راجیہ سبھا انتخابات… ایک اور آزمائش

محمد نعیم وجاہت
کانگریس پارٹی اے آئی سی سی کے نائب صدر راہول گاندھی کی تاج پوشی کی تیاری کر رہی ہے، تاہم ملک کا سیاسی ماحول کانگریس کے لئے سازگار نہیں ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا راہول گاندھی کانگریس کی ڈوبتی کشتی کو کنارے لگا سکیں گے؟ یا راہول گاندھی کو بچانے کے لئے خود کانگریس پارٹی ڈوب جائے گی۔ پارٹی میں راہول گاندھی کو لے کر کانگریس قائدین کی رائے منقسم ہے، ایک گروپ راہول گاندھی کو وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار بنانا چاہتا ہے، جب کہ دوسرا سخت خلاف ہے۔ ایک گروپ راہول گاندھی کی تیار کردہ کمیٹی کی کار کردگی سے مطمئن نہیں ہے، جب کہ دوسرا گروپ راہول کو تُرپ کا پتہ مانتا ہے اور انھیں یو پی اے حکومت کی تشکیل کے لئے منظر عام پر لانا ضروری سمجھتا ہے۔ ایک گروپ کا استدلال ہے کہ گزشتہ دس سال کے دوران کئی اسکامس اور اسکینڈلس منظر عام پر آچکے ہیں،

علاوہ ازیں پٹرول، ڈیزل، پکوان گیس اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے، لہذا ان حالات میں راہول گاندھی کو وزیر اعظم امیدوار بنانا خود ان کے لئے اور کانگریس کے لئے نقصاندہ ثابت ہو سکتا ہے۔جنوبی ہند میں بی جے پی کے آپسی اختلافات کا فائدہ اٹھاکر کرناٹک میں کانگریس نے حکومت تو تشکیل دے دی، تاہم مرکز میں کانگریس زیر قیادت یو پی اے حکومت کی تشکیل میں اہم رول ادا کرنے والی ریاست آندھرا پردیش میں کانگریس کا موقف انتہائی کمزور ہے۔ کانگریس قائدین کے درمیان اختلافات عروج پر پہنچ گئے ہیں، علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے فیصلہ کے بعد کانگریس علاقہ واری اساس پر تقسیم ہو گئی ہے۔ متحدہ طورپر اپوزیشن کا سامنا کرنے کی بجائے، کانگریس قائدین ایک دوسرے سے اُلجھ کر حزب مخالف کو مضبوط کرنے میں بالواسطہ تعاون کر رہے ہیں۔

/30 جولائی 2013ء کو کانگریس کی فیصلہ ساز باڈی سی ڈبلیو سی نے علحدہ ریاست کی تشکیل کا فیصلہ کیا، مگر پہلے ہی دن سے چیف منسٹر کرن کمار ریڈی، صدر پردیش کانگریس بی ستیہ نارائنا اور سیما۔ آندھرا سے تعلق رکھنے والے تمام قائدین بشمول مرکزی و ریاستی وزراء اس فیصلہ کی مخالفت کر رہے ہیں۔ تلنگانہ مسودہ بل اسمبلی پہنچ چکا ہے، جب کہ صدر جمہوریہ کی جانب سے بحث کے لئے دی گئی مہلت کے ایام ختم ہونے کے قریب ہیں، پھر بھی اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ چیف منسٹر منظم سازش کے تحت مباحث میں تاخیر کر رہے ہیں، تاکہ صدر جمہوریہ سے بحث کے لئے مزید چار ہفتے طلب کئے جاسکیں۔ اس کے بعد 2014ء کے عام انتخابات کی تیاری شروع ہو جائے گی اور پارلیمنٹ میں بل منظور نہیں ہوا تو متحدہ آندھرا پردیش میں ہی عام انتخابات منعقد ہوں گے۔

