رمضان ۔ مہینہ فضیلت کا ، عبادت کا لیکن ذکر صرف کھانوں کا

پروفیسر شمیم علیم
بارہ مہینوں میں سب سے زیادہ فضیلت رمضان کے مہینہ کی ہے ۔ اس مہینہ قرآن پاک نازل ہوا ۔ مسلمانوں کو ایک نئی زندگی ایک نیا معاشرہ عطا ہوا ۔ یہ مہینہ عبادتوں کا ہے ، نمازوں کا ہے ، اپنے گناہوں کے کفارہ کا ہے ۔ ہر اس کام کا ہے جس سے اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل ہو ۔ لیکن ہم حساب میں ذرا کچے ہیں ۔ وقت کا صحیح استعمال نہیں کرسکتے ۔ بس جہاں دل چاہتا ہے اسی طرف جھک جاتے ہیں ۔ رمضان آنے سے بہت پہلے سے اس کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں ۔ رجب کے مہینہ سے شور سنائی دینے لگتا ہے کہ ارے بھئی رمضان آنے والا ہے ۔ ابھی سے تیاری شروع کردوں ۔ فکر ہر شخص بقدر ہمت اوست ۔ لوگ اپنی اپنی دلچسپیوں کے لحاظ سے تیاریاں شروع کردیتے ہیں ۔ خواتین کو تو سب سے پہلے فکر اپنے کپڑوں کی ہوتی ہے ۔ ایک دوسرے سے پوچھتی ہیں اب کی عید پر تم کیا پہنوگی۔ اور پھر کپڑوں کا انتخاب شروع ہوجاتا ہے ۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی ۔ امریکہ میں سارے رمضان افطار پارٹیاں چلتی رہتی ہیں (ہندوستان میں مردوں کی افطار پارٹیاں زیادہ ہوتی ہیں ۔ عورتوں کی کم) ۔ اب کم از کم آٹھ دس تو نئے جوڑے ضرور ہونے چاہئے ۔ عورتوں کی یادداشت اس معاملہ میں بہت تیز ہوتی ہے کہ کس نے کس موقع پر کون سا لباس پہنا تھا ۔ رمضان میں تو اتنا وقت نہیں ہوتا کہ کپڑوں کی طرف توجہ دی جائے لہذا شعبان سے یہ سوچ شروع ہوجاتی ہے ۔ اور پھر کپڑوں کے ساتھ میچنگ زیورات ، جوتے ، چپل سبھی تو چاہئے تو ساری توجہ اسی طرف مرکوز ہوجاتی ہے ۔
شعبان آتے ہی اکثر لوگوں کے کانوں میں کھانے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہوجاتی ہیں ۔ زبان چٹخارے لینے لگتی ہے ۔ آنکھوں کے سامنے بڑے بڑے دسترخواں بچھ جاتے ہیں ۔ اور کھانے کی پلاننگ شروع ہوجاتی ہے ۔ ہندوستان میں رمضان کا آدھا بوجھ تو نوکروں پرڈال دیا جاتا ہے ۔ لیکن امریکہ جیسے ملک میں تو سب کام خود ہی کرنا پڑتا ہے اور یہ کام رمضان میں تو ہونہیں سکتے ۔ پہلے تو ایک دکان سے دوسری دکان پھر پھر کر گروسری جمع کرنا پڑتا ہے ۔ کہیں سے دال چاول مصالحہ ، کہیں سے گوشت ، مرغ ، کئی دنوں کی مسلسل کوشش کے بعد یہ مرحلہ طے ہوتا ہے ۔ پھر کھانے پکا پکا کر فریزر میں بھرے جاتے ہیں ۔ خاص کر کباب اور سموسے جو وقت طلب ہوتے ہیں ۔
