دھوپ وعدوں کی بری لگنے لگی ہے اب ہمیں

رشیدالدین
جب اندرون ملک مسائل ہوں تو ملک کے باہر لاکھ واہ واہی لوٹ لیں کوئی فائدہ نہیں۔ کچھ یہی حال وزیراعظم نریندر مودی کا ہے جو داخلی سطح پر تو عوام کو کسی بھی شعبہ میں راحت دینے میں ناکام رہے لیکن دنیا بھر سے تعلقات استوار کرنے میں کچھ زیادہ ہی مصروف ہیں۔ ظاہر ہے جب تک داخلی سطح پر نریندر مودی عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل کے ذریعہ دل جیتنے میں کامیاب نہیں ہوتے، اس وقت تک عالمی سطح پر ان کے قد میں اضافہ نہیں ہوگا۔ بھلے ہی وہ کم مدت میں ورلڈ ٹور کیوں نہ کرلیں۔ کسی بھی ملک کے حکمراں اور اس کی حکمرانی دوسرے ممالک کے لئے کسوٹی ہوتی ہے، جس کی بنیاد پر کوئی بھی ملک اپنے موقف کو طئے کرتا ہے کہ آیا اس ملک سے تعلقات کی استواری کن بنیادوں پر ہو۔ نریندر مودی نے یہ بات فراموش کردی کہ کن حالات میں ملک نے انہیں وزیراعظم منتخب کیا۔ ان سے اور ان کی حکومت سے عوام کی کیا توقعات ہیں؟ کیا عوام کو درپیش مسائل حل ہوچکے ہیں؟ یو پی اے حکومت کی عدم کارکردگی اور بڑھتی مہنگائی جیسے حالات میں عوام کو اچھے دنوں کا وعدہ کرتے ہوئے بی جے پی برسر اقتدار آئی لیکن تشکیل حکومت کے ساتھ ہی نریندر مودی کو داخلی مسائل سے زیادہ خارجی امور میں دلچسپی بڑھ چکی ہے اور وہ وزیر خارجہ کے رول میں کچھ زیادہ ہی دکھائی دے رہے ہیں

۔ حالانکہ سشما سوراج کے پاس وزارت خارجہ کا قلمدان ہے۔ جس طرح ملک بھر میں گھوم گھوم کر مودی نے عوام کو سبز باغ دکھائے تھے۔ کاش وزیراعظم کی ذمہ داری سنبھالتے ہی وہ عوامی مسائل کے حل کیلئے ریاستوں کے دورہ پر نکل پڑتے۔ برخلاف اس کے انہوں نے بیرونی دوروں کا آغاز کردیا۔ چار ماہ کی حکومت میں مودی نے ریاستوں سے زیادہ بیرونی ممالک کا دورہ کیا اور بیرونی رہنماؤں کی دہلی میں میزبانی میں مصروف رہے۔ مودی کے اسی رویہ نے عوام کو مایوس کردیا جس کا ثبوت گزشتہ تین ضمنی چناؤ میں بی جے پی کی مقبولیت کا گھٹنا گراف ہے۔ بعض پڑوسی ممالک کے بعد نریندر مودی سیدھے جاپان اور امریکہ پہنچ گئے اور چین کے صدر اور بعض دوسرے ممالک کے سربراہان نے ہندوستان کا دورہ کیا۔ ہر بیرونی دورہ کے بعد اسے کامیاب قرار دینا ایک سفارتی رسم ہے۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی وزیراعظم کسی ملک کے اپنے دورہ کو ناکام نہیں کہہ سکتا۔ کچھ یہی حال نریندر مودی کے دورہ امریکہ کا ہوا۔ ہندوستان کو اپنے شہریوں کی بھلائی اور خوشحالی کا راستہ خود تلاش کرنا پڑے گا۔ کسی ملک سے اپنے عوام کی بھلائی کی امید وابستہ کرنا اور اس سے مدد طلب کرنا مملکت کی کمزوری کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ جب تک عوامی مسائل میں کمی نہیں ہوگی اور چہروں پر بحالی اور خوشحالی نہیں آجاتی ، اسے کامیاب حکمرانی نہیں کہا جاسکتا۔

