دیوارِ اردو کی ایک اور اینٹ گری

کے این واصف
اہل اردو نے پچھلے دنوں ایک افسوسناک خبر سنی کہ ہند و پاک کے صاحبِ طرز ادیب اقبال متین (سید مسیح الدین) بھی اس دارفانی سے کوچ کر گئے ۔ ایک شمع فروزاں تھی جو نصف صدی سے زائد عرصہ سے اردو افسانے کی دنیا کو منور رکھے ہوئے تھی ۔ اردو کے معیاری لکھنے والے اور قارئین جس رفتار سے کم ہورہے ہیں، وہ ایک تشویشناک صورتحال ہے لیکن ہم مجبور اور بے بس ہیں۔ اقبال متین اردو افسانے کا ایک اہم نام تھا، جو ختم ہوگیا ۔ گو کہ انہوں نے ایک طویل عمر پائی لیکن پھر بھی ان کا گزر جانا اردو ادب کاایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔

اقبال متین 2 فروری 1929 ء کو حیدرآباد میں پیدا ہوئے ۔ اقبال متین کا شمار حیدرآباد میں اردو کی نامور ہستیوں مخدوم محی الدین ، ڈاکٹر راج بہادر گوڑ ، ڈاکٹر حسینی شاہد، سید محمد جواد رضوی اور سلیمان اریب وغیرہ کے ساتھیوں میں ہوتاہے ۔ انہیں آندھراپردیش ہندی ساہتیہ اکیڈیمی نے انعام سے نوازا ۔ اردو اکیڈیمی آندھراپردیش اور دیگر کئی ادبی اداروں کی جانب سے ان کی مطبوعات کو انعامات سے نوازا گیا ۔ اس کے علاوہ انہیں اردو اکیڈیمی آندھراپردیش نے باوقار مخدوم ایوارڈ بھی عطا کیا تھا ۔ اترپردیش اردو اکیڈیمی نے 2011 ء انہیں ابوالکلام آزاد ایوارڈ سے نوازا تھا۔گو کہ اقبال متین کی ادبی زندگی کا آغاز شعر گوئی سے ہوا تھا لیکن انہوں نے کبھی بحیثیت شاعر ادبی دنیا میں اپنے آپ کو پیش نہیں کیا گیا ۔ مگر ہمارے ایک شاعر دوست محبوب قدسی نے ہمیں اقبال متین کا ایک شعر سنایا تھا لیکن ہم نے اس کی حقیقت یا تصدیق کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ وہ شعر ہم یہاں قارئین کی نذر کرتے ہیں۔

