پرتاپ ریڈی ایڈوکیٹ
گذشتہ ہفتہ میں نے رام جنم بھومی ۔ بابری مسجد تنازعہ کے سلسلہ میں بتایا تھا کہ اس تنازعہ سے ملک کا اتحاد متاثر ہونے کا خدشہ ہے اور یہ بھی بتایا تھا کہ مندر ۔ مسجد کے اس تنازعہ سے قومی یکجہتی اور ملک کا اتحاد و اتفاق متاثر ہورہا ہے۔ آپ کو پھر ایک بار یاد دلادوں کہ یہ تنازعہ بالکل بے بنیاد ہے اور ایک ایسا تنازعہ ہے جو کسی بھی دستیاب تاریخی ڈاٹا و معلومات کی بنیاد پر نہیں ہے ۔ اکثریتی طبقہ اپنا دعویٰ دیومالائی قصے کہانیوں کی بنیاد پر اور اقلیتی طبقہ غیر تاریخی بنیاد پر پیش کررہا ہے۔ ان دعوؤں کے قطع نظر ہمارے ملک میں آزادی کے بعد سے جو حکومتیں آئی ہیں ان حکومتوں اور اس کے ذمہ داروں نے اس سنگین مسئلہ کو حل کرنے کی کبھی بھی سنجیدگی سے کوشش نہیں کی حالانکہ ہمارے دستور نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ ملک کا اتحاد و اتفاق اس کی سالمیت ہندوستان جیسے سوشلسٹ سیکولر جمہوری ملک کے اقتدار اعلیٰ کو بچانے یا اس کے تحفظ کیلئے سب سے اہم عنصر ہے۔ اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر دوراں ہے۔ عدالت عظمیٰ جو بھی فیصلہ کرے گی اسے فریقین کو بِلاچوں و چراں قبول و تسلیم کرنا چاہئے۔
دستور کی دفعہ 142، فقرہ I
سپریم کورٹ اپنے دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے ایسی ڈکری یا حکم جاری کرسکتی ہے جو اس ( عدالت ) کے سامنے زیر تصفیہ کسی کاز یا معاملہ میں مکمل انصاف کیلئے ضروری ہے اور اس طرح جاری کردہ کوئی ڈکری یا حکم سارے ہندوستان میں اسی انداز میں قابل نفاذ ہوتا کہ جس کی وضاحت پارلیمنٹ میں بنائے گئے کسی قانون کے تحت کی جاسکتی ہو اور جب مذکورہ سلسلہ میں کوئی دفعہ فراہم نہ ہو‘ ’ صدر جمہوریہ ‘ ایک حکم کے ذریعہ اسے نافذ کرسکتے ہیں۔ اس طرح یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ چونکہ یہ معاملہ اب سپریم کورٹ میں زیر دوراں ہے، سپریم کورٹ اس معاملہ کی جلد از جلد یکسوئی کردے اور یہ تمام ہندوستانی شہریوں کا خواہ وہ اکثریتی فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں یا اقلیتی فرقہ سے کا فریضہ ہوگا کہ اس کی تعمیل کریں گے۔
میں یہاں یہ بات پھر دُہرادوں کو میں کسی تردید کا خوف کئے بغیر یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ تنازعہ کے دونوں یا تمام فریقوں کے دعوے یعنی رام جنم بھومی مندر کی موجودگی کے بارے میں اکثریتی فرقہ کا دعویٰ یا ؍ اور اُسی مقام پر بابر کی تعمیر کردہ مسجد کے بارے میں اقلیتی فرقہ کا دعویٰ کلیتاً بے جان ہے۔ اولذکر فرقہ کا دعویٰ دیو مالائی عقیدہ پر مبنی ہے جبکہ موخر الذکر فریق کا دعویٰ تاریخی طور پر دستیاب کسی درسی کتاب پر مبنی نہیں ہے۔
