محمد ریاض احمد
ملک میں نریندر مودی کے اقتدار سنبھالتے ہی بے چینی کی کیفیت پیدا ہوئی ہے ۔ اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ گیا ہے ۔ ترقی کے ایجنڈہ پر اقتدار حاصل کرنے کا دعوی کرنے والے مودی کی حکومت میں ہمارا وطن عزیز ایسا لگتا ہیکہ فرقہ پرستوں کی ایک ’’مچھلی مارکٹ‘‘ میں تبدیل ہوگیا ہے ۔ جہاں ہر روز امن کے دشمنوں کی چیخ و پکار سنائی دیتی ہے ۔ کوئی ملک کو ہندو راشٹر (ہندو ملک) میں تبدیل کرنے کا نعرہ بلند کرتا ہے تو کسی کی زبان پر مسلمانوں کو پاکستان بھیجنے کی باتیں ہوتی ہیں ۔ اقتدار کے نشے میں چور اور اپنی اصلیت فراموش کرچکے کچھ عناصر اپنے آقاؤں کے اشاروں پر ہندو خواتین کو چار سے زائد بچے پیدا کرنے کا مشورہ دے ڈالتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہندو جوڑوں کو زیادہ بچے پیدا کرنے کا زرین مشورہ دینے والے خود بچے پیدا کرنے کے قابل نہیں۔ آج کل سادھویوں کے بھی کافی چرچے ہیں جو زہر افشانی میں اپنے مرد ہم منصبوں سے کسی طرح پیچھے نہیں ۔ حال ہی میں سادھوی پراچی نے جو شکل و صورت لب و لہجہ کسی بھی طرح سے عورت نہیں لگتی ، ہندوؤں کو مشورہ دیا کہ وہ بالی ووڈ پر راج کررہے ہیں تین خانس ، عامر خان ، سلمان خان اور شاہ رخ خان کی فلمیں نہ دیکھیں ۔ اپنے گھروں کی دیواروں پر ان فلمی ستاروں کے جو پوسٹرس اور تصاویر چسپاں کررکھے ہیں اسے نکال کر ہولی کی آگ میں نذر آتش کردیں ۔ سادھو پراچی ہندو خواتین پر چالیس پِلوں کی بجائے چار بجے پیدا کرنے کیلئے بھی زور دیتی ہیں ان کے بیان سے ہم ہندوستانیوں کو پہلی مرتبہ پتہ چلا کہ خواتین پِلوں کو بھی جنم دیتی ہیں لیکن وہ عام خواتین نہیں ہوتی۔ اس بارے میں شاید صرف سادھوی پراچی کو پتہ ہیکہ پلِوں کو کس طرح جنم دیا جاتا ہے ۔ ہاں ہم ہندوستانیوں کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ پِلے بات بات پر بھونکتے ہیں ۔ اگر کوئی انسان ان کے قریب سے گذر بھی جائے تو وہ اس پر بھونکتے ہوئے اسے کاٹنے کیلئے دوڑ پڑتے ہیں ۔
ماحول میں اپنی بیہودہ آواز بلکہ نعروں کے ذریعہ خوف و دہشت اور ناگواری پیدا کرتے ہیں سادھوی پراچی کی طرح۔ مرکزی وزیر سادھوی نرنجن جیوتی نے کبھی دہلی انتخابات سے قبل نریندر مودی اور آر ایس ایس قیادت کی نظروں میں خود کے قد کو بلند کرنے کیلئے رام زادے اور حرام زادے کا نعرہ لگاتے ہوئے بیہودگی کی حد کردی تھی ۔ لیکن دہلی اسمبلی انتخابات نے واضح کردیا کہ ملک میں اس طرح کی فحش گوئی زہر افشانی اور مذہب کی آڑ میں عوام کا استحصال نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہندوستانی نفرت نہیں محبت چاہتے ہیں ، تقسیم نہیں انھیں اتحاد چاہئے ، بھوک و افلاس ، غربت و بیروزگاری کے بدلے وہ ترقی و خوشحالی کی منزل پانے کے خواہاں ہیں انھیں مذہب کی آڑ میں کھیلے جانے والے شیطانی کھیل نہیں بلکہ انسانیت کی راہ پسند ہے ۔ جس پر چل کر ہی ہمارا عظیم ہندوستان دنیا کی اہم طاقتوں میں شامل ہوسکتا ہے ۔ جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں لکھا ہے کہ نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت کے تشکیل پاتے ہی ہندوستان میں فرقہ پرستوں کی گونج سنائی دینے لگی ہے وہ زندگی کے ہر شعبہ کو زعفرانی رنگ میں رنگنے پر تلے ہوئے ہیں اور یہ سب کچھ صرف اور صرف سیاسی فوائد حاصل کرنے کیلئے کیا جارہا ہے ۔ فرقہ پرستی اور ہندوتوا کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ریاست مہاراشٹرا سب سے بدترین ریاست بن گئی ہے ۔ اس ریاست میں جہاں بی جے پی ۔ شیوسینا اتحاد کی حکومت ہے مرہٹوں کو تو تحفظات دئے گئے لیکن عدالتی احکامات کے باوجود فرنویس حکومت نے تعلیمی شعبہ میں مسلمانوں کو تحفظات دیئے جانے سے متعلق آرڈیننس منسوخ کردیا ۔ اس نے اقتدار میں آتے ہی ملازمتوں میں مسلمانوں کو تحفظات دینے کی مخالفت کرتے ہوئے سابق کانگریس ۔ این سی پی حکومت کے فیصلہ کوتبدیل کرکے رکھ دیا تھا ۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق اپنی مسلم دشمنی بلکہ ملک دشمنی کیلئے چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کی بجائے تحفظات مانگنے والے مسلمانوں کو پاکستان جانے کا مشورہ دیا جارہا ہے جبکہ یہ اظہر من الشمس ہے کہ مسلمان اس ملک میں جتیا ہے اس ملک میں داعی اجل کو لبیک کہتا ہے ۔ اسی ملک میں سپرد خاک کیا جاتا ہے جبکہ مسلمانوں کو پاکستان جانے کا مشورہ دینے والوں کی راکھ بہہ کرکہاں جاتی ہے وہ اچھی طرح جانتے اور شاید مانتے بھی ہیں ۔ بہرحال ملک میں مودی حکومت میں فرقہ پرستی کو تیزی سے بڑھاوا مل رہا ہے ۔ ایسا لگ رہا ہے کہ پارلیمنٹ میں وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کے بیانات کا پارلیمنٹ کے باہر ہندوتوا کی طاقتیں مذاق اڑارہی ہیں یا پھر ہمارے ملک میں ’’تو روئے ویسا کر میں مارے ویسا کرتوں‘‘ کا کھیل کھیلا جارہا ہے لیکن اس دکنی محاورہ پر عمل کرنے واولں کو یہ محاورہ ’’خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے‘‘ کو بھی ذہن نشین رکھنا چاہئے کیونکہ ہندوستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی اقلیتوں پر ظلم کیا وہ عبرت ناک انجام سے دوچار ہوا ہے ۔ ملک میں فرقہ پرستوں کی سرگرمیوں ، ان کے بیانات اور اقدامات سے تو ایسا محسوس ہورہا ہے کہ سرکاری سطح پر ان کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے کیونکہ وزیراعظم اور وزیر داخلہ کے انتباہ کے باوجود فرقہ پرستی کا زہر گھولنے کا سلسلہ جاری رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے ۔
اب چلتے ہیں مہاراشٹرا میں ذبیحہ گاؤ پر پابندی کی طرف ، اصل بات یہ ہے کہ عہدہ وزارت عظمی پر فائز ہونے کی امنگیں جب مودی جی کے دل میں انگڑائیاں لینے لگی تھیں انھوں نے جو بیانات دئے تھے ان میں ایک بیان یہ بھی تھا کہ کانگریس کی زیر قیادت یو پی اے حکومت ملک میں گلابی انقلاب برپا کررہی ہے ۔ ان کا اشارہ بیف اکسپورٹ کی طرف تھا لیکن یہ انقلاب تو نریندر مودی کی حکومت میں برپا ہوا ہے ۔ بیف اکسپورٹ میں ان کے اقتدار میں 16 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ اس سے پہلے کہ بی جے پی اس مسئلہ کو اپنا کر سیاسی فوائد حاصل کرے ، مہاراشٹرا میں بی جے پی کے ساتھ اقتدار میں شریک شیوسینا نے فرنویس حکومت پر ریاست میں ذبیحہ گاؤ اور گائے کے گوشت کی فروخت پر مکمل پابندی عائد کرنے کیلئے دباؤ ڈالنا شروع کیا ۔ نتیجہ میں فرنویس حکومت کی کوششوں کے باعث صدر جمہوریہ پرنب مکرجی نے تقریباً 20 برسوں سے التوا میں پڑے مہاراشٹرا تحفظ مویشیان ترمیمی بل کو منظوری دے کر تاریخ میں اپنا نام درج کروالیا ۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ ہندوستان کی 29 ریاستوں میں سے 27 میں ذبیحہ گاؤ اور گائے کے گوشت کی فروخت پر برسوں سے امتناع عائد ہے ۔ ان بیوقوفوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ ہمارے ملک میں گائے ذبح نہیں کی جاتی بلکہ بھینس ذبح کی جاتی ہیں اور بھینسوں کا ہی گوشت نہ صرف ملک میں استعمال ہوتا ہے
بلکہ ہندوستان دنیا کے کم از کم 65 ملکوں کو برآمد بھی کرتا ہے جس سے سالانہ حکومت ہند کو 4.3 تا 5 ارب ڈالرس کی آمدنی ہوتی ہے ۔ ہندوتوا اور گائے ہماری ماتا ہے کے نعرے لگانے والے شاید یہ بھی نہیں جانتے کہ دنیا میں گائے کا گوشت (برآمد) کرنے والے سرفہرست ممالک میں ہندوستان دوسرا بڑا ملک ہے ۔ اس کے علاوہ عقل کے یہ اندھے اس بات سے بھی لاعلم ہیں کہ گائے کے گوشت کے نام پر جو گوشت ملک میں استعمال کیا جاتا ہے یا بیرون ملک برآمد کیا جاتا ہے وہ گائے کا نہیں بلکہ بھینسوں کا ہوتا ہے اور جہاں تک بھینسوں کی آبادی کا سوال ہے دنیا میں بھینسوں کی تعداد 230 ملین سے زیادہ ہے اور ہندوستان میں تقریباً نصف تعداد رہتی ہے جن کی تعداد 115 ملین بتائی جاتی ہے ۔ امریکی محکمہ زراعت کے اعداد و شمار کاجائزہ لینے پر پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان نے سال 2012 میں 1.65 ملین ٹن بیف اکسپورٹ کیا تھا اور مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد 2013 اور 2014 کی بہ نسبت بیف اکسپورٹ میں 16 فیصد کا اضافہ ہوا ۔ امریکہ نے 2014 میں 7.13 ارب ڈالرس مالیتی گائے کا گوشت برآمد کیا ۔ اس طرح اس کے بیف اکسپورٹ میں ایک سال کے دوران ایک ارب ڈالرس کا اضافہ ہوا ہے ۔ ہندوستان کا شمار دنیا کے 11 اہم ترین بیف برآمد کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے دیگر ملکوں میں آسٹریلیا ، برازیل ، امریکہ نیوزی لینڈ ، کینیڈا ، پیراگوے ، یوراگوے ، ارجنٹائن اور میکسیکو شامل ہیں ۔ ان ممالک نے مجموعی طور پر 7.7 ملین ہٹرک ٹن بیف برآمد کیا ۔ ہندوستان ہر سال 1.53ملین ٹن بیف دیگر ممالک کو بھیجتا ہے ۔ 2014 میں ہمارے ملک نے 4.3 ارب ڈالرس کا گوشت برآمد کیا ۔ اگریکلچرل اینڈ پروسیسڈ فوڈ پراڈکٹس اکسپورٹس ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے سربراہ مسٹر سارنگی کے مطابق ہندوستان نے گذشتہ سال 153 ملین ٹن بیف برآمد کیا ۔ آپ کو بتادیں کہ ہندوستان میں 3600 سرکاری مسالخ ہیں ۔ گائے کے تحفظ کی باتیں کرنے والے فرقہ پرستوں کو یہ بھی پتہ نہیں کہ ہندوستان میں 76 ملین سے زائد گائے پائی جاتی ہیں ۔
ایک بات ضرور ہیکہ ہندوستان میں بیف صرف مسلمان ہی نہیں کھاتے بلکہ ہندو اور عیسائی بھی استعمال کرتے ہیں ۔ جہاں تک ہندو مذہب اور بیف کا سوال ہے اس بارے میں THE MYTH OF THE HOLY COW نامی کتاب میں ممتاز مورخ وجیندر نارائن جھا لکھتے ہیں ’’قدیم زمانے میں ہندو گائے کا گوشت کھایا کرتے تھے لیکن 500 عیسوی میں اسے مقدس مانا جانے لگا ۔ اس دور میں برصغیر میں شعبہ زراعت کو زبردست عروج حاصل ہوا ۔ جھا نے اپنی تحقیق میں یہ بھی بتایا کہ ہندو راجا باقاعدہ جانوروں کی بلی چڑھاتے اور گائے بھینس کا گوشت کھاتے تھے ۔