عریان ہوا تو جھوٹ کا چہرہ حسین تھا
سچ آبدیدہ ہو کے نقابوں میں چھپ گیا
بہرحال اقبال متین نے ابتدائی عمر ہی میں افسانہ نگاری کو منتخب کیا اور اس میدان میں ایک منفرد اور امتیازی مقام حاصل کیا ۔ اقبال متین کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’اجلی پرچھائیاں‘‘ کے عنوان سے 1960 ء میں شائع ہوا۔ اقبال متین ایک احساس ادیب تھے ۔ انسانی مجبوریاں ، محرومیاں ، ناانصافیاں، سماجی مساوات ، استحصال جیسی چیزیں ان کیدل کو ہلاتیں اور ذہن کو جھنجھوڑتیں تھیں۔ اپنے اطراف کے ماحول میں وقوع پذیر واقعات ان کے قلم سے کاغذ پر افسانے کی شکل میں ڈھلتے۔ ان کے پہلے مجموعہ ’’اجلی پرچھائیاں‘‘ میں شائع افسانے روایتی انداز کے افسانے ہیں جو عام کے دل کو چھوتے ہیں لیکن اس کے بعد انہوں نے اپنا اسلوب بدلا اور پھر وہ عوام سے خواص کے افسانہ نگارہوگئے۔ خیر اقبال متین جیسے بلند پایہ افسانہ نگار کے فن پر مجھ جیسا طفل مکتب کچھ کہنے کی جسارت نہیں کرسکتا لہذا میں یہاں اقبال متین سے اپنے شخصی روابط اور ملاقاتوں وغیرہ کو قلم بند کر کے انہیں محفوظ کرنا چاہوں گا۔
اپنی بات کو میں یوں شروع کروں گا کہ میں نے اقبال متین کو ’’ناسمجھی کی عمر سے ناسمجھنے‘‘ کی عمر تک دیکھا ہے ۔ (کیونکہ اب میں بھی سٹھیانے کی عمر میں داخل ہوچکا ہوں) ۔ اقبال متین چراغ علی لین میں واقع ہمارے اسکول کے بغل والی بلڈنگ میں رہتے تھے اور اس وقت میںچھٹی جماعت میں پڑھتا تھا ، وہ اس وقت پوری طرح ’’فارغ البال‘‘ نہیں ہوئے تھے لیکن ان کا انداز وہی تھا جو آخری عمر میں وہ نظر آتے تھے۔ یعنی پتلوں شرٹ پہنیں یا کھادی کا کرتہ پاجامہ اس پر صدری ضرور پہنتے اور کاندھے پر ایک جھولہ ضرور لٹکاتے تھے۔ پھر میں نے اقبال متین کو اپنے والد (خواجہ غیاث الدین عزیز) کے قریب ترین دوست اور ہم محلہ سلیمان اریب کے مکان پر دیکھنے لگا ۔ جہاں حیدرآباد کے تمام بڑے اور نامور ادیب ، شاعر اور فنکار جمع ہوتے تھے ۔ یہاں کے اجتماعات کا ماحول اور منظر کچھ عجیب سا ہوا کرتا تھا۔ کبھی فلک شگاف قہقہے بلند ہوتے ، کبھی بہت ہی سنجیدہ گفتگو رہتی ،کبھی بحث و تکرار تو کبھی تو تو میں میں بھی لیکن اس وقت یہ سب کچھ ہماری سمجھ سے بالاتر تھا۔ 1960 ء کی دہائی کے اواخر میں سلیمان اریب کا انتقال ہوگیا تو پھر یہ محفلیں ختم ہوگئیں ۔ اس کے بعد گاہے ماہے ہی ہم ان ادیبوں اور شاعروں کو دیکھا یا ملا کرتے۔ خیر مجھے تو یہاں صرف ان یادوں کو تازہ کرنا ہے جو جناب اقبال متین صاحب سے جڑی ہیں۔

