راجستھان۔ بی ایس پی کو08کی امید جب اس نے کانگریس کو مایوس کیاتھا

پچھلے دودہوں سے اس طرح کے حالات کا کانگریس اور بی جے پی دونوں سامنا کررہے ہیں جس میں اکثریت حاصل کرنے سے وہ محروم ہورہے ہیں۔

جئے پور۔چہارشنبہ کے روز بی ایس پی سربراہ کی جانب سے راجستھان میں کانگریس کے ساتھ اتحاد نہ کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی ‘ ان کی پارٹی کو اس بات کی امید پیدا ہوگئی ہے کہ وہ 2008اسمبلی الیکشن کی تاریخ کو دوہرا سکیں گے‘ جب اس نے چھ سیٹوں پر جیت حاصل کی تھی اورپچھلے دودہوں سے اس طرح کے حالات کا کانگریس اور بی جے پی دونوں سامنا کررہے ہیں جس میں اکثریت حاصل کرنے سے وہ محروم ہورہے ہیں۔

سال2008میں بی ایس پی نے 6سیٹوں پر جیت حاصل کرتے ہوئے کانگریس کو پانچ سیٹوں سے 200اسمبلی نشستوں کے ایوان میں اکثریت سے محروم کردیا۔کانگریس نے آزاد امیدوارو ں کی مدد سے اشوک گہلوٹ کی قیادت میں حکومت قائم کی تھی۔

دلچسپ بات یہ رہی ہے کہ حکومت تشکیل پانی کے چھ ماہ کے اندر بی ایس پی کے تمام منتخب اراکین نے کانگریس میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ اس وقت بی ایس پی نے ریاست کے مغربی اضلاع میں جیت حاصل کی تھی ‘ جہاں پر مانا جاتا ہے کہ ایس طبقے کی اکثریت پائی جاتی ہے۔

اس کے 1990میں57اور 1998میں تمام پچاس امیدوار اپنی ضمانت تک نہیں بچا پائے تھے۔ پہلی مرتبہ ریاست میں جیت کامزہ 1998میں پارٹی نے اسوقت چکا تھا جب اس نے دوسیٹوں پر جیت حاصل کی تھی۔

سال2003میں بی ایس پی نے داؤسا اور کاراولی دونوں اضلاع سے بالترتیب ایک ایک سیٹ پر جیت حاصل کی ‘ مگر اہمیت کی بات یہ ہے کہ پارٹی نے بی جے پی اورکانگریس دونوں کے ووٹ شیئر میں مداخلت کی تھی۔

سال2008میں جب مایاوتی اترپردیش کی چیف منسٹر تھی ‘ بی ایس پی کا اثر جھنجھونہ اور سوائی مادھا پور ضلع میں بڑا اور اس نے چھ سیٹوں پر جیت حاصل کی تھی۔

سال2013میں بی ایس پی نے سادلپور ‘ کھتری اوردھول پور سیٹ پر جیت حاصل کی ۔ دھول پو ر کے اس کے ایم ایل اے بی یل کشواہا کو قتل کے کیس میں مجرم قراردیاگیاتھا جس کی وجہہ سے انہیں2016میں اسمبلی کی رکنیت سے بیدخل کردیاگیا۔

ان کی اہلیہ شوبھا رانی کشواہا نے ضمنی الیکشن میں بی جے پی امیدوار کی حیثیت سے مقابلہ کرکے جیت حاصل کی تھی۔ سال2013کے الیکشن میں یہ بھی بات سامنے ائی کہ1993کے بعد پہلی مرتبہ ریاست میں بی ایس پی کے ووٹ شیئر میں کمی ائی

۔تعجب کی بات یہ ہے کہ بی ایس پی دوبارہ کوئی بھی سیٹ پر جیت حاصل نہیں کرسکے اور پارٹی نے جب بھی مقابلہ کیاتو دوسری سیٹو ں پر جیت حاصل کی ۔ عام طور پر بی ایس پی کے جیت حاصل کرنے والے امیدوار او رباثر امیدوار ہوتے ہیں جن کا حلقہ میں ایس سی ووٹ بینک موجود رہتا ہے۔

عموما بی ایس پی ایس سی اکثریت والی سیٹوں پر غیرکانگریسی او رغیر بی جے پی کے طور پر عوام کے سامنے جانے کو ترجیح دیتی ہے۔مغربی اضلاع کے علاوہ بی ایس پی گاندھی نگر اور ہنومان گڑھ ضلع میں بھی اثر ہے جس کو ایس سی اکثریت والے حلقے مانا جاتا ہے۔

بی ایس پی کااچانک تنہا مقابلہ کرنے کااعلان کانگریس کے نقصان پہنچاسکتا ہے مگر حالات ابھی دیکھنا باقی ہے۔ بی ایس پی سربراہ سیتارام میگھوال نے کہاکہ ’’ اس مرتبہ پارٹی تمام دوسو سیٹوں پر مقابلہ کرے گی‘‘