پاکستان دورہ… راجناتھ سنگھ کی برہمی یا دکھاوا
یو پی میں سونیا گاندھی کی نئی لہر
رشیدالدین
کشمیر کے مسئلہ پر کشیدگی کے دوران وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے پاکستان کے ہنگامی اور طوفانی دورہ کا مشن مکمل کرلیا۔ سارک وزرائے داخلہ کے اجلاس میں راجناتھ سنگھ کی شرکت کے بعد سیاسی اور صحافتی حلقوں میں سوال اٹھ رہے ہیں کہ اس دورہ سے ہندوستان کو کیا حاصل ہوا؟ راجناتھ سنگھ نے جن حالات میں دورہ کیا اور جس ڈرامائی انداز میں واپسی کرتے ہوئے پاکستان سے اپنی ناراضگی جتائی، یہ تمام طئے شدہ حکمت عملی کا حصہ دکھائی دے رہا ہے۔ نریندر مودی حکومت نے سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت راج ناتھ سنگھ کو پاکستان بھیج کر ایک تیر سے کئی شکار کئے ہیں۔ خارجہ سطح پر دنیا کو یہ پیام دیا گیا کہ ہندوستان نے کشیدگی کے باوجود سارک کے وقار کو ملحوظ رکھا اوراجلاس کو ناکام ہونے سے بچالیا تو دوسری طرف اپوزیشن اور عوام کے روبرو یہ تاثر کہ دشمن ملک میں جاکر بھی باہمت طریقہ سے پاکستانی سرگرمیوں کی مذمت کی گئی۔ پاکستان چونکہ ہمیشہ بی جے پی کا انتخابی موضوع رہا ہے، لہذا راجناتھ سنگھ کے دورہ کو اہم کامیابی ظاہر کرتے ہوئے سیاسی مقصد براری کی کوشش کی جائے گی۔ سارک وزرائے داخلہ اجلاس کے نام پر دونوں حکومتوں نے اپنا اپنا سیاسی کھیل کھیلا ہے۔ نواز شریف نے عوامی ناراضگی سے بچنے کشمیر میں دراندازی کیلئے اعلانیہ طور پر ذمہ دار تنظیموں کو احتجاج کی اجازت دیدی۔ ظاہر ہے کہ نواز شریف ہو یا کوئی اور وزیراعظم ان کیلئے پاکستان میں کرسی برقرار رکھنے کیلئے کشمیر کو موضوع بنانا مجبوری ہے۔ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اس طرح دونوں ممالک کی حکومتوں نے اپنے ا پنے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے۔ جہاں تک سارک کا اجلاس ہوا نواز شریف اور راجناتھ سنگھ نے مسئلہ کشمیر کا راست طور پر ذکر نہیں کیا اور سارک کے حدود کی پاسداری کی۔ راجناتھ سنگھ نے دہشت اور اس کو فروغ دینے والے ممالک کے حوالے سے پاکستان کو نصیحت کی۔ ان کی یہ نصیحت کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ دنیا کے ہر فورم میں ہندوستان اسی موقف کو دہراتا رہا ہے ۔
2004 ء میں وزیراعظم کی حیثیت سے اٹل بہاری واجپائی اور وزیر خارجہ یشونت سنہا نے اسلام آباد کی سرزمین پر پاکستان کو یہی نصیحت کی تھی۔ مبصرین کا مانناہے کہ ہندوستان سارک وزرائے داخلہ کے اجلاس سے بھرپور استفادہ کرنے سے قاصر رہا ۔ صرف ایک رکن ملک کے وزیر کی حیثیت سے مخاطب کر کے واپسی کے بجائے دوسرے رکن ممالک کی تائید حاصل کی جاسکتی تھی، لہذا ہندوستان کا احتجاج رسمی اور ضابطہ کی تکمیل بن کر رہ گیا۔ کہا یہ جارہا ہے کہ مودی۔نواز شریف میں قربت اور بہتر تال میل کے نتیجہ میں راجناتھ سنگھ کو اسلام آباد روانہ کیا گیا۔ ڈھاکہ میں حالیہ دہشت گرد حملہ میں پاکستان کے مبینہ رول کے خلاف بنگلہ دیش نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا ۔ اگر ہندوستان بھی شرکت نہ کرتا تو یقنیی طور پر اجلاس ناکام ہوجاتا۔ سارک کا وجود اور اس میں جان ہندوستان اور پاکستان سے ہے۔ عدم شرکت کے ذریعہ ہندوستان اپنے دوست نواز شریف کیلئے کوئی الجھن پیدا کرنا نہیں چاہتا تھا۔ سابق میں حریت قائدین کو پاکستانی ہائی کمشنر کی دعوت پر ناراض ہوکر ہندوستان نے معتمدین خارجہ کی بات چیت میں حصہ نہیں لیا تھا لیکن اب جبکہ راجناتھ سنگھ کشمیر کے حالات خود اپنی آنکھ سے دیکھ چکے ہیں۔ پھر بھی پاکستان کا دورہ ہوسکتا ہے کہ مودی۔نواز دوستی کا تسلسل ہے، جس کا آغاز مودی کی تقریب حلف برداری سے ہوا تھا ۔