یہ 1970 ء کی ابتدائی دہائی کی بات ہے جب ہم نے کچھ باضابطہ لکھنے لکھانے کی ابتداء کی ۔ اس زمانے میں معروف مزاح نگار و اعلیٰ سرکاری عہدیدار جناب نریندر لوتھر آئی اے ایس بلدیہ حیدرآباد کے اسپیشل آفسر متعین ہوئے تھے اور انہوں نے محکمہ بلدیہ کی اچانک شکل بدل کر رکھ دی تھی۔ محکمہ بلدیہ کی جو شبیہہ تھی کہ ’’بلدیہ کچھ دیا تو کردیا نہیں دیا بل دیا‘‘ کے امیج کو ختم کردیا تھا ۔ محکمہ کے سارے ملازمین کو انہوں نے جیسے ایک پیر پر کھڑا کردیا تھا ۔ ہمارے ذہن میں آیا کہ اس اچانک تبدیل ہوئے منظر کو ایک مزاحیہ مضمون میں ڈھالا جائے ، پھر ہم نے قلم اٹھایا اور ایک مضمون لکھ ڈالا اور پھر مضمون لیکر ہم روزنامہ سیاست پہنچے۔ محترم محبوب حسین جگر صاحب سے رجوع ہوئے۔ انہوں نے مضمون دیکھ کر کہاکہ ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ ہم آپ جیسے مبتدی مضمون نگاروں کی نگارشات کی تصحیح وغیرہ کر کے انہیں اشاعت کے قابل بنائیں۔ جب میں نے اپنے والد کا حوالہ دیا جن سے وہ اچھی طرح واقف تھے توپھر جگر صاحب نے کہا ٹھیک ہے۔ پھر اشارے سے بیٹھنے کو کہا۔ انہوں نے ایک پرچی پر کچھ لکھا اور ہمارا مضمون اور پرچی ہمارے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ آپ یہ قسط اور مضمون میں ضروری تصحیح و ترمیم کریں گے اور پھر لاکر ہمیںدیں۔ ہم خوش ہوئے کہ چلو کس حد تک مضمون قبول کرلیا گیا۔ دوسرے یہ کہ ہم اقبال متین صاحب کو بھی جانتے تھے کیونکہ وہ بھی ہمارے والد کے ملنے والوں میں تھے ۔ ہم عابد روڈ پر واقع اقبال متین صاحب کے آفس پہنچے۔ وہ لفافہ ان کے حوالے کیا ۔ ایک لمبے عرصہ بعد اقبال متین صاحب سے ہماری ملاقات ہوئی تھی ۔ جگر صاحب کا خط پڑھ کر انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ ایک ہفتہ بعد آئیں۔ ہم ٹھیک ایک ہفتہ بعد ان کے دفتر پہنچ گئے ۔ انہوں نے ہمیں دیکھ ہی لیا’’پیارے آپ کا مضمون میں دراز میں رکھ کر بھول گیا‘‘ (پیارے اقبال متین صاحب کا تکیہ کلام تھا) پھر بولے آپ اگلے ہفتہ آجائیں میں ضرور آپ کا کام مکمل کر کے رکھ دوں گا۔ ظاہر ہے اقبال متین صاحب ایک مصروف آدمی تھے اور ہمارا کام ان کیلئے ایک خواہ مخواہ کی زائد ذمہ داری تھا ۔ مگر ہم تھے کہ بے چین و بے قرار۔ ان کے بتائے ہوئے دن پر ہم پھر ان کے آفس پہنچ گئے ۔ ہمیں دیکھتے ہی انہوں نے اپنی دراز پیشانی پر ہاتھ مار کر کہا پیارے میں پھر بھول گیا اور یہ سلسلہ کئی ہفتہ چلا اور آخر کار ایک دن انہوں نے کہا پیارے تم یہیں بیٹھو اور میں تمہارے سامنے ہی مضمون دیکھ لیتا ہوں اور دس منٹ میں انہوں نے مضمون پڑھ لیا ۔ یہاں وہاں چھوٹے موٹے ترمیم اور اضافوں کے بعد ایک پرچی پر جگر صاحب کے نام ایک مختصر خط لکھا اور مضمون کے ساتھ ہمارے حوالے کردیا۔ ہم بے حد خوش ہوئے کہ ہمارے مضمون میں انہوں نے کوئی بڑی کانٹ چھانٹ نہیں کی۔ دوسرے یہ کہ ایک بلند پایہ قلمکار سے ہمیں اپنی پہلی کاوش پر اصلاح حاصل کرنے کا موقع ملا۔ اس مرحلے میں کچھ تاخیر ضرور ہوئی لیکن بہرحال مضمون شائع ہوا اور اس مضمون کو اوروں کے علاوہ خود نریندر لوتھر صاحب نے بھی کافی پسند کیا اور انہوں نے ہمارے نام ایک دو صفحہ کا ستائش خط لکھ کر ہمارے پتہ پر بھیجا۔

ہم نے نو عمری میں اقبال متین کے پہلے مجموعہ ’’اجلی پرچھائیاں‘‘ میں شائع افسانے کئی مرتبہ پڑھے۔ اس میں شائع ایک افسانہ ’’گورے جانی‘‘ ہمیں بہت پسند تھا جو ہمیں آج تک یاد ہے بلکہ جب ہم 1980 ء میں فوٹو گرافی ڈپلوما کورس میں زیر تعلیم تھے تو ہم نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس افسانے پرایک مختصر فلم بنانے کی بھی ٹھان لی تھی۔ اس پراجکٹ پر ہم ساتھیوں نے کافی کام بھی کیا لیکن جیسے ہر پراجکٹ کی تان ٹوٹتی ہے ، مالیہ کی فراہمی پر تو ہمارا پراجکٹ بھی وہیں آکر رک گیا پھر ہم سب ساتھی ڈپلوما پاس کر کے مختلف اداروں سے منسلک ہوگئے اور یہ پراجکٹ غم روزگار کی بھیڑ بھاڑ میں کہیں کھوگیا۔
اقبال متین صاحب سے گاہے ماہے ادبی محافل میں ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ پھرہم 1992 ء میں سعودی عرب منتقل ہوگئے تو یہ سلسلہ ختم ہوگیا اور اب سے کوئی دو سال قبل اردو ہال میں کسی جلسے میں ان سے ملاقات ہوئی تھی جو آخری ملاقات ثابت ہوئی پھر پچھلے دنوں ان کے انتقال کی خبر سنی۔ دیوار اردو کی ایک اور اینٹ گری ۔ رب کریم اقبال متین صاحب کو جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین۔