دہلی اسمبلی انتخابات ۔قومی سیاست پر اثر انداز

نئی دہلی۔/13جنوری، ( سیاست ڈاٹ کام ) قومی دارالحکومت دہلی میں اسمبلی انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن نے بگل بجادیا ہے جہاں پر گذشتہ ایک سال سے منتخبہ حکومت کا فقدان پایا جاتا ہے۔ گذشتہ سال فبروری میں اروند کجریوال شہریان دہلی کو عدم استحکام اور تذبذب کی شکل میں ویلنٹن ڈے کا تحفہ تھا اسوقت سے اسمبلی انتخابات کا انتظار کیا جارہا تھا، اور اب انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی دہلی سیاسی جنگ کا میدان سجادیا گیا ہے جہاں پر مقامی لیڈروں کے علاوہ دوسری ریاستوں کے سیاستدان بھی انتخابی جنگ کیلئے کمر بستہ ہوگئے ہیں۔ اگرچیکہ دہلی کی 70رکنی اسمبلی کے انتخابات میں گذشتہ سال سیاسی جماعتوں کیلئے اہمیت حاصل نہیں تھی لیکن اس مرتبہ 7فبروری کو منعقد ہونے والے انتخابات پر تمام سیاسی جماعتوں نے توجہ مرکوز کردی ہے۔ توقع ہے کہ دہلی کے انتخابی نتائج کا اثر بہار پر ہوگا،

جہاں پر جاریہ سال اسمبلی انتخابات ہوں گے اور بہار اسمبلی کی میعاد ماہ نومبر تک ہے لیکن ابھی سے ہی مشرقی ریاست میں سیاسی ماحول گرمادیا گیا ہے اور جو لوگ وزیر اعظم نریندر مودی کی کامیابی کا تسلسل توڑنا چاہتے ہیں دہلی کے انتخابات میں بی جے پی کو ناکام بنانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگائیں گے۔ اگر دہلی کے عوام بھارتیہ جنتا پارٹی کے حق میں واضح فیصلہ سنائیں گے تو نریندر مودی مخالف جماعتوں کیلئے فکر اور تشویش کی بات ہوگی۔ تاہم دہلی کے رائے دہندگان بی جے پی کے حق میں منقسم فیصلہ دیں گے تو نتیش کمار اور لالو پرساد کے حوصلے مزید بلند ہوجائیں گے۔جنتا دل ( متحدہ ) کے لیڈر نتیش کمار جو کہ ان دنوں سیاسی سنیاس لئے ہوئے ہیں ان دنوں سیکولر جماعتوں کو متحدہ کرنے کی کوشش میں ہیں اور وہ بہار سرگرم انتخابی مہم چلائیں گے اور اقلیتوں کو پھر ایک بار سنہری خواب دکھائیں گے جیسا کہ لوک سبھا کے انتخابات میں کیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں راشٹریہ جنتا دل سربراہ لالو پرساد جو کہ جیل کی ہوا کھانے کے بعد بادشاہ گر کا موقف کھو بیٹے ہیں دہلی میں بی جے پی کی شکست کی صورت میں پھر ایک بار وہ ’ کنگ میکر ‘ کا رول ادا کریں گے اور بہار کے عوام کو یہ بتائیں گے کہ مودی کا جادو بے اثر ہوگیا ہے جبکہ جنتا پریوار کو متحد کرنے کی کوشش ثمر آور ثابت ہوجائے گی۔ دوسری طرف سماج وادی پارٹی لیڈر ملائم سنگھ جو کہ خاندانی حکمرانی تک محدود ہوگئی ہے جنتا پریوار کے انضمام کو انجام تک پہنچانے میں اعانت کریں گے اور وہ نریندر مودی کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے منڈل کی طاقتوں اور سیکولر جماعتوں کو متحد کرنے کیلئے عملی میدان میں اُتر جائیں گے۔

علاوہ ازیں ممتابنرجی جیسی طاقتیں بھی بی جے پی کے خلاف کمر بستہ ہوگئیں کیونکہ ان کی پارٹی کے لیڈروں کو ایک کے بعد ایک شردھا اسکام میں پوچھ تاچھ کے بہانہ پریشان کیا جارہا ہے۔ گوکہ مغربی بنگال میں آئندہ سال 2016 کے اوائل میں اسمبلی انتخابات منعقد ہوں گے تاہم دہلی اسمبلی انتخابات عام آدمی پارٹی اور اروند کجریوال کیلئے موت و زیست کی کشمکش کی طرح ہوں گے اور جیت گئے تو سرخرو ہوں گے ورنہ پارٹی کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ چونکہ نریندر مودی مہاراشٹرا، ہریانہ، جھارکھنڈ اور جموں و کشمیر میں مسلسل کامیابی کی سمت گامزن ہیں اور ان کی پیشقدمی کو روکنے کیلئے تمام سیکولر طاقتوں کو متحد ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ اپوزیشن کا انتشار دہلی میں بی جے پی کی کامیابی کیلئے راہ ہموار کررہا ہے اور اروند کجریوال دہلی کے مقبول عام لیڈر ہیں اور انہیں کامیابی کی بلندیوں پر لے جانے کیلئے ہمہ رُخی مقابلہ سے گریز کیا جانا چاہیئے۔تاہم دہلی میں بی جے پی کیلئے کامیابی آسان نہیں ہے کیونکہ وہ اکثریتی فرقہ کے ووٹوں پر انحصار کئے ہوئے ہیں لیکن پارٹی کیلئے سب سے بڑا سردرد ہے کہ انتخابی مہم کی قیادت کون کریں گے، جس کے پیش نظر دہلی کے انتخابات نریندر مودی کیلئے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوں گے۔