کانگریس ہائی کمان ریاست کی تقسیم کے سلسلے میں سیما۔ آندھرا کے کانگریس قائدین کو اعتماد میں لینے میں ناکام ہو گئی ہے۔ چیف منسٹر پارٹی فیصلہ کے خلاف علم بغاوت بلند کرچکے ہیں، تاہم ان کے خلاف کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے دیگر قائدین بھی بغاوت کے لئے سر اُبھار رہے ہیں۔ چیف منسٹر کی بغاوت کانگریس ہائی کمان کی حکمت عملی کا حصہ ہے، یا سیما۔ آندھرا کانگریس قائدین کے سامنے ہائی کمان بے بس ہے؟ دونوں علاقوں کے کانگریس قائدین سمجھنے سے قاصر ہیں۔ حکمراں جماعت کی مخالفت دیکھ کر چندرا بابو نائیڈو اور ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے سیما۔ آندھرا کے ارکان پارلیمنٹ و ارکان اسمبلی نے بھی تلنگانہ کی مخالفت شروع کردی، جب کہ وائی ایس آر کانگریس متحدہ آندھرا کی تائید میں احتجاج شروع کرچکی ہے۔ کانگریس ہائی کمان سیما۔ آندھرا کے پارٹی قائدین کو منانے میں ناکام ہے؟ یا وہ علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل میں سنجیدہ نہیں ہے؟ اس طرح کے سوالات عوام کے ذہنوں میں اُبھر رہے ہیں، مگر کانگریس پارٹی عوام کو اطمینان بخش جواب دینے سے قاصر ہے۔

ریاست میں غیر یقینی صورتِ حال پیدا ہو گئی ہے، تمام جماعتیں اپنے اصولوں اور اخلاقی اقدار کو فراموش کرکے صرف سیاسی مفاد کو ترجیح دے رہی ہیں، یعنی ان کے پاس ریاست کے مفاد اور عوامی جذبہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ کانگریس نے علحدہ تلنگانہ ریاست کا فیصلہ ضرور کیا، تاہم اس کے پاس اپنے فیصلہ کو عملی جامہ پہنانے کے معاملے میں سنجیدگی کا فقدان ہے۔ سی ڈبلیو سی کے اجلاس میں فیصلہ کے باوجود کانگریس پارٹی اسمبلی میں تلنگانہ کی تائید میں قرارداد منظور کرانے سے قاصر ہے۔ بشمول چیف منسٹر سیما۔ آندھرا کے کانگریس قائدین تلنگانہ مسودہ بل کو شکست سے دو چار کرنے کا اعلان کر رہے ہیں، پھر بھی ہائی کمان صرف تماشائی بنی ہوئی ہے۔ چیف منسٹر کی جانب سے نئی سیاسی جماعت کی تشکیل کی افواہیں گشت کر رہی ہیں، جب کہ کئی ارکان اسمبلی اور ارکان پارلیمنٹ پہلے ہی پارٹی سے مستعفی ہو چکے ہیں اور کئی ارکان تلگودیشم اور وائی ایس آر کانگریس کے ساتھ ربط بنائے ہوئے ہیں۔

ان حالات میں راجیہ سبھا کے انتخابات کانگریس اور تلگودیشم کے لئے بہت بڑا چیلنج ہیں۔ ریاست سے 6 راجیہ سبھا نشستوں کے لئے انتخابات آئندہ ماہ 7 فروری کو ہونے والے ہیں۔ جن ارکان کی میعاد مکمل ہوئی ہے، ان میں سے 5 ارکان کا تعلق کانگریس سے ہے، جب کہ تلگودیشم کے واحد رکن ہری کرشنا ہیں۔ اسمبلی میں کانگریس اور اس کے تائیدی ارکان کی تعداد 142 ہے، تلگودیشم کے 76، وائی ایس آر کانگریس اور اس کے تائیدی 23، ٹی آر ایس اور اس کے تائیدی ارکان کی تعداد 21 ہے، جب کہ مجلس کے 7 اور بی جے پی و سی پی آئی کے چار چار ارکان اسمبلی ہیں۔ اسی طرح سی پی ایم اور لوک ستہ کے صرف ایک ایک رکن اسمبلی ہیں۔ تلگودیشم کے ناراض رکن اسمبلی سی رام کوٹیا نے اب تک کسی جماعت کی تائید نہیں کی ہے۔ اسمبلی کی 15 نشستیں مخلوعہ ہیں، لہذا عددی طاقت کے لحاظ سے کانگریس کو تین نشستیں حاصل ہو سکتی ہیں، پھر بھی اس کے پاس 20 تا 22 ارکان کی تعداد زائد ہے۔ کانگریس، ٹی آر ایس اور مجلس سے سیاسی مفاہمت پر غور کر رہی ہے۔

