہ اظہار کرتے ہوئے اپنی بیٹی کو خوبصورت قرار دیتا ہے ۔ اگر کریم لوشن اور دیگر چیزوں کے استعمال سے وہ اپنی بیٹی کی رنگت بدل سکتا تھا تو شائد وہ ایسا کر بھی دیتا مگر کیا ایسا کرنا بہتر ہے یا ہم ہمارے سماج میں اس بات کو تسلیم کریں کہ ہر لڑکی کی رنگت گوری نہیں ہوسکتی ہے۔ ہر لڑکی دراز قد کی نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ انسان کو پیدا کر کے بنانے کا کام خدائے تعالیٰ کا ہے کیا ہم اس دنیا میں خوشی سے رہنے کا حق رکھتے ہیں۔ جب ہم رنگ کی بنیادوں پر انسانوں کے درمیان فرق کریں اور امتیاز کریں تو ہندوستانیوں کی اکثریت اپنے لڑکوں کے رشتے طئے کرتے وقت لڑکیوں کے رنگ کا خاص لحاظ رکھتی ہے تو یہ بھی سوچئے کہ اس ملک کی اکثریتی آبادی مسلمان نہیں ہے ۔ اور ہم مسلمانوں کو تو دین اسلام میں ہر طرح سے رہنمائی فراہم کردی گئی کہ وہ مختلف طرح کی صورتحال کا کس طرح کا سامنا کریں۔ کیا ہم اپنے بچوں کے لئے کوئی فلم بنانے جارہے ہیں کہ ہمیں ہیروئین کی طرح خوبصورت لڑکیوں کی تلاش ہے ؟ ہم یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ خوبصورت ہیروئین ہونے کے باوجود اکثر فلمیں فلاپ ہوجاتی ہیں۔
ہمیں اپنے بچوں کی اچھی زندگی بنانے کیلئے اچھے کردار اچھی سیرت کی زیادہ ضرورت ہے۔ ہم اس بات کو سمجھ لیں کہ ہم شادیاں کس لئے کرتے ہیں اور دین اسلام نے نکاح کیلئے کیا رہنمایانہ خطوط بتلائے ، صرف لڑکے والوں کو سارے مسئلے کی اصل جڑ قرار دے کر ہم مسئلہ حل نہیں کرسکتے ہیں؟ کیونکہ کیا کوئی ایسے گھر کی نشاندہی کرسکتا ہے جہاں صرف لڑکے ہی رہتے ہیں ، دراصل ہم لوگ ہی اپنی لڑکیوں کی شادیوں کو طئے کرتے وقت ساری دنیا کی ہمدردی کے طلب گار بن جاتے ہیں اور اپنے لڑکوں کی شادی کی باری آتی ہے تو تب ہم ہی لوگ ظالم لڑکے والے بن جاتے ہیں ۔ ذرا غور کیجئے گا کہ کہیں بھی ہمارے معاشرے میں ایسی لڑکیاں تو موجود نہیں جو تنہائی میں حدائے تعالیٰ کے روبرو ہاتھ اٹھاکر یہ دعا کر رہی ہوں کہ اے مالک تو ہمیں کم رنگ کے ساتھ پیدا کرنے سے بہتر تھا کہ اس دنیا میں آنے ہی نہیں دیتا ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری بے حسی کو رخصت کردے اور ان لوگوں کا راستہ چلا جس پر اس نے انعام کیا ( آمین ثم آمین) بقول انجم لدھیانوی
رنگ ہی سے فریب کھاتے رہیں
حوشبوئیں آزمانا بھول گئے
sarwari829@yahoo.com