دکن کے استاد سخن ۔ طالب رزاقی (مرحوم) (39 ویں یوم وفات پر)

شفیع اقبال

گزشتہ نصف صدی سے قبل دکن کے شعری و ادبی منظر نامے کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہوجائے گاکہ شہر حیدرآباد نے شعر و ادب کے حوالے سے ملک بھر میں اپنی الگ پہچان بنارکھی تھی۔ جہاں ترقی پسند ادب اپنی ارتقائی منزلوں کو چھورہا تھا وہیں جدیدیت کے دریچے بھی چرچراتے ہوئے وا ہونے لگے تھے ۔
ترقی پسندی کے عروج اور جدیدیت کے رجحان کے بین بین حیدرآباد میں کچھ ایسے شعراء بھی تھے جو کلاسیکی بنیادوں سے جڑے ہوئے منفرد لب و لہجہ میں شعر کہتے ہوئے قاری و سامعین کو متاثر کرنے میں کامیابی سے ہمکنار ہورہے تھے ۔ ان میں شاہد صدیقی ،سلیمان اریب ، تاج مہجور ، علی احمد جلیلی ، اوج یعقوبی ، خیرات ندیم ، روحی قادری ، نظیر علی عدیل ، معز ملتانی ، طالب رزاقی اور کئی شعراء نے اپنی ساکھ بنائے رکھی تھی ۔ خواجہ شوق نے نعت گوئی میں اپنا ایک الگ مقام بنایا تھا ۔ یہ تمام شعراء استادانہ صلاحیتوں کے حامل تھے ۔ چنانچہ اوج یعقوبی ، معز ملتانی ، طالب رزاقی ، نظیر علی عدیل ، روحی قادری ، علی احمد جلیلی ، خواجہ شوق کے آج بھی سینکڑوں شاگرد ہیں جنھوں نے شہر حیدرآباد اور سارے ملک میں اپنے فن سے اپنی شخصیت کو منوایا ہے ۔

1960 سے 1990 کے دور میں اوج یعقوبی ، نظیر علی عدیل ، معز ملتانی ، طالب رزاقی ، علی احمد جلیلی ، خورشید احمد جامی اور خواجہ شوق سے نومشق شعراء اصلاح کی غرض سے رجوع ہوتے اور بعد اصلاح بڑے اعتماد کے ساتھ مشاعروں میں کلام سناتے ۔ طالب رزاقی عموماً مدینہ ہوٹل اور مینار ہوٹل میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارتے اور رات دیر گئے تک اپنے شاگردوں کے کلام کی اصلاح میں مصروف رہتے ۔ صاحب رزاقی جو ان دنوں نادر اسلوبی کے نام سے جانے جاتے ہیں اور مومن خان شوق ان کے خاص شاگردوں میں شمار کئے جاتے ہیں ۔ان دنوں حیدرآباد میں کئی سرگرم ادبی انجمنوں ، بزم جیون لال ،انجمن خیال ، بزم نارائن داس اور دیگر کئی انجمنوں کے زیر اہتمام عموماً طرحی اور غیر طرحی مشاعروں کا انعقاد عمل میں آتا ۔راجہ لال راجہ ، بجرنگ فقیران محفلوں میں شرکت بھی کرتے تھے اور محفلوں کے انعقاد میں سرگرم حصہ بھی لیا کرتے تھے ۔ راقم الحروف اور کچھ نومشق احباب ان محفلوں میں شریک ہوتے ۔ چونکہ شعر گوئی کا چسکہ لگا ہوا تھا اس لئے طرحی غزل کہہ لیتے اور کسی شاعر کی سفارش پر شعر سنانے کاموقع بھی فراہم ہوجاتا تھا ۔ چنانچہ نمائش کلب میں وی کے ڈھکے کی جانب سے منعقدہ بطرح ’’میں خدا پر شاد ہوں اور تو کشن پرشاد ہے‘‘ کے مشاعرے میں طرحی غزل سنانے کا ہمیں بھی موقع مل گیا ۔ ہمیں مائک پر آتے ہوئے دیکھ کر کسی سامع نے طنز کیا کہ ’’اب لڑکے بھی شعر کہنے لگے ہیں‘‘ ۔ میں نے اپنی غزل میں طرحی مصرعہ پر اس طرح گرہ لگائی تھی ۔
اصل میں دیکھیں تو دونوں ایک ہی پر شاد ہیں
میں خدا پر شاد ہوں اور تو کشن پرشاد ہے
طالب رزاقی معاشی اعتبار سے زیادہ متمول نہیں تھے ۔ وہ تقریباً 5 سال تک جامعہ عثمانیہ میں ملازمت پر مامور رہے ۔ پھر ملازمت کو خیرباد کہہ دیا ۔ وہ نہایت سادہ لوح ، مخلص ، کم گو اور فراخ دل و خوددار انسان تھے ۔ انانیت ، خودپسندی اور خود نمائی کا ان کی شخصیت میں دور دور تک شائبہ نہ تھا ۔ وہ خود کہتے ہیں۔

