راشد آزرؔ

میرا کالم مجتبیٰ حسین
اضعرؔ گونڈوی کا ایک شعر ہے :
اضعرؔ سے ملے لیکن اصغرؔ کو نہیں دیکھا
اشعار میں سنتے ہیں کچھ کچھ وہ نمایاں ہے
اصغرؔ گونڈوی کا یہ شعر ، جو اصل میں ان کا وزیٹنگ کارڈ بھی ہے ، بہت مشہور ہے۔ سنا ہے کہ ان کے اس شعر کو پڑھنے کے بعد ان کے بہت سے مدّاح ان سے ملتے ہوئے کتراتے تھے کہ صاحب ایسے شخص سے ملنے کا کیا فائدہ جس سے آپ مل تو لیں لیکن اسے دیکھ نہ پائیں۔ یوں بھی یہ شعر اصغرؔ سے ملنے والے کی بصارت کیلئے ایک چیلنج کا درجہ رکھتا ہے ۔ یہ بھی سنا ہے کہ بیشتر اصحاب اصغرؔ  سے ملنے کے فوراً بعد کسی ماہر امراض چشم کے پاس پہنچ جاتے تھے کہ حضور ذرا ہماری آنکھوں میں جھانک کر دیکھ لیجئے کہ کہیں یہ خراب تو نہیں ہوگئی ہیں کیونکہ ہم اصغر سے ملے تو تھے لیکن وہ دکھائی نہیں دیئے۔ ایسے میں اگر ماہر امراض چشم جہاندیدہ ہوتا تھا ، جیسا کہ ہمارے ڈاکٹر شیام سندر پرشاد ہیں، تو فیصلہ صادر کردیتا تھا کہ میاں یہاں معاملہ بصارت کا نہیں بلکہ بصیرت کا ہے۔ پہلے اپنی بصیرت کی عینک کا نمبر بدلوالو
آج ہم اپنے نہایت پرانے دوست راشد آزرؔ (جو ہمیشہ نئے اور ترو تازہ نظر آتے ہیں) کے بارے میں کچھ لکھنے بیٹھے تو ہمیں اچانک اصغرؔ گونڈوی کا یہ شعر یاد آگیا ۔ راشد آزرؔ سے ہماری دوستی کا معا ملہ بھی نصف صدی کا قصہ ہے ۔ یوں بھی ان دنوں ہمارے ایسے دوستوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے جن سے ہمارے تعلقات نصف صدی پر محیط ہیں۔ گویا ہم بھی دوستی کے سچن ٹنڈولکر بن گئے ہیںاور دوستوں سے دوستانہ تعلقات کی سنچریاں نہ سہی، نصف سنچریاں بناتے چلے جارہے ہیں۔ اب احساس ہوا کہ کرکٹ اور زندگی کے میدان میں اگر کوئی یونہی بیکار بھی کھڑا رہ جائے تو اپنے آپ ہی آدھی سنچریاں بنتی چلی جاتی ہیں۔ راشد آزرؔ کی ادب میں جو حیثیت ہے اس سے تو آپ بخوبی واقف ہیں لیکن ان کی اور بھی کئی حیثیتیں ہیں کیونکہ اردو کے ادیب ، شاعر اور نقاد ہونے کے علاوہ ایک اسکول میں استاد بھی رہ چکے ہیں(بی ایڈ کا امتحان جو پاس کر رکھا ہے) اور وکیل بھی رہے ہیں (ایل ایل بی کی ڈگری جو لے رکھی ہے )۔ ان کا تعلق حیدرآباد کے ایک ایسے ممتاز گھرانے سے رہا ہے جس نے حیدرآباد کو کئی نامی گرامی ہستیاں عطا کیں۔ نواب عماد الملک ان کے پڑ نانا ہیں۔ نواب خدیو جنگ ان کے نانا، ہندوستان کی پہلی مسلم گریجویٹ خاتون، لیڈی حیدری کلب اور محبوبیہ گرلز ا سکول کی بانی طیبہ بیگم ان کی نانی ، حیدرآباد کی پہلی مسلم خاتون وزیر معصومہ بیگم ان کی والدہ ، انگریزی کے ما یہ ناز استاد پروفیسر حسین علی خاں ان کے والد اور سابق گورنر مہاراشٹرا نواب علی یاور جنگ ان کے ماموں ہیں ۔ ایسے جلیل القدر خاندان میں پیدا ہونے کے باوجود ایک دن انہوں نے غلطی سے کارل مارکس کا مطالعہ کرلیا اور آؤ دیکھا نہ تاؤ غریبوں ، ناداروں ، محکوموں ، مفلسوں اور مفلوک الحالوں یعنی ہم جیسوں کے ہمدرد ہمنوا اور علمبردار وغیرہ بن گئے ۔ (آدمی کو بگڑتے دیر تھوڑی لگتی ہے ) اپنے باوقار خاندانی پس منظر کے باعث وہ یکایک محلوں سے نکل کر سڑک پر تو نہیں آسکتے تھے ۔ اس لئے اپنی شاعری اور ادب میں ہم جیسوں کی جم کر حمایت کرنے لگے اور ہمارے حق میں نظمیں اور شعر کہنے لگے ۔ گویا محلوں میں رہ کر جھونپڑیوں کے خواب دیکھنے لگے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بالآخر ایک دن سوویت یونین کا خاتمہ ہوگیا ( لفظی جمع خرچ میں یہی تو ہوتا ہے) دیکھا جائے تو راشد آزرؔ کی شخصیت کئی تضادات کا مجموعہ ہے ۔ اگرچہ انہوں نے انگریزی ادب سے بی اے کیا لیکن اپنی شاعری کے وسیلہ اظہار کے طور پر اردو جیسی مظلوم زبان کو منتخب فرمایا( تاکہ اس پر ظلم کا سلسلہ جاری و ساری رہے) خود ان کے والد پروفیسر حسین علی خاں انگریزی کے مایہ ناز استاد رہے ہیں اور کہنے والے کہتے ہیں کہ بیسویں صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی کے بعد حیدرآباد کے طبقۂ اشرافیہ کے جو لوگ فصیح انگریزی بولتے تھے وہ شیکسپیئر، ملٹن اور چارلس  ڈکنس وغیرہ کے حوالے سے نہیں بلکہ پروفیسر حسین علی خاں کے آگے زانوے ادب تہہ کرنے کے حوالے سے بولتے تھے ۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ ان حالات میں راشد آزرؔ کو انگریزی ادب کی طرف جانے سے بھلا کس نے روکا تھا ۔ انہیں اپنی مرضی سے خود ہی چلے جانا چاہئے تھا، اچھا موقع تھا مگر راشد کسی کی بات بھی تو نہیں مانتے۔ چاہے وہ بات معقول ہی کیوں نہ ہو۔ بڑے ضدی ، ہٹ دھرم اور ڈھیٹ واقع ہوئے ہیں۔
راشد ہمارے ’’اورینٹی بھائی ‘‘ ہیں جیسے پیر بھائی وغیرہ  ہوتے ہیں کیونکہ ان سے ہماری ابتدائی ملاقاتیں اسی مرحوم اورینٹ ہوٹل میں ہوئی تھیں جہاں ہر شام کو حیدرآباد کے شاعر ، ادیب ، دانشور ، صحافی اور سیاست داں وغیرہ جمع ہوا کرتے تھے اور یہ سب کے سب ’’اورینٹ برادران‘‘ کہلاتے تھے ۔ راشدؔ اکثر شاذؔ تمکنت یا سلیمان اریبؔ کے ساتھ یہاں آ یا کرتے تھے ۔
بوٹا سا قد ( اگرچہ اس عرصہ میں ان کا ادبی قد خاصا بلند ہوچکا ہے لیکن ان کا جسمانی قد آج بھی اتنا ہی ہے جتنا کہ پچاس برس پہلے تھا یعنی اس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ) نہایت حسین و جمیل ، تیکھے نین نقش والے ، دیدہ زیب ، جامہ زیب ، خوش شکل ، خوش اطوار اور خوبرو۔ غرض ان کی من موہنی شخصیت کو دیکھ کر احساس ہوتا تھا کہ ابھی کسی شوکیس میں سے نکل کر چلے آئے ہیں۔ اورینٹ ہوٹل میں شاذؔ تمکنت ان کے ساتھ ضرور ہوا کرتے تھے اور یہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ دونوں میں سے کون کس کا حلقہ بگوش ہے ۔لوگوں سے ملنے ملانے کے معا ملے میں وہ بہت محتاط رہتے ہیں۔ ہر کس و نا کس کو منہ نہیں لگاتے ۔ ایک عرصہ تک تو خود شاذ تمکنت ہم سے بہت بدکتے تھے ۔ لہذا راشد آزرؔ سے ہماری ابتدائی ملا قاتیں بس یونہی رہیں مگر رشتے اور پانی دونوں اپنا راستہ آپ تلاش کرلیتے ہیں۔ اس لئے آج ہم راشد کو اپنا بے تکلف دوست سمجھتے ہیں ۔ مگر ان ہی کے ایک اور قریبی دوست کا خیال ہے کہ راشد اپنے رئیسانہ عادات و اطوار کے باعث اپنے بے تکلف دوستوں سے بے تکلفانہ برتاؤ کا مظاہرہ کرتے وقت خاصے پُرتکلف ہوجاتے ہیں۔ پُر تکلفانہ بے تکلفی کی یہ ایک نئی ادا ہے جس کے راشدؔ موجد بھی ہیں اور خاتم بھی۔
راشدؔ آزر ایک زمانہ میں وکالت بھی کرتے تھے ( پتہ نہیں کس کی وکالت کرتے تھے کیونکہ ہم نے تو کبھی کسی موکل کو ان کے ساتھ نہیں دیکھا)  تاہم بعض اوقات کسی نہ کسی عدالت سے واپس ہوتے ہوئے وہ وکیلوں والا ایک گاؤن بھی اپنے ساتھ اورینٹ ہوٹل میں لایا کرتے تھے اور بیٹھنے سے پہلے اسے کرسی کی پشت پر ڈال دیتے تھے ۔ عدالت میں یہ گاؤن ان کے کس کام آتا تھا ، یہ ہم نہیں جانتے ،تاہم ایک بار وہ اس گاؤن کو کرسی پر رکھ کر ہاتھ دھونے کے ارادے سے واش روم میں گئے اور اس اثنا میں ٹیبل پر رکھی ہوئی چائے کی پیالی اُلٹ گئی اور تھوڑی سی چائے ہماری پتلون پر گری تو ہم نے چپکے سے ان کے گاؤن کی مدد سے اس چائے کو صاف کیا تھا ۔ کسی نے کہا تھا کہ ہم وہ پہلے شخص تھے جسے راشدؔ کی وکالت سے وا قعی کوئی فائدہ پہنچا تھا اور اس فائدہ میں بھی وکیل کا ا تنا دخل نہیں تھا جتنا کہ وکیل کے گاؤن کا تھا ۔ ہمارے دوستوں میں قاضی سلیمؔ اور راشد آزرؔ دو ایسے وکیل گزرے ہیں جو اپنی شاعری میں تو مظلوموں اور بیکسوں کی حمایت ضرور کرتے رہے لیکن عملی طور پر عدالتوں میں مظلوموں کی وکالت کرنے کا ان دونوں حضرات کی طرف سے ہمیں کوئی دستاویزی ثبوت کبھی نہیں ملا۔ البتہ راشدؔ کے ایک اور قریبی دوست نے یہ گواہی ضرور دی تھی کہ ایک دن راشد نے کسی عدالت میں اپنے موکل (ہوگا کوئی بچارا آفت کا مارا) کی حمایت میں بڑی زوردار اور طویل بحث کی تھی جس کا اثر خود راشدؔ پر اتنی دیر تک طاری رہا کہ شام کو انہوں نے کسی مشاعرے میں شرکت کی تو شعر سنانے سے پہلے وہ صدر مشاعرہ، کو بار بار ، می لارڈمی لارڈ کہہ کر مخاطب کرتے رہے اور داد بھی پا تے رہے ۔ مقدمہ میں کامیاب ہوئے یا نہیں یہ ہمیں نہیں معلوم ۔ البتہ مشا عرہ میں ضرورکامیاب رہے (چونکہ ہم ہر دو واقعات کے عینی شاہد نہیں رہے ہیں، اسی لئے ان کی وکالت کو کیسے تسلیم کرلیں)