بلا شبہ یہ بات صحیح ہے کہ ایک قدیم اور خستہ عمارت ’’متنازعہ جگہ ‘‘ پر موجود تھی اور اس عمارت کو کوئی شخص یا فرقہ استعمال نہیں کررہا تھا، مندر یا مسجد کے طور پر استعمال نہیں کررہا تھا۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ تنازعہ پہلی بار 1948 میں شروع ہوا، اور 6ڈسمبر 1992 کو مسجد کے انہدام کی صورت میں انتہا کو پہنچا۔ یہ اقدام اُس وقت کی بی جے پی زیر قیادت حکومت اترپردیش اور کانگریس کی زیر قیادت مرکزی حکومت کی بدبختانہ اور ناقابل تصور چشم پوشی کے سبب پیش آیا جس کے بعد سے موجودہ اور جاری فرقہ وارانہ افتراق قومی سالمیت اور اتحاد کیلئے خطرہ بن گیا ہے۔ جیسا کہ پہلے ہی کہا جاچکا ہے الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے اس تنازعہ کی بحیثیت ایک مقدمہ سماعت ہی نہ کی ہوتی کیونکہ یہ کسی بھی اعتبار سے ایک دیوانی نوعیت کا مقدمہ نہیں تھا۔
ایک فریق کا دعویٰ محض دیو مالائی عقیدہ پر مبنی ہے اور دوسرے فریق کا دعویٰ محض عقیدہ پر مبنی اور کسی معتبر تاریخی درسی کتاب پر مبنی نہیں ہے۔ اس پس منظر میں الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ کو چاہیئے تھا کہ تنازعہ کے دونوں فریقین یا تمام فریقوں پر زور دیتی کہ وہ اس تنازعہ کا باہمی تصفیہ کریں یا اس کو لوک عدالت سے رجوع کریں۔
دستور کی دفعہ 142 کے تحت دائرہ کار جس کا حوالہ اوپر دیا جاچکا ہے تمام فریقین کو چاہئے کہ وہ سپریم کورٹ کے قطعی فیصلہ کا انتظار کریں اور اس کی تعمیل کریں تاکہ ملک و قوم کے اتحاد و سالمیت کو برقرار رکھا جائے۔
اب تک سپریم کورٹ کے ظاہر کردہ آثار و قرائن کا جہاں تک تعلق ہے صحیح پتہ نہیں کہ سپریم کورٹ، کس مواد پر اپنا قطعی فیصلہ ڈگری یا حکم جاری کرے گی لیکن یہ فیصلہ ؍ اس حکم کی تعمیل بلالحاظ مذاہب اور عقائد ہندوستان کے تمام شہریوں پر لازم ہوگی اور مذکورہ نوعیت کے فیصلہ یا حکم کو قبول کرنا تمام شہریوں کا فریضہ ہے۔
یہ تعمیل دستور کی دفعہ 142میں صراحت کردہ اصطلاح قطعیت کی بنیاد پر اور تمام شہریوں کے بنیادی فرائض کے سبب کی جانی چاہیئے۔
جیسا کہ ہمارے دستور کی دفعہ 151 میں حکم دیا گیا ہے اور جس کو ہم تمام نے قبول کیا ہے۔ جو ہندوستان کے عوام ہیں اور ملک و قوم کے اتحاد اور سالمیت کی برقراری ہماری بنیادی ذمہ داری و فریضہ ہے۔ ہندوستان بھارت ہے۔
میں اپنے اظہار خیال کو ختم کرنے سے پہلے اس حقیقت پر زور دینا چاہتا ہوں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ کسی فرقہ ‘ اکثریت یا اقلیت کی توقعات یا خواہشات کی تکمیل نہیں کرسکتا۔ سارے عوام کو یہ حقیقت محسوس کرنی چاہئے کہ کسی عدالت کا کوئی فیصلہ حتیٰ کہ ہمارے اپنے منتخبہ نمائندوں پر مشتمل پارلیمنٹ کا بنایا قانون بھی سارے عوام کی توقعات کو پورا نہیں کرسکے گا۔
بائیں ہمہ ، یہ ملک کے تمام شہریوں کا فریضہ ہے کہ معزز عدالتی فیصلہ پر پارلیمنٹ کی قانون سازیوں یا ریاستی اسمبلیوں کی قانون سازیوں کی تعمیل کرے۔
میں عوام کو یہ بھی یاد دلانا چاہتا ہوں کہ سپریم کورٹ نے خود کہاہے کہ اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ اس کے فیصلے ہمیشہ صحیح ہوں لیکن اس کے ساتھ ساتھ فیصلے قطعی اور قابل تعمیل ہوتے ہیں۔ یہ فیصلے سپریم کورٹ کے کسی وسیع تر بنچ کے ذریعہ یا پارلیمنٹ میں بنائے ہوئے کسی جائز قانون کے ذریعہ تبدیل کئے جاسکتے ہیں۔ اس لئے قارئین سے میری عاجزانہ التجاء ہے کہ بلالحاظ شخصی عقائد و توقعات‘ سپریم کورٹ کے قطعی فیصلہ کی تعمیل ہمیشہ بہتر ہے تاکہ قوم کے اتحاد و سالمیت کو برقرار رکھا جائے۔ ( ختم شد )