ذبیحہ گاؤ پر پابندی عائد کرنے والوں کے منہ پر طمانچہ

ایم اے حسیب
مہاراشٹرا میں بڑے جانور کے ذبیحہ اور اس کے گوشت کی خرید و فروخت پر امتناع کے باعث گوشت استعمال کرنے والوں میں بے چینی پائی جاتی ہے ۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ملک میں بلالحاظ مذہب و ملت بڑے جانوروں کا گوشت عوام کی ایک کثیر تعداد استعمال کرتی ہے جن میں مسلمانوں کے علاوہ ہندو بھی شامل ہیں ۔ دو سال قبل حیدرآباد کی تاریخی عثمانیہ یونیورسٹی میں دلت طبقہ نے بیف فیسٹول منعقد کرتے ہوئے آریائی ذہنوں پر کاری ضرب لگائی تھی ۔ مہاراشٹرا میں فرنویس حکومت نے ذبیحہ گاؤ اور بیف کی فروخت پر پابندی عائد کرتے ہوئے کوئی بڑا کام نہیں کیا ہے بلکہ ملک کی 29 میں سے 27 ریاستوں میں ذبیحہ گاؤ پر پہلے سے پابندی عائد ہے لیکن عوام کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کیلئے فرنویس حکومت نے زبردست شور مچایا ہے ۔ وہ سمجھتی ہیکہ اس طرح کے اقدامات سے بی جے پی نہ صرف مہاراشٹرا بلکہ سارے ملک میں اپنی مقبولیت برقرار رکھنے میں کامیاب رہے گی ۔

مہاراشٹرا میں ذبیحہ گاؤ پر پابندی عائد کئے جانے کے بعد حکومت مہاراشٹرا اور سنگھ پریوار جس انداز میں اس کے چرچے کررہے ہیں اس کی ایک اور وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بی جے پی کے پاس اب ایسا کوئی مسئلہ نہیں رہا جس کا وہ استحصال کرسکے ۔ بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی کا مسئلہ ایک طرح سے ٹھنڈا پڑگیا ہے ۔ مقدمہ ہنوز عدالت میں زیر دوراں ہے ۔ ہندو بھی اچھی طرح جان چکے ہیں کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد سے ایک طویل عرصہ گذر چکا ہے اس کے باوجود سیاسی فائدے حاصل کرنے والی بی جے پی مندر تعمیر کرنے میں ناکام رہی ۔ لو جہاد کے خلاف تحریک کے نام پر مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان نفرت کی دیواریں کھڑی کرنے کی کوشش کی گئیں جس کے باعث اترپردیش کے مظفرنگر میں فسادات برپا ہوئے ۔ 70 سے زائد انسانی جانوں کا اتلاف ہوا جن میں تقریباً مسلم مرد و خواتین شامل تھے ۔ ان فسادات کا فائدہ پارلیمانی انتخابات میں راست بی جے پی کو حاصل ہوا جہاں سے اس نے 72 نشستیں حاصل کی ۔ ان ہی نشستوں کے باعث مرکز میں نریندر مودی کی زیر قیادت بی جے پی حکومت تشکیل پائی ۔ سنگھ پریوار نے دہلی انتخابات سے کچھ عرصہ پہلے ہندو ووٹوں کو اپنی جانب راغب کرنے کیلئے کچھ سادھوؤں اور سادھویوں کو میدان میں اتارا جنھوں نے رام زادے اور حرام زادے کا نعرہ لگا کر عوام کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کی ۔ ان کوششوں میں بی جے پی کے ان قائدین کو اُسی طرح ناکامی ہوئی جس طرح کسی فلم میں شہزادوں کے ہاتھوں حرام زادوں (بدمعاشوں) کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ دہلی کے ہندوؤں اور مسلمانوں نے اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی کو بھاری اکثریت سے کامیابی دلائی جبکہ مرکز اور کئی ریاستوں میں برسراقتدار بی جے پی دھول چاٹنے پر مجبور ہوگئی اسے 70 میں سے صرف 3 نشستوں پر کامیابی ملی اور شاید تاریخ کی اس بدترین شکست کے بعد سے سنگھ پریوار کی نیندیں اڑ گئی ہیں ۔

دہلی میں رام زادہ حرام زادہ نعرہ کی شکست کے بعد سنگھ پریوار نے گھر واپسی کے نام پر ان غریب مسلمانوں اور عیسائیوں کو دوبارہ ہندو بنانے کی مہم شروع کی جنھوں نے ہندو مذہب میں ذات پات ، چھوت چھات ، اونچ نیچ ، ادنیٰ اعلی ، برہمن اور دلت میں فرق و امتیاز سے تنگ آکر ہندومت ترک کردیا تھا ۔ لیکن امریکی صدر بارک اوباما کے دورہ اور پھر ہندوستان سے واپسی کے وقت انھوں نے جو بیانات دیئے اور امریکہ پہنچ کر ان بیانات کا اعادہ کیا اس کے نتیجہ میں گھر واپسی مہم بھی سرد پڑگئی ۔ ہندوتوا کی حامی تنظیموں کو امید تھی کہ گھر واپسی مہم کے ذریعہ وہ ہندوستان کی ہر ریاست میں اقتدار حاصل کرلیں گے ۔ انھیں ہندوؤں کی ہمدردیاں مل جائیں گی ۔ ملک کو ایک ہندو راشٹرا (ہندو ملک) میں تبدیل کرنے کی راہ ہموار ہوگی لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ اس کے برعکس نریندر مودی حکومت کی نہ صرف ہندوستان بلکہ ساری دنیا میں بدنامی ہوئی ۔ مودی کو بھی اس بات کا احساس ہوا کہ سنگھ پریوار اپنی حرکتوں سے ساری دنیا میں ان کی حکومت کی بدنامی کا باعث بن رہا ہے ۔ انھوں نے بیرونی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کیلئے جو میک ان انڈیا مہم شروع کی ہے وہ شدید متاثر ہورہی ہے ۔ بیرونی سرمایہ کاروں میں ہندوستان میں بڑھتی انتہا پسندی اس پر حکومت کی خاموشی سے خوف پیدا ہورہا ہے ۔ بہرحال گھر واپسی مہم بھی تیزی کے ساتھ ٹھکانہ لگ رہی ہے ۔

ایک منصوبہ بند سازِش کے تحت حکومت نے تعلیم کو زعفرانی رنگ دینے اور تاریخ کو مسخ کرنے کی کوششوں کا آغاز کردیا ہے لیکن ایک بار ضرور ہے کہ لاکھ کوششوں کے باوجود وہ حقیقت کو نہیں بدل سکتے ۔ دنیا جانتی ہے کہ ہندوستان کو حقیقت میں متحدہ ہندوستان (اکھنڈ بھارت) اگر کسی نے بنایا تو وہ مغل بادشاہ اورنگ زیبؒ تھے ۔ اسی طرح بابر سے لیکر بہادر شاہ ظفر تک تمام مغل بادشاہوں نے ہندوستان میں سیکولرازم کو مستحکم کیا ۔ مغل شہنشاہ اکبراعظم نے مہارانی جودھا بائی کو اپنی بیگم بنایا ۔ اسی طرح کئی مغل شہزادوں نے ہندو حسیناؤں سے شادیاں رچا کر ان کے اور اپنے گھر آباد کئے ۔ ہندوستان کو سیکولرازم کا تحفہ دینے والے کوئی اور نہیں بلکہ مغل ہی تھے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ بابر ، ہمایون اور اکبر نے ہندو برادران وطن کے مذہبی جذبات کا احترام کرنے کی خاطر ذبیحہ گاؤ پر پابندی عائد کردی تھی یہاں تک کہ اورنگ زیبؒ نے بھی ملک کے کئی چنندہ مقامات پر ذبیحہ گاؤ پر امتناع عائد کرکے ہندو رعایا کو احساس دلایا تھا کہ حکومت ہندوؤں کے مذہبی جذبات کا احترام کرتی ہے ۔ آج اگر بی جے پی شیوسینا حکومت سمجھتی ہے کہ انھوں نے ذبیحہ گاؤ کے علاوہ بیلوں وغیرہ کے کاٹنے ، ان کے گوشت کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کی ہے تو یہ ان کی خام خیالی اور ’’شیخی بگھارنے‘‘ کے سوا کچھ نہیں بلکہ ہندوستان میں ذبیحہ گاؤ پر پابندی عائد کرنے کا کریڈٹ بھی مسلم بادشاہوں کو جاتا ہے ۔ آپ کو بتادیں کہ ممبئی کے بشمول ہندوستان کے بے شمار ایسے شہر ہیں جہاں یومیہ 90000 کیلو بیف فروخت ہوتا ہے اور بیف استعمال کرنے والوں میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندو بھی شامل ہیں ۔ اکثر یہ بھی باتیں سامنے آئی ہیں کہ کچھ برہمن بھی چوری چھپے بیف کے مزے اڑاتے ہیں ۔ کیونکہ انھیں پتہ ہے کہ بیف (گائے کا گوشت) پروٹین سے بھرپور ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کی بڑھتی آبادی کو دیکھ کر ان میں یہ غلط فہمی بھی پیدا ہوگئی کہ چونکہ مسلمان بڑے جانور کا گوشت کھاتے ہیں اس لئے وہ بچے زائد پیدا کرتے ہیں ۔ دراصل ہندو یہ سمجھنے لگے ہیں کہ گائے کے گوشت سے قوت باہ میں اضافہ ہوتا ہے ۔ اسی وجہ سے اب ہندو بھی بیف استعمال کرنے لگے ہیں ۔ خاص طور پر غریب ہندوؤں کے لئے بیف ایک نعمت غیر مترقبہ ہے ۔ سستا ہونے کے نتیجہ میں وہ ان کی پہلی پسند بن گیا ہے ۔ میڈیا میں اکثر ایسی اطلاعات آتی رہتی ہیں کہ ملک کے مختلف علاقوں میں پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے قائدین طلبا و طالبات اور وکلاء یونیورسٹیوں ، دفاتر اور چنندہ مراکز میں بیف فیسٹول کا اہتمام کررہے ہیں تاکہ ذبیحہ گاؤ پر پابندی عائد کرنے والوں کو یہ بتایا جائے کہ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس بات کا فیصلہ کریں کہ دوسرے کیا کھائیں اور کیا نہ کھائیں ۔ حکومتوں کو اگر کسی چیز پر پابندی عائد کرنے کا شوق ہی ہے تو ان سیاسی قائدین ، سیاسی جماعتوں اور حکومتوں پر پابندی عائد کی جائے انھیں زوال دلدل میں ڈھکیلا جائے جو اسکامس ، اسکینڈلس ، بدعنوانی اور اقربا پروری، رشوت خوری ، بیرون ملک بینکوں میں رقومات کی منتقلی ذخیرہ اندوزی ، مہنگائی اور مذہب کے نام پر عام ہندوستانیوں کو تقسیم کرتے ہوئے انسانوں (شہریوں) کا خون چوس رہے ہیں ۔