توہین خرِد ہے رک جانا ، تحقیر خودی ہے جھک جانا
ہر گاہ پہ سجدہ کرلینا ، خوددار جبین کا کام نہیں
سید قطب الدین طالب رزاقی نے 1920 میں سید یوسف الدین حسن صاحب کے علمی گھرانے میں جنم لیا ۔ ابتدائی عمر ہی سے شعر کہنے لگے تھے اور بہت ہی کم عرصے میں انہوں نے اپنے معیاری کلام اور مخصوص اور دلکش ترنم سے حیدرآباد کی شعری محفلوں میں اپنی مخصوص پہچان بنالی اور اپنے استادانہ کلام سے صرف شہر ہی میں نہیں بلکہ ریاست اور بیرون ریاست اپنی صلاحیتوں کو منواتے ہوئے اساتذہ سحن کے زمرے میں شامل ہوگئے ۔
طالب رزاقی کلاسیکی روایات اور منفرد لب و لہجہ کے شاعر تھے ۔ ان کی شاعری داخلی کیفیات ، دلی جذبات اور مشاہدات و تجربات کے پر تو سے معمور تھی ۔ انہوں نے جہاں اپنے محسوسات اور دلی جذبات کو شعر کے سانچے میں ڈھالا وہیں اپنے اشعار کے ذریعہ معاشرہ کی اصلاح اور انسانیت کے پیغام کو بھی عوام تک پہچانے کی کامیاب سعی کی ہے ۔ ان کی خود اعتمادی اور ان کا حوصلہ ہی ان کی شاعری کے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اسی پس منظر میں کچھ شعر ملاحظہ کریں۔

دوسروں کی پیروی ہے میری فطرت کے خلاف
کارواں میں بھی ، امیر کارواں رہتا ہوں میں
سو شام غم کے صدمے ، ہنس ہنس کے سر لئے ہیں
اک دن کی آرزو میں ،اک صبح کی خوشی میں
مرے کلام سے ہیں مستفید اہل سخن
سوائے فضل خدا اور کوئی بات نہیں
شکارِ جبر ، بہ ایں اختیار ارے توبہ
مری حیات بھی طالبؔ مری حیات نہیں
طالب رزاقی دوشیزۂ غزل ہی کے رسیا نہیں تھے بلکہ راسخ العقیدہ مسلمان اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ و سلم بھی تھے ۔ پورے خلوص ، احترام اور عقیدے کے ساتھ نعت رسولؐ کہنے میں بھی پیش پیش رہتے ۔ یہی وجہ تھی کہ شہر حیدرآباد اور اضلاع کے نعتیہ مشاعروں میں انہیں خصوصی طور پر مدعو کیا جاتا تھا ۔ مجلس غوث الاعظمؒ نامپلی کے اکثر ماہانہ نعتیہ مشاعروں کے انعقاد انہی کی نگرانی میں ہوا کرتے تھے ۔ طالب رزاقی مرحوم کا شعری مجموعہ ’’نوائے طالبؔ‘‘ اردو اکیڈیمی آندھرا پردیش کی جانب سے شائع کیا گیا جس کی رسم اجراء 12 جون 1979ء میں اس وقت کے چیف منسٹر ایم چناریڈی کے ہاتھوں عمل میں آئی ۔ رسم اجرا تقریب میں ایم باگاریڈی ، جناب عابد علی خان (ایڈیٹر روزنامہ سیاست) اختر حسن (اردو اکیڈیمی) اور چندر سریواستو نے شرکت کی تھی ۔ غالباً 1974ء میں طالب رزاقی مرض حلق کے کینسر میں مبتلا ہوگئے ۔ ابتداء میں جب وہ نیلوفر ہاسپٹل ، خیریت آباد ، علاج کے سلسلے میں جاتے تو جاتے ہوئے یا واپسی پر میرے ’’ادبی مرکز‘‘ نامپلی مارکٹ پر ضرور رکتے ۔ کچھ دیر بیٹھتے ، ادبی محفلوں اور شعر و سخن پر گفتگو ہوتی ، چائے نوشی ہوتی اور کچھ وقت وہاں گزار کر واپس ہوجاتے ۔ ہمارے ادبی مرکز پر صرف طالب رزاقی ہی نہیں بلکہ شہر کی بہت ساری ممتاز شخصیتیں آیا کرتیں جن میں احمد جلیس، عوض سعید ، شاذ تمکنت ، عزیز بھارتی ، ساز عثمانی (بمبئی) ، ریورنڈ ہنسن ریحانی ، فکری بدایونی ، انور رشید (افسانہ نگار و شاعر) ، رحمن جامی ، پروفیسر خالد قادری ، اوج یعقوبی ، رفیق جعفر عموماً آیا کرتے ۔ صنعتی نمائش کے حیدرآباد میں انعقاد کے دوران مخمور سعیدی جب دہلی سے آتے تو وہ بھی اس ادبی مرکز پر ملاقات کیلئے آتے ۔ کثیر الاشاعت ماہنامہ ’’دوشیزہ‘‘ (کراچی) کے مدیران صہام مرزا و رخسانہ صہام مرزا حیدرآباد تشریف لائے تو انہوں نے بھی اس مرکز پر قلمکاروں سے ملاقات کی ۔ اس وقت راقم الحروف کی غزلیں اور افسانہ دوشیزہ میں شائع ہوچکے تھے ۔
بہرحال جناب طالب رزاقی کی ہمارے ادبی مرکز پر آمدنے بھی ہمارے ذہن پر یادگار نقوش چھوڑے ہیں ۔ 1975ء کے دوران کچھ عرصہ بعد ان کی آمد کا سلسلہ ختم ہوگیا اور اطلاع ملی کہ ان کی صحت مزید بگڑ چکی ہے اور کچھ دنوں بعد یہ افسوسناک اطلاع ملی کہ وہ انتقال کرگئے اور شہر حیدرآباد کے ادبی و شعری افق سے ایک روشن ستارہ ٹوٹ کر معدوم ہوگیا ۔