راج ناتھ سنگھ کے دورہ سے قبل پاکستان کے اشتعال انگیز بیانات سامنے آئے اور ہندوستان کے خلاف سرگرم حافظ سعید اور صلاح الدین کھلے عام احتجاج کرتے دکھائی دیئے ۔ راجناتھ سنگھ اگر چاہتے تو پاکستان کی سرزمین پر ہی ان سرگرمیوں کی مذمت کرسکتے تھے۔ مودی حکومت نے کانفرنس میں شرکت سے نواز شریف کو مطمئن کیا تو دوسری طرف اپوزیشن کا منہ بند کرنے کی کوشش کی ۔ شائد یہ نومبر میں مودی کے مجوزہ دورہ پاکستان کا ریہرسل ہو اور راجناتھ سنگھ کے ذریعہ نواز شریف کی مزاج پرسی کرائی گئی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ راجناتھ سنگھ دہلی واپسی پر ایرپورٹ سے سیدھے وزیراعظم کے قیامگاہ روانہ ہوئے۔ شائد انہوں نے مودی کو ان کے دوست کی خیریت سے آگاہ کیا۔ راجناتھ سنگھ کی واپسی کے ساتھ ہی بی جے پی۔نواز میڈیا نے وزیر داخلہ کو ایک فاتح کے طور پر پیش کیا۔راجناتھ سنگھ کا اپنے پاکستانی ہم منصب سے مصافحہ نہ کرنا اور لنچ کے بغیر وطن واپسی سے میڈیا کی واہ واہی تو مل گئی لیکن مبصرین کے مطابق سفارتی سطح پر اسے کامیابی تصور نہیں کیا جاسکتا۔ راجناتھ سنگھ نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اپنے دورہ پاکستان پر بیان دیا ہے۔ ان کا یہ بیان مکمل فلمی انداز کا تھا۔ انہوں نے اپنے بیان کے ذریعہ میڈیا کی جانب سے پیدا کی گئی گرمی کو ٹھنڈا کردیا اور پاکستان میں ان کے ساتھ روا سلوک پر کسی بھی تبصرہ سے گریز کیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ انہیں کوئی شکایت نہیں ہے ۔ انہوں نے تقریر کے لائیو ٹیلی کاسٹ نہ ہونے سے لاعلمی ظاہر کی اور کہاکہ وہ سارک کے طریقہ کار کے بارے میں وزارت خارجہ سے معلومات حاصل کریں گے۔ راجناتھ سنگھ نے پارلیمنٹ میں صرف اس بیان کو دہرادیا جو انہوں نے اسلام آباد اجلاس میں دیا تھا۔ برخلاف اس کے انہوں نے اٹل بہاری واجپائی کے اس تاریخی جملہ کو دہرادیا کہ ’’دوست بدلے جاسکتے ہیں، پڑوسی نہیں‘‘۔ انہوں نے فلمی انداز میں ’’پڑوسی ہے کہ مانتا ہی نہیں‘‘ کہہ کر پاکستان سے اپنی ہمدردی ظاہر کی ہے۔ الغرض وزیراعظم نریندر مودی نے راجناتھ سنگھ کو روانہ کرتے ہوئے درپردہ طور پر نواز شریف کی مدد کی ہے۔
ملک میں خوشحالی اور اچھے دن کا وعدہ کرنے والی مودی حکومت دو سال میں مقبولیت کھونے لگی ہے۔ نریندر مودی کی ریاست گجرات میں بی جے پی کا برا حال ہے اور چیف منسٹر کی تبدیلی کے ذریعہ عوامی ناراضگی پر قابو پانے کی کوشش کی گئی۔ گجرات میں نریندر مودی کے دور میں بی جے پی کا مضبوط قلعہ تھا اور کانگریس پارٹی کا عملاً صفایا ہوچکا تھا لیکن اب کانگریس پارٹی بتدریج واپسی کر رہی ہے۔ عوامی ناراضگی کے نتیجہ میں مجالس مقامی انتخابات میں بی جے پی کو زبردست دھکا لگا۔ دلتوں کو گائے کے مسئلہ پر مارپیٹ کے بعد دلت اور کمزور طبقات نے بغاوت کردی ۔ اس صورتحال سے نمٹنے میں ناکامی پر آنندی بین پٹیل کو چیف منسٹر کی کرسی سے ہاتھ دھونا پڑا۔ بظاہر ان کے استعفیٰ کو عمر سے جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن حقیقت میں آئندہ سال اسمبلی انتخابات کے پیش نظر کی گئی تبدیلی ہے۔ دلت طبقہ کی ناراضگی کم نہیں ہوئی کہ عدالت نے پٹیل طبقہ کو فراہم کردہ تحفظات کو کالعدم کردیا۔ اس سے پٹیل طبقہ دوبارہ سڑکوں پر آسکتا ہے۔ اب جبکہ اسمبلی انتخابات کیلئے صرف ایک سال باقی ہے، بی جے پی کیلئے ناراضگی کی لہر کو روکنا آسان نہیں ہوگا۔ مرکز کی ناکامیاں ، انتخابی وعدوں کی عدم تکمیل اور گجرات میں کمزور حکومت نے بی جے پی کی کشتی کو بھنور ڈال دیا ہے ۔ آئندہ سال اترپردیش اور پنجاب میں بھی اسمبلی انتخابات ہیں۔
دونوں ریاستوں میں بی جے پی کا موقف ٹھیک نہیں۔ پنجاب میں اکالی دل کے ساتھ اقتدار کو برقرار رکھنا دشوار دکھائی دے رہا ہے، اسی طرح اترپردیش کے اقتدار کا خواب بھی دن بہ دن دور ہونے لگا ہے۔ پنجاب میں عام آدمی اور کانگریس سے خطرہ ہے تو یو پی میں کانگریس کے حق میں عوامی لہر نے ہر کسی کو حیرت میں ڈال دیا۔ گزشتہ دنوں سونیا گاندھی نے وزیراعظم کے انتخابی حلقہ وارناسی میں روڈ شو کے ذریعہ اترپردیش کی سیاست کو نیا ٹرن دیا ہے۔ وزیراعظم کے حلقہ میں اس قدر کامیاب روڈ شو کی توقع نہیں کی جاسکتی اور وہ بھی ایسے وزیراعظم جو خود کو موجودہ وقت کا مرد آہن کہلانا پسند کرتے ہیں۔ ایک خاتون آہن کی طرح سونیا گاندھی نے اترپردیش میں کانگریس کی واپسی کا بیڑہ اٹھایا۔ روڈ شو اگر امیٹھی یا رائے بریلی میں کامیاب ہو تو عجب نہیں لیکن وزیراعظم کے حلقہ وارناسی کے عوام کے سروں کا سمندر سونیا کے استقبال کے لئے امنڈ پڑا۔ اس طرح دو برسوں میں بی جے پی کے غبارہ سے ہوا خارج ہونے لگی ہے۔ روڈ شو کی کامیابی سے یہ ثابت ہوگیا کہ کانگریس نے اترپردیش کے لئے راج ببر اور شیلا ڈکشٹ کو میدان میں اتارنے کا جو فیصلہ کیا ، وہ عوام کیلئے قابل قبول ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں یو پی کی 80 کے منجملہ 73 نشستوں پر کامیابی کے غرور میں بی جے پی کو یقین تھا کہ آئندہ سال اترپردیش میں اس کا اقتدار ہوگا لیکن موجودہ حالات میں پارلیمنٹ کے نتائج کا اعادہ اسمبلی انتخابات میں ممکن نظر نہیں آتا۔ دہلی کی مثال سامنے ہے جہاں لوک سبھا انتخابات کے بعد عوام نے عام آدمی پارٹی کو بھاری اکثریت سے کامیابی دلائی اور بی جے پی دہلی اسمبلی میں برائے نام ہوکر رہ چکی ہے۔ اسمبلی انتخابات سے قبل بی جے پی دہلی اسمبلی میں واحد بڑی پارٹی کا موقف رکھتی تھی لیکن لوک سبھا نتائج کی لہر اسمبلی میں برقرار نہیں رہ سکی۔ سونیا گاندھی کی ریالی سے اترپردیش میں تبدیلی کا رجحان صاف طور پر جھلک رہا ہے۔ ریالی میں سونیا کی طبیعت بگڑنے سے ہمدردی کی لہر بھی پیدا ہوئی ۔ اترپردیش میں امن و ضبط کی ابتر صورتحال اور خاص طور پر عصمت ریزی کے واقعات میں اضافہ اکھلیش یادو حکومت کیلئے خطرہ کی گھنٹی ہے۔ راجناتھ سنگھ کے دورہ پاکستان پر احمد فراز کی مشہور زمانہ غزل کا یہ شعر ہمیں یاد آگیا ؎
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کیلئے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کیلئے آ