مودی اور ان کے ساتھی اچھے دنوں کے وعدہ کو جیسے بھلاچکے ہیں۔ جس طرح 4 ماہ کی حکومت میں عوام کو خوش کن وعدوں اور دلفریب اعلانات کے سواء کچھ نہ ملا ، ٹھیک اسی طرح بھوٹان ، نیپال ، جاپان اور امریکہ کے دورے سیر و تفریح کے سواء کچھ نہیں تھے۔ بیرونی دوروں میں مودی کچھ خاص سفارتی کامیابیاں حاصل کرنے میں بھلے ہی ناکام ہوں لیکن انہوں نے خود کو ایک اچھا ’’ایونٹ مینجر‘‘ ثابت کیا ہے۔ دیگر ممالک کی طرح امریکہ کے دورہ پر ملک کے ڈھنڈورا چیانلس اور اخبارات مودی کی مداح سرائی میں زمین و آسمان کو ہلانے میں مصروف ہوگئے۔ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مودی نے اس ملک کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کی جس نے انہیں ویزا دینے سے انکار کیا تھا۔ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے خطاب ہو یا پھر براک اوباما سے ملاقات، دونوں مواقع پر نریندر مودی میں خارجی امور اور سفارتی سطح پر تجربہ کی کمی صاف طور پر جھلک رہی تھی۔ امریکہ میں مقیم ہندوستانیوں نے جس انداز سے استقبال کیا ، وہی مودی کے دورہ کا حاصل رہا اور شاید وہ سوچنے لگے ہوں کہ امریکہ میں وہ اوباما کے حریف بن سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ عالمی صورتحال پر ہندوستانی موقف کے اظہار کا پلیٹ فارم تھا لیکن وہاں مودی کشمیر کے مسئلہ پر ہندوستان کے موقف کی بہتر ترجمانی سے قاصر رہے ۔ اوباما سے ملاقات کے دوران وہی روایتی انداز کی گفتگو رہی جو کسی بھی ملک کے دو سربراہوں کی ملاقات کے وقت ہوتی ہے۔ مختلف شعبوں میں باہمی تعاون اور متنازعہ مسائل کے سلسلہ میں مزید مذاکرات سے اتفاق کیا گیا، جو چوٹی ملاقات کی کامیابی کے شمار میں نہیں آتا۔ تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جانے ’’چلیں ساتھ ساتھ‘‘ کا نعرہ دیا گیا۔ امریکہ کی نازبرداری اور خارجہ پالیسی پر امریکہ کا دباؤ ہندوستان کے لئے کوئی نئی بات نہیں۔ یو پی اے کے 10 سالہ دور حکومت میں ڈاکٹر منموہن سنگھ نے یہی کچھ کیا تھا جسے نریندر مودی آگے بڑھا رہے ہیں۔ ویزا کی پابندی کے دوران وزیراعظم کے اس دورہ کی کامیابی کے بارے میں بھلے ہی لاکھ دعوے کئے جائیں لیکن امریکہ نے ویزا کے مسئلہ پر اپنا موقف برقرار رکھتے ہوئے وضاحت کردی کہ ہندوستان کے وزیراعظم کی حیثیت سے نریندر مودی کا استقبال کیا گیا۔ پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ میں جب کشمیر کا مسئلہ اٹھایا اور استصواب عامہ کی وکالت کی تو نریندر مودی کو چاہئے تھا کہ ہندوستانی موقف کی بے باک انداز میں ترجمانی کرتے۔ برخلاف اس کے وہ امریکی دباؤ میں آگئے۔ مودی کے اس دورہ کو ہندوستانی میڈیا نے جس انداز میں پیش کیا ، ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے مودی نے میڈیا سے میچ فکسنگ کرلی ہے۔ نیویارک اور واشنگٹن میں سکھوں اور دیگر تنظیموں کی جانب سے مخالف مودی مظاہروں کی کوئی تشہیر نہیں کی گئی۔ برخلاف اس کے ہندوستانی صحافت میں غیر جانبدار رول کیلئے شہرت رکھنے والے معروف صحافی راج دیپ سر دیسائی کے ساتھ مودی کے حامیوں نے بدسلوکی کی ۔ آزادیٔ اظہار خیال والے ملک میں مودی کے حامیوں کا یہ رویہ ہندوستان کو رسوا کر رہا تھا۔ دراصل مودی اور ان کے حامیوں کو مخالفت برداشت نہیں۔ راج دیپ سر دیسائی کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے گجرات کے بدترین فسادات میں مودی اور ان کی حکومت کو بے نقاب کیا تھا۔