ویدک دور (1000-500 قبل مسیح) میں گائے کا گوشت کھایا جاتا تھا ۔ اس دور میں ویداس لکھی گئی ۔ دنیا کے کئی مذاہب میں جانوروں کو قربان کیا جاتا ہے ۔ ہندوؤں کی کتابوں میں بھی جانوروں کی بلی چڑھانے کے ثبوت موجود ہیں ۔ مانو سمرتی ، ویداس ، اپنیشدس ، براہمن گرہسوتراس ، دھرما سوتراس اور دیگر میں اس کے حوالے دئے گئے ہیں ۔ مانوسمرتی چیاپٹر 5/35 میں کہا گیا ہے ’’جب کوئی آدمی جو مذہبی کاموں میں مصروف ہو اور گوشت نہ کھاتا ہو تو ایسے میں وہ اپنی موت کے بعد 21 ویں جنم میں وہ بلی کا جانور ہوگا‘‘ ۔ شتھ پتھ برہمن میں مہارشی پگناوالکا کہتے ہیں میں گائے کا گوشت کھاتا ہوں کیونکہ وہ بہت نرم اور لذیذ ہوتا ہے 3/1/2/21 ۔ بہرحال نریندر مودی حکومت آر ایس ایس اور اس کی قبیل کی جماعتوں یا ان کی حکومتوں کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اس بات کا فیصلہ کریں کہ لوگ کیا کھائیں کیا نہ کھائیں ۔ آج جو ہندوتوا تنظیمیں غیر ضروری طور پر مختلف بہانوں سے ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی تباہ کرنے پر تلی ہوئلی ہیں انھیں یہ دیکھنا چاہئے کہ ہندوستان میں لڑکیوں کو موت کی نیند سلایا جارہا ہے ۔ صرف 20 برسوں میں 20 لاکھ بچیوں کو ان کے شکم مادر اور پیدائش کے بعد صرف اس لئے قتل کردیا گیا کیونکہ وہ بیٹیاں پیدا ہوئی تھیں ۔ آج حکومت کو یہ دیکھنے کی ضرورت نہیں کہ کون بیف کھارہا ہے اور کون گھاس کھارہا ہے اسے لڑکیوں کے قتل کے رجحان کو روکنا ہوگا جو انسانیت پر داغ کے مانند ہے ۔
حکومت فرقہ پرستوں کی ہاں میں ہاں ملانے کی بجائے ملک کی ان لاکھوں کروڑوں ماؤں ، بیٹیوں ، بیویوں ، بہوؤں کی عصمتوں کی حفاظت کے اقدامات کرے جنھیں دہلی کی سڑکوں ، آگرہ کی گلیوں ، راجستھان کے بازاروں اور مدھیہ پردیش و مہاراشٹرا کی سنسان راہوں پر ہوس کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ ملک میں ہر روز بے شمار خواتین کی عصمتیں تار تار کی جاتی ہیں اس پر توجہ دینے کی بجائے فرقہ پرستی کو فروغ دیا جارہا ہے ۔ گھریلو تشدد عام ہوگیا ہے ، عورتوں کو جہیز کے نام پر زندہ جلایا جارہا ہے ۔ مودی حکومت کو ان عورتوں کو نذرآتش ہونے سے بچانے کیلئے اقدامات کرنے چاہئے ۔ نوجوانوں میں بیروزگاری پائی جاتی ہے ۔ فرقہ پرستی یا پھر اقلیتوں کے قتل عام سے بیروزگاری دور نہیں ہوجاتی اس کیلئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے ۔ ہندوستان کی نصف سے زیادہ آبادی بیت الخلاؤں سے محروم ہے ۔ حوائج ضروریہ سے فارغ ہونے کیلئے لوگ میدانوں جنگلات پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں ۔ ساری دنیا میں اس مسئلہ کو لیکر ہندوستانیوںکا مذاق اڑایا جارہا ہے اور افسوس کہ ہم گائے کے گوشت کھانے یا نہ کھانے پر اپنی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں ۔ مودی حکومت کیلئے اب وقت آگیا ہے کہ دانشمندی سے کام لے فرقہ پرستی چلنے والی نہیں اس سے ملک کی تباہی و بربادی کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا اور ملک کو وہی لوگ تباہ کرتے ہیں جو غدار وطن ہوتے ہیں ۔
mriyaz2002@yahoo.com