رسم بد سے معاشرہ کو پاک کیا جائے

محمد مظہر حسین ورنگلی

ہر انسان کو اپنی اولاد سے بے انتہا محبت ہوتی ہے، اس محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ والدین بچپن سے ہی بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دیں، ان کی کسی بھی غلطی یا برائی کو معمولی سمجھ کر نظرانداز نہ کریں، بلکہ ان کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے شفقت اور نرمی سے انھیں سمجھائیں، تاکہ ایسی غلطیاں مستقل عادت کی شکل نہ اختیار کرپائیں۔ بزرگوں کا قول ہے کہ اولاد کی بہترین تربیت ہی اولاد کے حق میں والدین کا گراں قدر اور بے مثال تحفہ ہے۔ قابل مبارکباد ہیں ایسے والدین، جو اپنی اولاد کی تربیت کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں، بالخصوص لڑکیوں کو پکوان، سینا پرونا، کشیدہ کاری، صفائی اور سلیقہ مندی کے علاوہ خوش اخلاقی، ملنساری، بزرگوں کا ادب و احترام اور ایثار و قربانی جیسے اعلی اوصاف سے آراستہ کرتے ہیں اور جھوٹ، غیبت، چغلی، خود پسندی اور غرور جیسی اخلاقی برائیوں سے بچانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ ایسے والدین نہ صرف ایک لڑکی کو بلکہ پوری ایک نسل کی تربیت کا باعث بنتے ہیں۔ افسوس کہ آج کل لڑکیوں کو صرف بڑی بڑی ڈگریاں دلانا ہی والدین اپنی ذمہ داری تصور کر رہے ہیں، حالانکہ اعلی تعلیمی ڈگریاں خوشحال زندگی کی ضمانت ہرگز نہیں ہیں۔ والدین کو اپنی غلطی کا احساس اس وقت ہوتا ہے، جب لڑکی تعلیم یافتہ ہونے کے غرور میں خودسری کا مظاہرہ کرنے لگتی ہے اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتی۔ چنانچہ گھر گرہستی کے اصولوں سے ناواقف ایسی لڑکیاں شادی کے بعد صرف اپنی اعلی تعلیمی ڈگری کی بنیاد پر اپنے شوہر اور سسرالی رشتہ داروں پر حاوی ہونے کی کوشش کرتی ہیں، جو عموماً گھریلو جھگڑوں اور ازدواجی تعلقات میں کشیدگی کا باعث بنتی ہیں، بالآخر کسی ناخوشگوار واقعہ پر ازدواجی زندگی کا خاتمہ عمل میں آتا ہے۔ ایسے واقعات آج مسلم معاشرہ میں بڑی تیزی سے عام ہوتے جا رہے ہیں، جو یقینی طورپر اسلامی تعلیمات سے بغاوت کا نتیجہ ہے۔
اسلام نے عورت اور مرد کے جداگانہ فرائض متعین کئے ہیں، جہاں مرد پر معاشی ذمہ داری عائد کی گئی ہے، وہیں عورت کو امور خانہ داری کی ذمہ داری سونپی ہے، تاکہ وہ اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی سے انجام دیتے ہوئے پرسکون اور خوشحال زندگی گزارے اور بچوں کی تربیت میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے ایک بہترین خاندان کی تشکیل کا کارنامہ انجام دے۔
گھریلو جھگڑوں اور ازدواجی تعلقات میں کشیدگی کی ایک بڑی وجہ مسلم معاشرہ میں مروجہ جہیز اور گھوڑے جوڑے کی رسم بھی ہے۔ اگر اس لعنت کا خاتمہ ہو جائے تو مسلم معاشرہ گھریلو جھگڑوں سے بڑی حد تک محفوظ ہو سکتا ہے، لیکن افسوس کہ اس رسم بد کے خاتمہ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی، بلکہ اس میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ آج کل لڑکیوں کی شادیاں اس وقت تک طے نہیں ہوتیں، جب تک کہ لڑکے والوں کے مطالبات من و عن تسلیم نہ کئے جائیں۔ چنانچہ لڑکی کے والدین بادل نخواسہ ان کے مطالبات کو قبول کرلیتے ہیں اور شادی کے بعد لڑکے والوں کی جانب سے شکایات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، جو عموماً جہیز میں کمی یا سامان جہیز کو غیر معیاری ثابت کرنے پر مشتمل ہوتا ہے۔ جہیز کے لالچی ان جاہلوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ جہیز کی ہر ایک چیز لڑکی کے والدین کی جانب سے لڑکی کے لئے تحفہ ہوتا ہے اور لڑکی ہی جہیز کی ساری اشیاء کی مالک ہوتی ہے۔ لہذا کسی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ تحفہ کی اشیاء میں نقائص نکالے یا کمی بیشی کی شکایت کرے؟۔
جہیز کا مطالبہ کرنے والے جاہلوں کو اس بات کا علم نہیں کہ وہ جس چیز کا مطالبہ کر رہے ہیں، وہ نہ صرف لڑکی کے والدین کی معیشت کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتے ہیں، بلکہ وہ اپنے لئے بھی ایک مستقل عذاب کو دعوت دے رہے ہوتے ہیں۔ مثال کے طورپر اگر لڑکے والوں کا دو بیڈروم پر مشتمل ذاتی مکان ہے، جب جہیز کا ڈھیر سارا سامان آئے گا تو ظاہر ہے کہ ایسا گھر یا گودام کی شکل اختیار کرلے گا، یا پھر کباڑ خانہ میں تبدیل ہو جائے گا، جہاں اس گھر کے مکینوں کو رات میں سکون سے سونے تک کی گنجائش نہ ہوگی اور اگر مکان کرایہ کا ہو تو محض جہیز کے سامان کی خاطر دوسرا بڑا مکان حاصل کرنا پڑے گا۔ ایسی صورت میں کرایہ میں دو تین ہزار روپئے کا اضافہ ہوگا، جو لڑکے والوں کی معیشت پر ایک مستقل بوجھ ثابت ہوگا، لہذا جہیز کے لالچی افراد کو ان حقائق پر غور کرنا چاہئے۔