ہمارا وطن عزیز کثرت میں وحدت کا حامل ملک ہے اس کی تہذیب ساری دنیا میں مثالی ہے ۔ اسے جمہوریت کا قلعہ کہا جاتا ہے اس کی خوبی یہ ہے کہ فرقہ پرست درندوں کے خلاف آواز اٹھانے والوں میں ہندوؤں کی اکثریت ہے ۔ یہ وہ ہندو ہیں جو فرقہ پرستوں اور ان کی فرقہ پرستی کو ہندوستان کیلئے بہت بڑا خطرہ تصور کرتے ہیں ۔ چنانچہ ذبیحہ گاؤ پر پابندی سے متعلق حکومت مہاراشٹرا کے بل کو برسوں بعد صدر جمہوریہ پرنب مکرجی کی منظوری حاصل ہوئی اور مہاراشٹرا میں قریشی برادری کا جینا حرام کردیا گیا اس برادری سے ان کا روزگار چھین لیا گیا تب سارے ملک میں محب وطن ہندوستانیوں نے بیف فیسٹول شروع کردیئے ۔ سب سے اہم واقعہ مدراس ہائیکورٹ کے کیمپس میں پیش آیا جس نے امن کے دشمنوں میں خوف و دہشت کی لہر دوڑادی ۔ جرأتمند وکلاء کے ایک گروپ نے بیف کھاؤ احتجاج منظم کیا ۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ احتجاج مہاراشٹرا میں ذبیحہ گاؤ پر عائد پابندی کے پیش نظر حفظ ماتقدم کے طور پر کیا جارہا ہے تاکہ حکومت ٹاملناڈو ہندوتوا طاقتوں کے دباؤ میں آکر ریاست میں بھی ایسی فاش غلطی کا ارتکاب نہ کربیٹھے ۔

اگرچہ ٹاملناڈو میں ذبیحہ گاؤ پر پابندی کا کوئی قانون نہیں ہے لیکن احتجاج کرنے والے وکلاء کے خیال میں اس ریاست میں بھی امن کو نقصان پہنچانے کی خاطر ہندو منانی اور دیگر ہندو تنظیموں کے قائدین حکومت سے بیف پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرسکتے ہیں ۔ اس لئے یہ احتجاج کیا گیا ہے ۔ ٹاملناڈو کے ان وکلاء نے حکومت مہاراشٹرا کے اقدام کی شدید مذمت کی ہے ۔ دوسری طرف ہندو منانی لیڈر راما گوپالن نے حکومت مہاراشٹرا کی تقلید کرتے ہوئے ٹاملناڈو میں ذبیحہ گاؤ اور گوشت کی فروخت و منتقلی پر امتناع کا مطالبہ کیا ہے ۔ وکلاء کا کہنا ہیکہ انھیں خدشہ ہے کہ جیہ للیتا حکومت ہندو منانی لیڈروں کے مطالبہ کو تسلیم کرتے ہوئے ذبیحہ گاؤ پر پابندی عائد کرسکتی ہے ۔ کوئمبتور میں بھی ’’بیف بریانی‘‘ احتجاج کرتے ہوئے حکومت مہاراشٹرا کی مذمت کی گئی ۔ آدھی ٹامیلہ ودھوتھالی اپاکم کوئمبتور کے ارکان نے مہاراشٹرا حکومت کی جانب سے بڑے جانور کا گوشت کھانے پر پابندی عائد کئے جانے پر شدید برہمی کا اظہار کیا ۔ اس تنظیم کے کارکنوں نے بی جے پی کے خلاف نعرے بلند کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی اور سنگھ پریوار کی ذیلی تنظیمیں عوام کو مختلف بہانوں سے تقسیم کرنے کی کوشش کررہی ہیں وہ اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کیلئے اب ذبیحہ گاؤ پر پابندی کاسہارا لے رہی ہیں ۔ اے ٹی وی آئی کے قائدین کا کہنا ہے کہ گائے کا گوشت صحت کیلئے بہت اچھا ہوتا ہے ملک میں بکرے کا گوشت ، مچھلی ، انڈا کھانے کی اجازت ہے ایسے میں حکومت مذہب کے نام پر صرف گائے کے گوشت کے استعمال پر پابندی عائد کررہی ہے جس کا مقصد عوام کو تقسیم کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا ۔