رجب طیب اردغان مشرق وسطیٰ کے مسیحا

محمد غوث علی خاموشؔ
ترکی میں رجب طیب اردخان کی صدر کیلئے پھر سے کامیابی نے عالم اسلام میں ایک نئی امید کی کرن نکل آئی ہے اسی لئے ان کی کامیابی کو عالم اسلام کی کامیابی بھی قرار دیا جارہا ہے کیونکہ ترکی کا اسلام سے دیرینہ و اہم رابطہ رہا ہے ۔ موجودہ حالات میں دنیا بھر کے مسلمان عجیب و غریب صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں اور ہر خطہ میں ان کے اندر اضطراب سی کیفیت دیکھنے میں آرہی ہے جہاں فساد، باہمی اختلافات ، جھگڑے ، ظلم و تشدد ، قتل و غارت گری ، جگنیں مسلمانوں کا مقدر بن چکے ہیں ، کہیں یہ اپنی جان کے دشمن بنے ہیں تو کہیں دوسری قومیں ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے ، ایسے میں کہیں سے اگر کوئی آواز مسلمانوں کے حق میں اٹھتی ہے تو ان کے لئے مسیحا کا درجہ رکھے گی۔ اس لئے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو موجودہ دور میں ایک دور اندیش ، باصلاحیت و سچے قائد کی ضرورت شدت سے ہے، عام و سلام کے خلاف اگر کوئی آواز بلند ہوتی ہو تو اسلام دشمن طاقتوں کو منہ توڑ جواب دینے والا مرد مجاہد کوئی تو ہو ! جو اپنے ذاتی و سیاسی مفادات سے بالاتر ہو۔ لہذا عالم اسلام کو کمزور حالات میں اپنا رہنما رجب طیب اردغان میں نظر آرہا ہے جو کچھ حد تک سچ لگنے لگا ہے ، 63 سالہ اردغان 1970 ء تا 1980 ء کی دہائیوں میں اسلامی حلقوں میں سرگرم نجم الدین ارکان کی ویلفیر پارٹی کے رکن رہے ۔ 1994 ء تا 1998 ء تک فوج کی جانب سے اقتدار حاصل کرنے تک استنبول کے میئر رہے ۔1998 ء میں ویلفیر پارٹی پر پابندی لگادی گئی اور پھر اگست 2001 ء کو عبداللہ گل کے اتحاد میں اے کے پی کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ 2002 ء ۔ 2003 ء میں AKP نے پارلیمانی الیکشن میں واضح اکثریت حاصل کرنے اردغان کو وزیراعظم بنادیا گیا ۔ 2014 ء میں انتخابات کے ذریعہ ملک کے پہلے صدر کی حیثیت سے منتخب کئے گئے جس کے بعد انہوں نے عالم اسلام کے ایسے مختلف مسائل کو اٹھایا اور ظلم تشدد کے خلاف اپنی آواز بلند کی جبکہ ایسے مسائل پر اکثر مسلم ممالک خاموشی اختیار کرنا اپنا شیوہ بنالیا تھا جبکہ امریکہ کے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنایا تو دنیا میں ہلچل سی مچ گئی اور دوسری طرف عالم اسلام میں اضطراب سی کیفیت چھا گئی ۔ ایسے میں ترکی نے اقوام متحدہ میں قرارداد پیش کرنے کے ساتھ ساتھ OIC کا ہنگامی اجلاس طلب کیا یعنی امریکہ و اسرائیل کے خلاف دنیا اکٹھا ہوئی تو دوسری طرف اسلامی دنیا ترکی کی قیادت میں بیت المقدس کی حفاظت کیلئے جمع ہوئی جس سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو لگا کہ اردغان کی قیادت میں ترکی عالم اسلام کی بہترین رہنمائی کرسکتا ہے کیونکہ ترکی نے گزشتہ سال ہی سعودی عرب ، قطر ، مصر ، بحرین اور امارات کے تنازعات میں اہم رول ادا کرتے ہوئے ان تمام کو ایک تباہی سے بچالیا تھا اور 31 مئی 2010 ء محصور غزہ پٹی کیلئے امدادی سامان لے جانے والے ترکی جہاز کو اسرائیل نے حملہ کر کے 9 ترک شہریوں کو شہید کیا تھا جس کے بعد پھر ایک مرتبہ اردغان عالم عرب کے ہیرو بن کر ابھرے ! اردغان گزشتہ 24 سال سے ترکی عوام کی خدمت کرتے آرہے ہیں، عالم اسلام کو اردغان سے بہت کچھ سیکھنا پڑے گا ، جنہوں نے شب و روز ملت اسلامیہ کیلئے فکر مند رہتے ہوئے ان کے مسائل حل کرنے اور مظلوم فلسطینیوں کی مدد کرنے ، روہنگیا کے بے بس و لاچار مسلمانوں کے آنسو پوچھتے کامل حوصلہ کے ساتھ مدد کرتے آرہے ہیں، ایسے بلند حوصلہ والی شخصیت جس کو عالم اسلام کیلئے امید کی نئی کرن کہنا بے جا نہ ہوگا ۔ روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے گئے ظلم کی داستان والا ویڈیو دیکھ کر اردغان اشکبار ہوئے تھے اور میانمار کی حکومت کو مظالم بند نہ کرنے پر اس کے خلاف کارروائی کرنے کا تک انتباہ دیا تھا ۔ خلافتِ عثمانیہ کے بعد ترکی کی 94 سالہ تاریخ میں پہلی مربہ صدارتی نظام رائج ہورہا ہے جس کے بعد کابینہ کا انتخاب ، قانون سازی ، عدلیہ ، فوج کے اعلیٰ عہدوں کیلئے جج و جنرل کے انتخاب کا اختیار براہ راست صدر کے پاس رہے گا جس سے ترکی کو خوشحال ، مسلمانوں کا ہمدرد ملک بنانے میں راہ ہموار ہوگئی اور ترکی کی خارجہ پالیسی ترک عوام کی مرضی کے مطابق بنائیں گے ۔ اسی لئے تو کچھ مغربی ممالک اور کچھ عرب ممالک اردغان کو خود کیلئے ابھی سے خطرہ محسوس کر رہے ہیں، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ کچھ ممالک نے اردغان کو صدر بننے سے روکنے کیلئے میڈیا کی مدد لی اور ان کے خلاف جماعتوں پر دل کھول کر سرمایہ خرچ کیا ۔ اگر دشمنانِ اسلام اپنی ناپاک سازش میں کامیاب ہوجائے تو ترکی پھر ایک بار یوروپ و امریکہ کے ہاتھوں کا کھلونا ہوتا اور ساتھ ساتھ ترکی میں پناہ لئے ہوئے 35 لاکھ شام ملک کے پناہ گزین کا کوئی پرسان حال نہ رہتا بلکہ انہیں ملک سے نکال بھی دیا جاتا ۔ اسی لئے حریف جماعتوں کے امیدواروں نے انتخابات کے دوران کئی مرتبہ یہ سوال بھی اٹھایا کہ آخر اردغان نے 35 لاکھ شامی لوگوں کو کیوں پناہ دے رکھی ہے ؟ لیکن مظلوم پناہ گزینوں کی دعاؤں نے تمام سازشوں کی دیواروں کو گراکر اردغان کو کامیابی سے ہمکنار کیا جس سے سارے یوروپ میں ہلچل سی مچ گئی ہے ، اسی لئے مغربی سیاسی مبصرین ترکی کے الیکشن کو غیر منصفانہ کہہ رہے ہیں۔ یوروپی سلامتی اور تعاون کی تنظیم OSCE کے مبصرین نے بھی ترکی کے انتخابات کو غیر منصفانہ بتایا ۔ اس طرح ابھی سے یوروپ کے پیٹ میں درد شروع ہوچکا ہے ، اردغان کی کامیابی نے یوروپ اور امریکہ کی نیندیں اڑا دی ہیں کیونکہ اردغان نے کم وقتوں میں ہی ترکی کو ترقی کی بلند یوں پر پہنچاتے دنیا بھر میں ایک طاقت بن کر ابھر رہا ہے جو مغربی ممالک کو ہرگز گوارا نہیں۔ اردغان اپنی دانشمندانہ صلاحیتوں سے ملک کے بین ا لاقوامی مالیاتی فنڈ کے قرض کو مکمل ختم کردیا ہے ۔ انہوں نے IMF کا 23.5 بلین ڈالر کا قرض اتار دیا ہے اور عالمی بینک و IMF کو خود قرض دینے کی بھی پیشکش کی ہے ۔ اسی لئے مشرقی وسطی میں لگی آگ کو بجھانے کیلئے ایک طاقتور و دور اندیش قائد کی ضرورت تھی جو اپنی حکمت عملی کے ذریعہ عظیم طاقتوں کی صف میں کھڑا ہوسکے کیونکہ امریکہ و روس تو فلسطین ، شام ، لبنان وغیرہ میں اپنی دوہری پالیسیوں کے سہارے ان مسلم ممالک کی شناخت مکمل طورپر پر ختم کرنے کا کام کر رہے ہیں جس کو ناکام بنانا بے حد ضروری ہے ۔ روس ہو یا ناٹو فوجیں ان اسلامی ملکوں پر بمباری کرتے ہوئے اپنے مقصد میں کامیاب ہورہے ہیں، ان حالات میں دشمنوں کی سازشوں کو الٹ دینا ضروری ہے ، مشرق وسطی میں قیام امن کیلئے رجب طیب اردخان سے کئی امیدیں وابستہ ہیں اس لئے کہ ترک صدر وہ واحد سربراہ ہیں جو روس و امریکہ اور اسرائیل دیگر عالمی طاقتوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر جواب دینے کا جگر رکھتے ہیں، ان کی دور اندیشی و دولتمندانہ قیادت سے ہی ترکی آج امریکہ کی گرفت سے آزاد ہوچکا ہے اور خاص کر فلسطینیوں کی امیدوں کو غیر معمولی حوصلہ عطا ہوا ہے۔ بہر کیف آج اردغان عالم اسلام کے طاقتور قائد نظر آرہے ہیں جن کو دو اہم مسائل فلسطین اور شام جس کو بڑی حکمت کے ساتھ نمٹنا ہے ، دنیا کے کروڑوں مسلمانوں کی دعائیں ان کے ساتھ ہیں اور اللہ رب العزت بھی مظلوموں کی مدد کرنے والوں کی بھرپور مدد فرماتا ہے ۔ خدا کرے رجب طیب اردغان مشرق وسطی کے مسیحا ثابت ہوں ، آمین !