راستے خود ہی بتادیںگے فضاء کیسی ہے

رشیدالدین
ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے 40 سال کی تکمیل کے موقع پر بی جے پی کے مارک درشک ایل کے اڈوانی نے دوبارہ ایمرجنسی کے نفاذ کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔ ملک میں ایمرجنسی کے دوبارہ نفاذ جیسی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے ایل کے اڈوانی نے سیاسی حلقوں میں ہلچل پیدا کردی ہے۔ اڈوانی جو اندرا گاندھی کی جانب سے ایمرجنسی کے نفاذ کے وقت قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرچکے ہیں، ان کے اس بیان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ پارلیمنٹ میں بی جے پی ارکان کی تعداد کو 2 سے اقتدار سے پہنچانے میں خون جگر سے پارٹی کی آبیاری کرنے والے اڈوانی نے یقیناً حالات کے مکمل تجزیہ کے بعد ہی اس طرح کا تبصرہ کیا ہوگا۔ اڈوانی کے اس تبصرہ کو بی جے پی اور اپوزیشن اپنے اپنے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور حکومت اور اپوزیشن میں لفظی جنگ چھڑگئی ہے۔ بی جے پی اس بیان کو اپوزیشن جماعتوں پر تنقید اور حکومت کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے سے منسوب کر رہی ہے تو اپوزیشن کا استدلال ہے کہ اڈوانی نے نریندر مودی حکومت پر چوٹ لگائی ہے۔ اڈوانی نے کسی کی سمت اشارہ کئے بغیر اتنا ضرور کہا کہ ملک میں جمہوریت کو کچلنے والی طاقتیں مضبوط ہوچکی ہے۔ یہ تو صرف اڈوانی ہی بتاسکتے ہیں کہ ان کے نشانہ پر کون ہے ۔ اڈوانی میدان سیاست کے نووارد یا کچے کھلاڑی نہیں جو اپنے نشانہ کا اظہار کردیں۔ سیاسی میدان کے منجھے ہوئے کھلاڑی اور جہاں دیدہ شخصیت کی حیثیت سے دنیا بھر میں اپنی شناخت رکھنے والے اڈوانی پارٹی میں نظر انداز کئے جانے اور منظر سے پس منظر میں کئے جانے پر یقیناً اندرونی کرب کا شکار ہیں۔ وزیراعظم کی کرسی جن کی خواہش تھی کہ انہیں عین وقت پر نہ صرف اس دوڑ سے علحدہ کردیا گیا بلکہ سرگرم سیاست کا باب ختم کرتے ہوئے مارک درشک گروپ میں شامل کردیا گیا۔ وزیراعظم کے عہدہ تک پہنچنے میں پہلی بار اٹل بہاری واجپائی رکاوٹ بنے اور 2014 ء میں جب اقتدار حاصل ہوا تو جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کے غلبہ نے انہیں وزارت میں بھی جگہ سے محروم کردیا۔

سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جمہوریت کو کچلنے والی طاقتیں آخر کون ہیں۔ 25 جون 1975 ء کو پہلی مرتبہ ملک میں ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی اور اڈوانی نے اسی ماہ میں ایمرجنسی کے دوبارہ نفاذ سے متعلق سنسنی خیز تبصرہ کیا ہے۔ خاتون آہن (آئرن لیڈی) اندرا گاندھی نے اپوزیشن کی مہم سے نمٹنے کیلئے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی تھی جس کا خمیازہ انہیں بعد میں بھگتنا پڑا۔ حکومت کے خلاف مہم کی قیادت جئے پرکاش نارائن اور مرارجی دیسائی جیسے قائدین کر رہے تھے۔ اندرا گاندھی کے بعد اگر کسی کو مرد آہن کہا گیا تو وہ ایل کے اڈوانی ہیں جنہیں بی جے پی و سنگھ پریوار سردار پٹیل ثانی کے طور پر دیکھتا رہا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ خطاب نریندر مودی کو منتقل ہوگیا۔ بی جے پی کے سابق مرد آہن نے ایمرجنسی کے نفاذ کے اندیشوں کا ذکر آخر کیوں کیا ہے؟ کیا وہ ملک میں جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں اور نریندر مودی کی ایک سالہ حکمرانی سے ناراض ہیں ؟ کیا حکومت کے خلاف اپوزیشن کی مہم سے وہ مودی حکومت کو خطرہ محسوس کررہے ہیں؟ بی جے پی کی جانب سے اڈوانی کے اس بیان کو اپنے حق میں ثابت کرنے کی بھلے ہی لاکھ کوشش کی جائے لیکن اڈوانی پارٹی میں ان کے قد اور قامت کو گھٹانے کے ذمہ دار چہروں کو کبھی بھلا نہیں سکتے۔ پارٹی میں اڈوانی کے زوال کا آغاز ان کے دورہ پاکستان کے موقع پر دیئے گئے بیان سے ہوا جس میں انہوں نے بانی پاکستان محمد علی جناح کو سیکولر قرار دیا تھا۔ جو پارٹی اور پریوار گاندھی جی اور مولانا آزاد کو سیکولر ماننے میں جھجھک محسوس کرے، وہ جناح کی تعریف کس طرح برداشت کرسکتا تھا۔ ملک کے موجودہ حالات کو ایمرجنسی کے نفاذ کے اندیشوں سے جوڑنا یقیناً اچھی علامت نہیں ہے اور یہ مرکز کی عدم استحکام کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اڈوانی جیسے وسیع تجربہ رکھنے والی شخصیت کے اندیشے درست بھی ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ گزشتہ 13 ماہ میں نریندر مودی سرکار نے ہر سطح پر عوام کو مایوس کیا ہے۔ وعدوں کی تکمیل اور اچھے دن لانے میں حکومت ناکام ثابت ہوئی۔ گزشتہ 13 ماہ میں اقتدار مکمل طور پر نریندر مودی کے اطراف مرکوز رہا۔ اقتدار کا واحد مرکز نریندر مودی رہے جنہوں نے ہر سطح پر اور ہر انداز سے دنیا بھر میں اپنی مارکٹنگ کی اور شو بوائے کی طرح مقبولیت حاصل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ اقتدار میں اگر کوئی شراکت دار دکھائی دیا تو وہ ان کے وزیر باتدبیرامیت شاہ اور وزیر فینانس ارون جیٹلی رہے۔ ساری کابینہ اہم پالیسی فیصلوں کے بارے میں تاریکی میں رہی۔ لوک سبھا میں اکثریت کے باوجود جس طرح حکومت کو راجیہ سبھا میں بلز کی منظوری میں رکاوٹوںکا سامنا ہے اور حکومت اہم فیصلوں کے سلسلہ میں آرڈیننس کا سہارا لینے پر مجبور ہے، کہیں اڈوانی اس صورتحال کی سمت اشارہ تو نہیں کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آخر حکومت اکثریت کے باوجود کب تک اپاہج بنی رہے گی۔ کیا ان حالات میں نریندر مودی ایمرجنسی کے نفاذ کا قدم اٹھاسکتے ہیں؟ ایک سالہ مایوس کن کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اس طرح کا کوئی بھی اقدام مودی سرکار کیلئے خودکشی کے مترادف ہوگا۔ اڈوانی نے ایمرجنسی کی جو بات چھیڑی ، اس کا پس منظر بھلے ہی کچھ ہو لیکن یہ حکومت کی کارکردگی پر اظہار مایوسی اور حکومت کیلئے آئی اوپنر ہے۔

حکومت کے ایک سال کی تکمیل پر وزیراعظم نریندر مودی نے بدعنوانیوں سے پاک حکومت کا دعویٰ کیا تھا لیکن جونیئر مودی کے معاملہ نے سینئر مودی کے دعوے کی ہوا نکال دی۔ آئی پی ایل کرکٹ لیگ میں ہزاروں کروڑ کے اسکام کے ذمہ دار للت مودی کو وزیر خارجہ سشما سوراج اور چیف منسٹر راجستھان وسندھرا راجے کی جانب سے پشت پناہی کے انکشافات سے مودی حکومت کے اسکامس کا آغاز ہوا۔ ایک ملزم کو بیرون ملک ویزا اور سفری دستاویزات کے حصول میں وزیر خارجہ نے مدد کی۔ اسی طرح وسندھرا راجے کے لکھے مکتوب بھی منظر عام پر آئے۔ للت مودی کی مدد یہ جانتے ہوئے بھی کی گئی کہ وہ ہزاروں کروڑ کے اسکام کے ذمہ دار ہیں اور تحقیقات سے بچنے ملک سے فرار ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی جو ملک سے زیادہ بیرونی ممالک کے دورے کے ماہر ہیں، ان کے لئے پہلا تنازعہ بیرون ملک سے ہی آیا۔ سشما سوراج نے للت مودی کی مدد کا اعتراف کیا، اس کے باوجود سنگھ پریوار ، بی جے پی اور مرکزی حکومت ان کی تائید میں ہے۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد اور للت مودی کی مدد میں نیک نیتی کا استدلال پیش کیا جارہا ہے۔ مرکزی حکومت نے سشما سوراج کے فیصلہ کو حکومت کے اجتماعی فیصلہ کی حیثیت سے قبول کرلیا۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر اپوزیشن کا کوئی قائد اور خاص طور پر کوئی کانگریسی للت مودی کی تائید کرتا تو کیا حکومت انسانی ہمدردی کی دلیل کو قبول کرتی؟ ہرگز نہیں۔ اس پر تو آسمان سر پر اٹھالیا جاتا اور تحقیقات کا اعلان کیا جاتا ۔ اس مسئلہ پر نریندر مودی کی خاموشی بھی معنیٰ خیز ہے۔ ٹوئیٹر پر تبصرے کے ماہر نریندر مودی نے ابھی تک اس مسئلہ پر ٹوئیٹ نہیں کیا۔ آخر ان کے من کی بات دیش کب جان پائے گا۔ انسانی ہمدردی کی دلیل کو قبول کرلیا جائے تو یہ ہمدردی صرف مخصوص افراد سے کیوں؟ کسی غریب سے اس طرح کی کوئی ہمدردی نہیں کی جاتی جو ثبوت کے بغیر برسوں سے جیلوں میں بند ہیں۔ للت مودی جیسے سرمایہ دار اور صنعت کار دراصل سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کرتے ہیں لہذا اقتدار میں آنے کے بعد ان کے احسان کا بدلہ چکایا جاتا ہے۔ گزشتہ 13 ماہ سے مودی سرکار کچھ اسی طرح کے مخصوص صنعتی گھرانوں کے حق میں فیصلے کر رہی ہے۔

عوام نے ووٹ دیکر اقتدار تک پہنچایا لیکن انکی بھلائی اور اچھے دن کی حکومت کو فکر نہیں۔ انسانی ہمدردی کے سب سے زیادہ مستحق تو مودی کی ریاست گجرات کے مسلمان ہیں جو 2002 ء سے انصاف کے منتظر ہیں۔ آج تک فساد کے متاثرین حکومت اور عدالتوں سے انصاف سے محروم ہیں۔ گجرات اور ملک کی دوسری جیلوں میں دہشت گردی کے الزامات کے تحت سینکڑوں مسلم نوجوان کسی ثبوت اور عدالتی کارروائی کے بغیر قید ہیں، وہ للت مودی سے زیادہ انسانی ہمدردی کے مستحق ہیں۔ مظفر نگر سمیت دیگر فسادات کے متاثرین ہمدردی کے مستحق ہے لیکن حکومت کو صرف بڑے گھرانوں کے ان افراد سے ہمدردی ہے جنہوں نے ملک کو ہزاروں کروڑ میں لوٹا، پھر بھی ان کا شمار معززین میں ہورہا ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ سشما سوراج کے اس معاملہ میں کانگریس کے سواء دیگر بڑی جماعتوں کا رویہ کسی قدر نرم اور محتاط ہے۔ سابق سوشلسٹ قائدین جیسے ملائم سنگھ ، لالو پرساد اور دوسروں پر سشما سوراج کے شوہر کے احسانات ہیں۔ بتایا جاتاہے کہ ایمرجنسی کے مقدمات کے سلسلہ میں قانون داں کی حیثیت سے سشما سوراج کے شوہر نے ان قائدین کی مدد کی تھی۔ کانگریس پارٹی تنہا اس مسئلہ کو زیادہ طول نہیں دے پائے گی۔ وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے وزرائے اعظم کو رمضان کی مبارکباد پیش کی اور ملک کے مسلمانوں کی خوشحالی کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ پڑوسی ممالک سے بہتر تعلقات یقیناً ہندوستان کے حق میںہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ نریندر مودی کو ہندوستانی مسلمانوں کی خوشحالی کے سلسلہ میں زبانی ہمدردی کے بجائے عملی اقدامات کرنی چاہئے۔ وزیراعظم نے حالیہ ایک تقریب میں قرآن پاک میں علم کی اہمیت کا حوالہ دیا اور کہا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ذکر کے بعد سب سے زیادہ علم کا ذکر آیا ہے۔ 800 مرتبہ قرآن میں علم کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا۔ نریندر مودی نے واقعی اگر قرآن کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے تو اس میں وہ وحدانیت کے ذکر کو کیسے فراموش کر گئے۔ کسی کے لکھے ہوئے جملوںکو پڑھنا تو آسان ہے لیکن عمل کرنا مشکل ہے۔ اگر واقعی مودی نے قرآن کا مطالعہ کیا ہے تو پھر مسلمانوں کو یوگا اور سوریہ نمسکار کیلئے اصرار کیوں؟ نریندر مودی کو جاننا چاہئے کہ قرآن پاک میں علم کے معنی صرف تعلیم نہیں بلکہ حلال و حرام کی تمیز کا علم ہے، اس کی تمیز کرنے والا ہی عالم کہلاتا ہے۔ اڈوانی کے بیان پر شہود آفاقی کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
راستے خود ہی بتادیںگے فضاء کیسی ہے
تجھ کو گھر سے جو نکلنا ہو تو اخبار نہ دیکھ
rasheeduddin@hotmail.com