تلگودیشم کی حکمت عملی اگر صحیح رہی تو اس کے دو امیدوار کامیاب ہو سکتے ہیں، جب کہ ایک نشست کے لئے سخت مقابلہ متوقع ہے۔ وائی ایس آر کانگریس اور ٹی آر ایس بھی اپنے امیدوار اُتارنے کی تیاری کر رہی ہیں۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ کونسل کے انتخابات میں کانگریس نے اپنا امیدوار میدان میں نہ اُتارکر بالواسطہ ٹی آر ایس کے مسلم امیدوار محمود علی کی تائید کی تھی، لہذ ٹی آر ایس راجیہ سبھا انتخابات میں اس کے ساتھ تعاون کرے۔

علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے فیصلہ کے بعد اپنے سیاسی مستقبل کے لئے فکرمند کانگریس اور تلگودیشم کے تقریباً 30 ارکان اسمبلی وائی ایس آر کانگریس کے ساتھ رابطہ بنائے ہوئے ہیں اور 23 جنوری کے بعد یہ ارکان اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے والے ہیں۔ لہذا ان ارکان کی تائید کو پیش نظر رکھتے ہوئے وائی ایس آر کانگریس بھی اپنا امیدوار انتخابی میدان میں اُتارنا چاہتی ہے۔

کانگریس پارٹی سے مسلم رکن راجیہ سبھا ایم اے خان کی میعاد مکمل ہو رہی ہے۔ کئی قائدین دعویدار ہیں، جن میں مسلم قائدین بھی شامل ہیں، تاہم کانگریس کی جانب سے ایم اے خان کو دوبارہ امیدوار بنانے کا زیادہ امکان ہے۔ دو سال قبل ریاست سے دو مسلم ارکان راجیہ سبھا کی میعاد مکمل ہوئی ہے، جن میں سے ایک کا تعلق کانگریس سے اور دوسرے کا تعلق سی پی آئی سے تھا، تاہم کانگریس نے کسی دوسرے مسلم قائد کو راجیہ سبھا کا امیدوار نہیں بنایا۔

طویل عرصہ سے تلگودیشم نے راجیہ سبھا کے لئے کسی مسلم امیدوار کو نامزد نہیں کیا۔ تلگودیشم کو دو نشستیں حاصل ہو رہی ہیں، لیکن اس کے دعویداروں کی فہرست بہت طویل ہے۔ اگر اس مرتبہ بھی تلگودیشم مسلم امیدوار کو نظرانداز کرتی ہے تو تلگودیشم کے لئے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی تائید حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔ وائی ایس آر کانگریس بھی حکومت کی دعویدار بن کر اُبھر رہی ہے۔ اسمبلی اور کونسل میں اس پارٹی کا کوئی مسلم نمائندہ نہیں ہے، لیکن کیا آئندہ عام انتخابات میں وائی ایس آر کانگریس مسلمانوں کی تائید حاصل کرنے کے لئے کسی مسلم امیدوار کے نام پر غور کرے گی؟ اس کے سامنے یہ بہت اہم سوال ہے، جس کا جواب جاریہ ماہ کے اواخر تک مل سکتا ہے۔

ہر پارٹی کو عام انتخابات کا سامنا کرنا ہے، ہر پارٹی کو اقلیتوں بالخصوص مسلم ووٹ کی طاقت کا اندازہ ہے، تاہم مختلف جماعتوں میں شامل مسلم قائدین اس سے نابلد ہیں۔ ان قائدین کے خیالات الگ الگ ہیں، یہ ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہوسکتے اور اگر ہوئے بھی تو عہدوں کا لالچ دے کر ان کا اتحاد ختم کردیا جاتا ہے۔ لہذا مسلم قائدین کو چاہئے کہ آپس میں مشاورت کے بعد کوئی ایک نام پارٹی قیادت کے سامنے پیش کریں اور اس امیدوار کو کامیاب بنانے کے لئے ڈٹ جائیں۔ ہر سیاسی جماعت مسلم اتحاد کے سامنے جھک سکتی ہے، بشرطیکہ مسلم قائدین اپنے اندر اتحاد و قربانی کا جذبہ پیدا کریں۔