اب پلاننگ ہوتی ہے افطار پارٹیوں کی یہاں کی افطار پارٹیاں سیاسی تو نہیں ہوتی مگر سماجی ضرور ہوتی ہیں ۔ بڑی بڑی پارٹیاں صرف ویک اینڈ کو ہی ہوسکتی ہیں ۔ ورنہ ویک ڈیز میں تو لوگوں کو روزہ کھولنے تک کی فرصت نہیں ملتی ۔ اب ویک اینڈ مشکل سے آٹھ یا نو ہوتے ہیں لہذا مستعد خواتین پہلے سے ہی ان پر قابض ہوجاتی ہیں ۔ چلئے تاریخ تو مل گئی لیکن سوال ہے کہ یہ افطار پارٹی کہاں کی جائے ۔ لوگوں کی سوشل لسٹ اتنی بڑھتی جارہی ہے کہ گھروں میں اتنے لوگوں کا انتظام کرنا مشکل ہوگیا ہے ۔ لہذا جستجو ہوتی ہے کسی ہال کی ۔ اکثر دو یا تین دوست مل کر یہ بوجھ اٹھالیتے ہیں ۔ اب سوال آتا ہے کہ کھانا خود پکایا جائے یا کیٹر کروایا جائے (ممکن ہے کہ گھر کا پکا کھانا زیادہ مزیدار ہو ویسے یقین نہیں) اتنے لوگوں کا کھانا پکانا آسان نہیں اسلئے اکثر کیٹر کروالیا جاتا ہے ۔ بعض خواتین جن کی فہرست زیادہ لمبی نہیں ہوتی وہ افطار پارٹی خود اپنے گھروں پر دیتی ہیں ۔ کبھی مقابلہ ہمیشہ پڑوسن سے ہوتا ہے کہ کس کے یہاں کتنی زیادہ ڈیشس ہیں ۔امریکہ میں اکثر مساجد میں روزانہ افطار و کھانے کا انتظام ہوتا ہے ۔ بعض جگہ تو بڑے بڑے خیمہ لگتے ہیں ۔ جیسے کہ کسی کی شادی ہو ۔ اتنے لوگوں کے کھانے کا انتظام کرنا پھر صاف صفائی ۔ سارا وقت اسی میں گذ رجاتا ہے ۔ رمضان میں ہم روزہ تو رکھتے ہیں پندرہ گھنٹوں کا لیکن بارہ گھنٹے ہمارا ذہن ، ہماری آنکھیں صرف کھانوں کے آگے پیچھے گھومتی ہیں ۔ بچے کہتے ہیں مما ہم ہندوستانی کھانا نہیں کھائیں گے ۔ ہمارے لئے صرف باربی کیو چکن اور نوڈلز بنایئے ۔ سحر میں پاستا اور سینڈوچ بنادیجئے ۔ میاں کی آواز آتی ہے کہ بیگم افطار میں بغیر سموسوں اور دھی بڑوں کے مزہ نہیں آتا ۔ دوسرے گھر سے آواز آتی ہے ارے بھئی تم نے ابھی تک حلیم نہیں بنائی ۔ میں جب حیدرآباد میں تھا تو روز حلیم کھاتا تھا ۔ ساس سسر فریج کے کھانے کے عادی نہیں انہیں تو سحر میں گرم گرم پراٹھے اور کھچڑی چاہئے ۔ اب بیچاری خاتون خانہ کس کس کی فرمائش پوری کرے ۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اس رمضان میں کم از کم دو قرآن کی تلاوت توضرور کرے گی ۔ لیکن یہاں تو اسے قرآن پاک کی طرف دیکھنے کی بھی فرصت نہیں ۔ بڑی مشکل سے وہ بچوں کو لیکر تراویح کے لئے جاتی ہے ۔ واپس ہونے تک ساڑھے بارہ ایک بج جاتا ہے ۔ پھر چار بجے سحری ، فجر کی نماز ، گھر کے کام کیا کرے وہ اس فضیلت کے مہینہ میں ۔ کھانے کا ذکر تو ہندوستان میں خاص کر حیدرآباد میں بہت زور و شور سے ہوتا ہے ۔ لگتا ہے ماہ رمضان صرف کھانے کے لئے ہی بنا ہے ۔ سارے وقت آنکھوں کے سامنے دوکانوں کا منظر رہتا ہے ۔ جہاں طرح طرح کی حلیم ، دھی بڑے ، سموسے ، پکوڑے ، تلی مرچیاں ، بکتے ہوئے نظر آتی ہیں ۔ اپنی آنکھوں کی تسلی کے لئے سیاست اخبار اٹھالیجئے ہر صفحہ پر ایک اشتہار اور اس اشتہار میں سے نکلتی خوشبو آپ کے روزے کو مکروہ نہ کردے ۔ تلا ہوا گوشت ، پتھر کا گوشت ، بھیجہ ، گردے ، کلیجی ، کیا کچھ نہیں ملتا ۔ اب تو سحر میں کچھڑی کھٹا بنانے کی بھی ضرورت نہیں ۔ حیراں ہوں کہ دو آنکھ سے کیا کیا دیکھوں ۔ پیٹ بھر جاتا ہے لیکن کم بخت نیت نہیں بھرتی ۔کاش سال کے بارہ مہینے ہی رمضان ہوتے ۔