یہ بھی سنا ہے کہ اردو کے یہ دونوں وکیل خاصی چھان بین کے بعد مقدمے ہی ایسے موکلوں کے لیا کرتے تھے جنہوں نے واقعی قانون کی کوئی خلاف ورزی نہ کی ہو۔ یہ اور بات ہے کہ وکیلوں کی اتنی احتیاط اور خود موکلوں کی اتنی بے گناہی کے باوجود ان کے موکل قرار واقعی سزا بھی پاتے تھے۔ کسی جرم کی پاداش میں نہیں بلکہ اپنے مقدمہ کے لئے ایک بے قصور وکیل کا انتخاب کرنے کی پاداش میں ۔ بھئی وکیل ہو تو ایسا ہو جو خطرناک سے خطرناک مجرم کو بھی پھانسی کے تختہ سے اتار کر لے آئے ۔ بہت بعد میں ایک دوست نے بتایا تھا کہ ان دونوں نے قانون کی تعلیم وکالت کی پریکٹس کرنے کی غرض سے نہیں بلکہ اس مقصد سے حاصل کی تھی کہ وہ خود قانون کی کوئی خلاف ورزی نہ کرسکیں۔ سنا ہے کہ بعد میں راشد آزرؔ نے کئی ملازمتیں اختیار کیں۔ غالباً نواب مکرم جاہ کے دست راست اور مشیر بھی رہے ( ان کے مشوروں کا انجام بھی آپ کے سا منے ہے) غرض راشد نے ٹیچری چھوڑی ، وکالت چھوڑی ، نوکریاں چھوڑیں لیکن وہ چیز نہیں چھوڑی جسے انہیں بہت  پہلے چھوڑ دینا چاہئے تھا۔ یہاں ہماری مراد شاعری سے ہے۔
ایک زمانے میں راج بھون روڈ پر راشد آزرؔ کی ایک عالیشان کوٹھی بھی ہوا کرتی تھی جہاں ہم جیسوں کی محفلیں اکثر سجا کرتی تھیں۔ ہم یہاں اس زمانہ میں بھی گئے جب بیگم فاطمہ راشدؔ حیات تھیں اور بعد میں بھی جب وہ اس دنیا میں نہ رہیں۔ بیگم راشد کے انتقال کا راشد کو گہرا صدمہ تھا لیکن اس کے باوجود راشدؔ نے اس کوٹھی کے قرینے اور رکھ رکھاؤ میں کوئی فرق نہ آنے دیا اور اپنے کمسن بچوں کی کچھ اس لگن سے نگہداشت کی کہ آج یہ بچے خود راشد سے بڑے ہوگئے ہیں۔ (اپنے باپ سے دور امریکہ میں جو رہتے ہیں) ایک دن ہم نے راشد سے کہا تھا کہ ’’تم نے یہ عالیشان کوٹھی راج بھون روڈ پر غالباً اس لئے بنائی ہے کہ تمہیں ریاست کا گورنر جیسا پڑوسی مل جائے‘‘۔ بنس کربولے ’’میاں ! گورنر تو خود میرے گھر میں بھی موجود ہے( اشارہ نواب علی یاور جنگ کی طرف تھا) یوں بھی میں پڑوسیوں سے وقت ضرورت چائے کی پتی ، گیس کا سلنڈر ، دودھ اور ماچس وغیرہ منگوانے کا قائل نہیں ہوں۔ اس لئے کہ منظم زندگی گزارتا ہوں‘‘۔ راشد آزر سخت اصول پسند آدمی ہیں لیکن عام لوگوںکو بلکہ ہمیں بھی کبھی پتا نہیں چلا کہ ان کے اصول کیا ہیں ۔ اس لئے انجانے میں جب کوئی ملنے والا ان کے کسی نامعلوم اصول کو توڑ دیتا ہے تو خفا بھی ہوجاتے ہیں اور برسوں خفا رہتے ہیں۔ راشد نہایت خوش خط بھی ہیں۔ ان کا خط آتا ہے تو لگتا ہے انہوںنے خط نہیں بلکہ خطاطی کا کوئی نادر نمونہ ہمیں بھیجا ہے۔ ایک دن ہم سے کہا ’’میاں مجتبیٰ سوچتا ہوں کہ اس بار اپنے اگلے مجموعے کی کتابت میں خود کردوں‘‘۔ اس پر ہم نے کہا ’’یار راشد ایمان کی بات تو یہ ہے کہ تمہیں اصل میں کتابت ہی کرنی چاہئے تھی ، خو امخواہ شاعری کے چکر میں پھنس گئے ۔ اگر کتابت کر رہے ہوتے تو بڑا نام ہوتا تمہارا۔پھر کتابت کے پیشے میں ایک سہولت یہ بھی رہتی ہے کہ کوئی  غلطی کرو تو لوگ اسے کتابت کی غلطی سمجھ کر خاموش ہوجاتے ہیں ۔ شاعری میں غلطی کرو تو یہی لوگ آسمان سر پر اٹھالیتے ہیں‘‘۔ ایسی باتوں پر راشد جی کھول کر ہنسنے کا گُر بھی جانتے ہیں۔
راشدؔ پچھلے پچپن  برسوں سے شعر کہہ رہے ہیں اور اب تک ان کے نو شعری مجموعے اور بیسیوں تنقیدی مضامین شائع ہوچکے ہیں۔ گویا شعر و ادب کے دریا میں کمر کمر اور گلے گلے ہی نہیں بلکہ بالکلیہ ہی ڈوب چکے ہیں۔ راشد نے ایک بار ہماری کسی بات پر مشتعل ہوکر لکھا تھا ’’میں نے شاعری اور ادب کو ہمیشہ زیاں کا سودا سمجھا ، منفعت بخش تجارت نہیں۔ اس لحاظ سے اس خسارے نے میرے لئے انسان کی حیثیت سے زندہ رہنے کا جواز پیدا کر کے میرے ہر نقصان کی تلافی کی ہے ۔ جب میں اس جمع و خرچ کی فرد حساب دیکھتا ہوں تو مجھے خسارے سے زیادہ منافع ملتا ہے ۔ ایسے فنکار کیلئے یہی دعا کی جاسکتی ہے کہ خدا اس کے دامن کو ڈھیر سارے خساروں سے مالا مال کردے تاکہ خساروں کے بھاری بوجھ سے بالآخر یہ دامن پھٹ جائے اور فنکار کو پتہ چلے کہ اصل سود و زیاں کس کو کہتے ہیں۔
آخر میں ہم راشد آزرؔ کا شکریہ بھی ادا کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ زندگی کے سفر میں ان کی طویل رفاقت ہمیں میسر آئی ورنہ یہ ڈھنڈار زندگی کیسے گزرتی۔ راشد کی شاعری نے ہمیں بیش قیمت لمحے عطا کئے ہیں ، احساس کو جو لطافت بخشی ہے ، جذبے اور شعور کو جو بالیدگی عطا کی ہے ، زمانے کے تجربات و حوادث کو دیکھنے کا جو زاویہ نگاہ دیا ہے ، ہرجانکاہ سانحہ کے بعد از سر نو جینے کی ادا سکھائی ہے اسے ہم سراسر اپنا ذاتی منافع سمجھتے ہیں ۔ راشدؔ کے خسارے کی ہم کیوں پرواہ کریں۔ کالم ختم ہونے لگا ہے تو ذرا دیکھئے کہ راشد کی شاعری کے بارے میں ہما رے ذہن میں کتنی اچھی اچھی باتیں آرہی ہیں۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ راشد کے بارے میں ایسی اچھی اچھی باتیں آخر میں ہی کیوں یاد آتی ہیں۔ پہلے کیوں یاد نہیں آتیں۔ پھر ایسی اچھی باتیں ، جو بالکل سامنے کی باتیں ہیں ، ہمارے ان ناقدوں کے ذہن میں کیوں نہیں آتیں جو زندگی بھر مصلحت آمیز باتوں میں ہی الجھے رہتے ہیں۔ خیر ہمیں ناقدوں کی اچھی باتوں سے کیا لینا دینا۔ یہ ہمارا شیوہ ہے اور نہ ہی منصب ۔    (مئی 2004  ء)
(افسوس کہ نومبر 2016 ء میں پچھلے سال راشد آزر بھی ہمیں داغِ مفارقت دے گئے)
؎کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور