رام مندر مسئلہ کا احیاء ، ایک نسلی منافرت کا ٹائم بم

نلنجن مکھوپادھیائے
بابری مسجد کے انہدام کو روکنے میں کسی بھی قسم کے اقدام کی ناکامی کے بعد ، کلیان سنگھ بحیثیت چیف منسٹر یو پی دستوری اور انصاف کے احکامات نافذ کئے ۔ ساڑھے 6 برسوں قبل فبروری 10 ، 1986 میں پارٹی صدر کی حیثیت سے انہو ںنے مسلم قائدین کو جنہوں نے عدالتی فیصلہ کو مسترد کیا تھا ، کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ۔ واضح رہے کہ اُس عدالتی فیصلہ کی بنا پر ہی بابری مسجد کا تالہ کھول دیا گیا تھا تاکہ ہندو معتقدین یہاں پہنچ سکیں ۔ کلیان سنگھ کا بیان نہایت عجیب و غریب ہے کیونکہ ان کی پارٹی مسلسل بحث کرتی رہی ہے کہ اس مسئلہ کو عدالت میں نہیں سلجھایا جاسکتا ۔ تقریباً 37 ماہ کے درمیان جبکہ شیلانیاس اور بابری مسجد کا انہدام ہوا ، کلیان سنگھ نے بحیثیت چیف منسٹر 24 جون 1991 میں حلف لیا تھا بعدازاں ودھان سبھا انتخابات اور ساتھ ہی ساتھ 10 ویں لوک سبھا کے نتائج میں ایل کے اڈوانی نے مشہور جملہ کہا تھا ۔
یو پی میں اڈوانی کی رتھ یاترا کی لہر کے نتیجہ میں جو ستمبر ۔ اکٹوبر 1990 میں وی پی سنگھ حکومت کے استعفی کی وجہ سے بی جے پی کو لوک سبھا کی 85 نشستوں میں 51 پر کامیابی حاصل ہوئی تھی ۔ 32.79 فیصد کے ’’ ووٹ شیر ‘‘ کی وجہ جنتادل اور کانگریس کو 17 تا 18 فیصد Voteshare پر اکتفا کرنا پڑا تھا ۔
ریاستی انتخابات میں بی جے پی نے دوسری بڑی اکثریت حاصل کی تھی یعنی 425 نشستوں میں 221 نشستیں حاصل ہوئی تھیں جس میں اُسے 31.45 فیصد Voteshare حاصل کیا تھا ۔ ایک فیصد کمی ہونے کی وجہ بی جے پی کی طرف سے چھوٹی پارٹیوں اور آزاد امیدواروں کیلئے نشستیں چھوڑنا تھا جنہوں نے اُس کی حمایت کی تھی ۔ مرلی منوہر جوشی ، پارٹی صدر نے اپنے خفیہ ایجنڈا کو عوام سے منظور کروانے سے پہلے ہی یہ دعوی کر بیٹھے کہ ہمیں عوام نے رام مندر بنانے کیلئے ہی منتخب کیا ہے ۔
کلیان سنگھ نے بحیثیت چیف منسٹر کا حلف دستوری طریقہ پر لینے کے بجائے انہوں نے ایودھیا کا دورہ کیا ۔ منوہر جوشی کی حمایت سے کلیان سنگھ نے ڈسمبر 1949 میں خفیہ اور سازشی انداز میں رکھے گئے بتوں کا درشن کیا ۔ اس کے بعد سے سنگھ نے عوام کے سامنے ’’ رام للا کی قسم ‘‘ کھاتے ہوئے عہد کیا کہ وہ رام مندر کی تعمیر میں ہر قسم کا تعاون کریں گے ۔ سنگھ نے غلط بیانی کرتے ہوئے دو علحدہ عہد کئے کہ ایک ہاتھ میں دستور ( ہند ) اور دوسری طرف وہ رام مندر بھی بنائیں گے ( جو کہ غیردستوری اور سراسر ناانصافی پر مبنی تھا ) ۔