دورہ امریکہ کا فائدہ اٹھاکر نریندر مودی نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نتن یاہو سے مودی کی ملاقات ان کی اسرائیل نواز پالیسی کا اظہار ہے۔ مودی نے جس طرح اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر نتن یاہو سے ملاقات کی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے امریکہ کے دورہ کا مقصد ہی اوباما سے زیادہ نتن یاہو سے ملاقات کرنا تھا ۔ اندرون ملک سیکولر عوام کی تنقیدوں سے بچنے کیلئے مودی نے امریکہ میں اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات کو غنیمت سمجھا۔ مودی نے اوباما سے اس قدر مسائل پر بات نہیں کی جتنی کہ نتن یاہو سے ہوئی ۔ اوباما سے ملاقات سے زیادہ مودی نتن یاہو کے ساتھ بحال نظر آرہے تھے۔ ظاہر ہے کہ نظریاتی اعتبار سے دونوں فطری حلیف ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم سے ہندوستانی وزیراعظم کی ملاقات اگرچہ 10 سال بعد ہوئی لیکن نریندر مودی چیف منسٹر گجرات کی حیثیت سے اسرائیل کا دورہ کرچکے ہیں جس کا انکشاف نتن یاہو نے کیا۔ دفاعی تعاون ، دہشت گردی اور داعش جیسے مسائل پر مودی نے نتن یاہو سے تبادلہ خیال کیا لیکن غزہ کی صورتحال پر بات چیت سے گریز کیا گیا۔ ایک طرف این ڈی اے حکومت فلسطین کے مسئلہ پر موقف میں تبدیلی نہ ہونے کا دعویٰ کرتی ہے ، پھر ایسی شخصیت سے ملاقات جس کے ہاتھ سینکڑوں معصوم فلسطینیوں کے خون سے رنگے ہیں، حکومت کی دہرے معیارات کو ظاہر کرتی ہے۔ اسرائیل کی غزہ پر وحشیانہ بمباری اور کمسن بچوں کی ہلاکت کو نریندر مودی نے فراموش کردیا۔ اسرائیلی حملہ کے موقع پر ہندوستان کا موقف غیر واضح تھا۔ نریندر مودی نے اپنے پڑوسی نواز شریف سے ملنا گوارا نہیں کیا جنہیں حلف برداری میں مہمان کے طور پر مدعو کیا تھا۔

حلف برداری میں پڑوسیوں کے بجائے نتن یاہو کو مدعو کیا جاتا تو شاید مودی کی تسکین کا سامان ہوتا۔ جس کے ساتھ آپ کی سرحدیں جڑی ہیں، اس سے اختلافات ختم کرنا گوارا نہیں لیکن اسرائیل سے دلچسپی۔ آخر عرب اور مسلم ممالک کو مودی کیا پیام دینا چاہتے ہیں۔ آپ کے نزدیک ہندوستان کی دوسری بڑی اکثریت کے جذبات کا کوئی احترام نہیں۔ ظاہر ہے کہ جس شخص کو گجرات کے واقعات پر افسوس نہ ہو، اسے غزہ کے مظلوموں سے کیا ہمدردی ہوگی؟ مودی کی نتن یاہو سے ملاقات پر ملک کی سیکولر جماعتوں کی خاموشی معنیٰ خیز ہے۔ کانگریس کی خاموشی پر ہمیں اس لئے بھی حیرت نہیں کہ 1992 ء میں پی وی نرسمہا حکومت نے اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کرتے ہوئے سفارت خانہ کے قیام کی اجازت دی تھی۔ امریکہ سے واپسی کے ساتھ ہی مودی نے عام آدمی پارٹی کی جھاڑو اپنے ہاتھ میں لے لی اور ’’کلین انڈیا‘‘ مہم کا آغاز کیا۔ پانچ سال میں ہندوستان کو پاک و صاف بنانے کے عہد سے قبل مودی کو عوام سے کئے گئے دوسرے وعدوں کو بھی یاد کرنا چاہئے ۔ کلین انڈیا سے پہلے انہیں ملک سے نفرت، عداوت ، عدم مساوات ، غربت ، بیروزگاری اور بیماری سے پاک کرنا ہوگا۔ مودی کو بی جے پی اور سنگھ پریوار کے قائدین کے ذہنوں کی صفائی کرنی چاہئے جو وقتاً فوقتاً ملک میں منافرت کا ماحول پیدا کر رہے ہیں۔ بی جے پی سے ایسے قائدین کی صفائی کی جائے جو ملک کی رواداری اور سیکولرازم کی روایات کیلئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ صاف سڑک پر قائدین کے جھاڑو پھیرنے سے ملک صاف نہیں ہوگا بلکہ اس کیلئے ذہنوں کی صفائی ضروری ہے۔ گاندھی جینتی کے موقع پر اس پروگرام کا آغاز تو کیا گیا لیکن نریندر مودی کو پہلے گاندھی جی کے اصولوں کو اختیار کرنا چاہئے۔ منور رانا نے کیا خوب کہا ہے ؎
دھوپ وعدوں کی بری لگنے لگی ہے اب ہمیں
اب ہمارے مسئلوں کا کوئی حل بھی چاہئے