مرکز کی کمزور ترین گرفت
مرکز کی ( اخلاقی ) کمزوری
مرکز نے جس کی آنجہانی پی وی نرسمہا راو صدارت کررہے تھے ، انہوں نے کمزور انداز میں سنگھ سے پوچھا اور تجویز دی کہ انہیں کیسے اس راہ میں موجود مسائل کو حل کرنا ہے ۔ بی جے پی قیادت نے اس بات کو قبول کیا کہ ایودھیا مسئلہ احتجاج سے تعلق رکھتا ہے اور حکومتوں کا حصہ بن چکا ہے ۔ اور دونوں ( ریاستی اور مرکزی ) حکومتوں کی مشترکہ جمہوری ذمہ داری ہے ۔ نئی دہلی نے بظاہر ریاستی حکومت کی اس یقین دہانی کو اہمیت دی کہ ’’ ریاستی حکومت قانونی دائرہ کار میں کارروائی کی پابند ہے جس کیلئے غیردستوری انداز میں کارروائی نہیں کرے گی ۔ یہ بات گواہ ہے کہ نرسمہاراو کے پاس سیاسی عزم کی کمی تھی کہ وہ بابری مسجد کے انہدام کو روکے ۔ اس کے بعد راو نے الہ آباد ہائی کورٹ کے اس حکم پر کہ عمارت کا موقف جوں کا توں رکھا جائے ، چُپ سادھ لی ۔
سال 1992 ء کے اوائل میں ریاستی حکومت نے خاموشی سے اس متنازعہ ڈھانچہ کی ترقی میں مسلسل ترقی جاری رکھی تاکہ ’’ وی ایچ پی ‘‘ کو زمین اور متنازعہ ڈھانچہ ان کے حوالہ کردیا جاسکے ۔ اور وہاں ، بی جے پی اس بات سے واقف تھی اس حوالگی سے کوئی بحران پیدا نہیں ہوگا جس کی وجہ سے ان کی طرف سے مندر بنانے کے عزائم میں ضروری حد تک اضافہ ہوتا گیا ۔ اس ضمن میں اس کی پر زور حمایت اس وقت تبدیل ہوئی جبکہ جوشی کی ’’ ایکتا یاترا ‘‘ جو کنیا کماری تا سری نگر تک محیط تھی جس کی وجہ سے یہ پیغام دیا گیا کہ وہ ’’ ایک ہی مسئلہ ‘‘ کی حامل پارٹی نہیں ہے ۔ اس پروگرام کا مقصد سال 1992 کے یوم جمہوریہ کے موقع پر سری نگر میں ترنگا لہرانا تھا ۔ نریندر مودی کی جو اس وقت نہایت ہی کم مقبولیت کے حامل تھے ، گجرات کی نہایت ہی کم شہرت کی حامل پارٹی کے فنکشنری نے انہیں اس بات کیلئے نامزد کیا کہ مودی اس یاترا کے انتظامات میں مدد کریں ۔ اس ذریعہ مودی قومی سطح پر پہلی بار متعارف ہوئے ۔
یو پی حکومت کی مسلسل کاوش
اس دوران سنگھ حکومت نے رام مندر کی تعمیر کیلئے مسلسل کاوشیں جاری رکھیں ۔ اس ضمن میں ایک کوشش یہ کی کہ متنازعہ ڈھانچہ کے اطراف والے قابل لحاظ علاقہ پر وی ایچ پی نے قبضہ کر لیا جس میں وی ایچ پی نے مختلف سطحوں پر دباؤ ڈالتے ہوئے بابری مسجد کے اطراف کے ملحقہ تمام پلاٹس اور بلڈنگس کو ہتھیالیا ۔ ریاستی حکومت نے بھی 2.77 ایکڑ اراضی کو جو ’’ ٹورازم کو بڑھاوا دینے اور یہاں پہنچنے والے زائرین کو سہولت دینے کے نام پر ہتھیالی ۔ لیکن اُس کا اصل مدعا مذکورہ ہتھیائی گئی اراضی کو وی ایچ پی ٹرسٹ کے حوالہ کرنا تھا تاکہ مندر کی تعمیر کا آغاز کیا جاسکے ۔ سنگھ پریوار کا احساس تھا کہ ایک بار تعمیراتی کام کا آغاز متنازعہ ڈھانچہ کے باہر ہوجائے ، تو پھر اس کو روکا نہیں جاسکتا یہاں تک عدالتی فیصلہ بھی اس میں مانع نہیں ہوسکتا ۔ کلیان سنگھ کا دوغلاپن اس مرحلہ پر واضح ہو کر سامنے آگیا ۔ اراضی کے حصول کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا جس میں باوقار سپریم کورٹ نے یہ تاریخ ساز فیصلہ دیا کہ ریاستی حکومت نہ تو اس ہتھیائی گئی زمین کو نہ تو منتقل کیا جاسکتا ہے اور نہ تو اس پر کوئی مستقل عمارت تعمیر کی جاسکتی ہے ۔ یو پی حکومت نے اس فیصلہ کے جواب میں ہتھیائی گئی اراضی پر موجود بلڈنگس کو منہدم کرنا شروع کردیا ، یہ کہتے ہوئے کہ ایپکس کورٹ نے تعمیرات کرنے سے روکا ہے چند ہفتوں میں بابری مسجد کے روبرو مقابل حصہ میں موجود ایک قبرستان جو 1855 سے قائم تھا مکمل منہدم کردیا ۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود مرکز نے کچھ بھی اقدام نہیں کیا ۔ علاوہ ازیں وی ایچ پی نے بہادری دکھاتے ہوئے وہاں پہلی anniversary منانے کیلئے مسجد پر زعفرانی جھنڈے لگائے ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ اڈوانی کی رتھ یاترا کا آغاز ہوچکا تھا تاکہ وشواہندو پریشد ( وی ایچ پی ) کے ’’ کار سیوا پروگرام ‘‘ میں اسی دن شمولیت ہوسکے ۔اس ضمن میں لاکھوں کارسیوکوں نے جو انتہائی مشتعل مزاج تھے ، پولیس کی کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو توڑ ڈالا ، متنازعہ ڈھانچہ میں بے تحاشہ گھس پڑے اور ’’ ہندو علامات ‘‘ کو وہاں ایستادہ کردیا ۔ اوائل سال 1992 میں ریاستی حکومت نے خاموشی اور آہستگی سے اس کی تعمیر جاری تھی اور اراضی کو ’’ وی ایچ پی ‘‘ کے حوالہ کرنے کا عمل جاری تھا ۔ منصوبہ کے مطابق وی ایچ پی ٹرسٹ کو ’’ رام کھتا پارک ‘‘ کیلئے 42.09 ایکڑ اراضی منتقل کردی گئی ۔
وی ایچ پی کے تیز رفتار قدم
دونوں حکومتوں سے بلاکسی رکاوٹ اور مسائل ، وی ایچ پی نے جولائی میں ’’ کارسیوا ‘‘ کے آغاز کیلئے نیا شوشہ بنام اُجین کمبھ میلہ ‘’ چھوڑا اگرچیکہ اس منصوبہ میں کچھ قدم ہٹانا پڑا تاہم یہ شوشہ بے شک اصل مقصد کی طرف خاموش پیش قدمی تھی ۔ قانونی احکامات کی Impunity کے ساتھ انحراف کیا گیا تاہم وہ رُکا نہیں ۔ جولائی 1992 میں ، وی ایچ پی کارکنوں نے 3 سطحی کنکریٹ پلیٹ فارم کی تعمیر کا آغاز کیا اور یہ کہا گیا کہ یہ کوئی مستقل ڈھانچہ نہیں ہے ۔ یہ معاملہ تقریباً 15 دنوں تک چلتا رہا ، تعمیر ہوتی رہی تاہم مرکز نے اس حرکت پر کوئی قدغن نہیں لگائی ۔ دوسری طرف ریاستی حکومت نے وی ایچ پی کو ہر قسم کا تعاون دیا اور راتوں میں ہزاروں کارسیوک پُرشور بھجنوں اور بالی ووڈ کے مشہور نغموں کی آڑ میں جو مائیکرو فون پر لگائے جاتے تھے کا نکریٹ تیار کرنے کیلئے مشینوں کو تیر رفتاری سے چلاتے ہوئے تعمیری مقام تک پہنچاتے تھے ۔ جب رات ختم ہونے کے قریب ہوتی تو وہ دوسری مرتبہ ’’ کال ‘‘ کا انتظار کرنے کیلئے واپس ہوجاتے تھے کیونکہ اس رات کا کام مکمل ہوجاتا تھا ، اس عمل نے وی ایچ پی کی حمایت یافتہ ہندو Clergy کی زبردست حمایت اس وقت حاصل ہوئی جبکہ نئی دہلی میں 30 اکٹوبر کو ایک میٹنگ منعقد ہونے کے بعد ہوئی ۔ اس میٹنگ کے بعد دوسرا اعلان 6 ڈسمبر کو کارسیوا پروگرام کے دوبارہ آغاز کا اعلان کیا گیا ۔ اس موقع پر حکومت نے مختلف تیقنات دیئے لیکن یہ بات ثابت ہے کہ راو حکومت نے وہ اقدام نہیں کیا جو ایک وزیراعظم کی حیثیت سے انجام دینا چاہئے ۔ راو حکومت نے اس ضمن میں انتظامی قابلیت کے فقدان والی مثال پیش کی اور سیاسی عزم میں بھی کمی کا فقدان محسوس کیا گیا ۔ 6 ڈسمبر کے قریبی ہفتوں میں بی جے پی قائدین نے جس میں اڈوانی ، آنجہانی واجپائی اور جوشی شامل ہیں نے انسان نما شیطان کے جذبات کو برانگیختہ کرنے والے بیانات دیئے ۔ اڈوانی نے کہا کہ ’’ کارسیوا ‘‘ صرف بھجن اور کیرتن تک ہی محدود نہیں ہونی چاہئے بلکہ اینٹوں اور Shovelsکے ساتھ ہونا چاہئے جبکہ آنجہانی واجپائی نے کہا کہ زمین کو مسطح کرنا چاہئے ۔ سپریم کورٹ نے صرف خاموش تماشائی کی حیثیت سے منصوبے آشکارا ہونے کے باوجود خاموش رہی ۔
6 ڈسمبر 1992 کو آر ایس ایس نے کامیابی حاصل کرلی ۔ رام مندر مسئلہ کو 1984 سے ابھارتے ہوئے اپنے اصل ( خفیہ ) مقصد کو حاصل کیا ۔ مزید برآں ، اس سے بڑے مسائل کو ہندوستان کے سیاسی ایجنڈے کے احتجاج کی سمنٹ لگاتے ہوئے دفن کردیا گیا ۔ سیاسی نظام کو اپنی ناجائز مقصد براری کے حصول میں آزادی کے بعد سے کامیابی ملی ہے اور نیا نظام اپنی راہ نہیں پاسکا ہے ۔ 1989 تا 1992 کے درمیان میں وقوع پذیر واقعات ، مزید ہندو Sectarianism میں اضافہ بطور خاص زیادہ ہوا ہے ، مزید اضافہ رام مندر کے ضمن میں ہوا ہے ۔ سیاسی منظرنامہ میں رام مندر کا دوبارہ شور ہونا اور اس کیلئے چیلنج موجود ہونا اس کی خطرناکی اور خوف زدگی میں اضافہ کا احساس دلاتا ہے ۔