ایک بے لوث و دردمند خادم، ابن غوری
ڈاکٹر مفتی محمد کامران عزیز
اردو زبان تقریباً ایک درجن زبانوں کے مجموعے کا نام ہے جو زائداز سات صدیوں کے دوران مختلف مراحل اور ادوار سے گزر کر آج موجودہ شکل میں ہم تک پہنچی ہے ۔ ہر دور میں متعدد شخصیات نے انفراد و اجتماعی طورپر اپنی بساط کے مطابق اس زبان کی تشکیل و ترقی اور حفاظت و صیانت میں اپنا بھرپور کردار نبھایا ہے ۔ خاص طور پر انیسویں اور بیسویں صدی میں اردو نے ترقی کی منزلیں کافی تیزی سے طئے کیں۔ جس طرح شمالی ہند کے علماء نے فروغ اردو کیلئے خدمات انجام دی ہیں اسی طرح جنوبی ہند کے علماء و ادبا نے اپنی علمی، ادبی اور اصلاحی کاوشوں کے ذریعہ اس زبان کی اشاعت و ترویج میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔
ریاست حیدرآباد میں 1871 ء میں سب سے پہلے سرکاری محکموں میں اردو کو بہ حیثیت سرکاری زبان نافذ کیا گیا ، لیکن اس سے قبل ہی علمی اور اور عوامی حلقوں میں اردو نے کافی مقبولیت حاصل کرلی تھی۔ دینی ، علمی ، فکری، ادبی اور اصلاحی تصانیف منظر عام پر آچکی تھیں۔ بیسویں صدی کے نصف اول میں سرزمین دکن میں بہت سے مشاہیر علم و فن نے سکونت اختیار کی جس کے نتیجے میں یہ علاقہ علمی و فکری اعتبار سے بڑا زرخیز رہا ۔ بیسویں صدی کے نصف آخر میں آزادی ہند کے بعد بھی معتدبہ شخصیات نے اپنے قلم کے ذریعہ سے اردو زبان و ادب کی قابل تحسین خدمت کی ہے ۔ انہی شخصیات میں سے ایک اہم نام جناب ابن غوری کا ہے جنہوں نے گزشتہ پچپن سال کے عرصہ میں اپنی نگارشات اور تصنیفات و تالیفات کے ذریعہ سے اردو زبان و ادب کے میدان میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے جس کے لئے وہ لائق صد تحسین ہیں۔
سید انور ابن غوری المعروف ابن غوری ولد سید قاسم غوری کی پیدائش 1944 ء میں حیدرآباد میں ہوئی ۔ وطن ، حیدرآباد سے قریب ترین ضلع نلگنڈہ ہے ۔ ابتدائی تعلیم مدرسہ تحتانیہ جنگاؤں ضلع ورنگل میں اور ثانوی تعلیم مدرسہ فوقانیہ میں اور بی ایس سی ناگر جنا کالج ضلع نلگنڈہ (ملحقہ عثمانیہ یونیورسٹی) میں ہوئی ۔ صرف 19 سال کی عمر میں آپ پیشۂ تدریس سے وابستہ ہوگئے ، چنانچہ 1963 ء تا 2002 ء یعنی تقریباً چالیس سال تک (نلگنڈہ اور بھونگیر میں) تدریسی خدمات بہ حیثیت مدرس و لکچرر انجام دینے کے بعد وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوگئے ۔ ملازمت کے دوران میں اردو، عربی اور اسلامیات سے ایم اے ، بی ایڈ اور ڈی ایل ایس سی کیا ۔ تلگو ، ہندی اور کچھ فارسی بھی پڑھی۔ مطالعہ کا شوق لڑکپن ہی سے رہا ۔ ملی خدمت کے جذبہ کے تحت انہوں نے نلگنہ میں بیت المال اور یونائٹیڈ مسلم فورم بھی قائم کیا ۔
ابتدائی متاثر کن شخصیت والد صاحب ہی کی رہی لیکن مجموعی حیثیت سے آئیڈیل مولانا محمد علی جوہر رہے ۔ چنانچہ سب سے پہلا مضمون کالج میگزین کے لئے انہی پر لکھا اور اپنی ایک تالیف ’’اقبال کی نظمیں‘‘ (نوجوانوں کے پڑھنے اور جلسوں میں سنانے کیلئے) کا انتساب اس طرح کیا : ’’اقبال کے مردِ مومن / مرد قلندر‘‘ محمد علی جوہرؔ کے نام جو اپنی آخری سانس تک مسلمانوں اور ہندوستانیوں کیلئے مضطرب اور متحرک رہا!‘‘ ۔ مولانا عبدالماجد دریا بادی ، علامہ اقبال ، مولانا آزاد اور اکبر الہ آبادی سے دلچسپی کالج کے زمانے میں ہی پیدا ہوگئی ۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ اور مولانا قاری امیر حسن صاحبؒ سے بھی قریبی تعلق رہا ۔ مولانا عبدالماجد دریا بادی سے لگاؤ تو ’’صدق‘‘ کے ذریعے اسکول کے زمانے ہی سے ہوگیا تھا جو ان کی تصنیف ’’فکریے‘‘ کی شکل میں منتج ہوا ۔ آخری اور گہرا تاثر مفکر اسلام ، وقار العلماء حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کا ہے۔
تبلیغی جماعت سے تعلق کی بنا پر ہندوستان بھر میں اور بیرون ممالک میں بنگلہ دیش ، نیپال ، بھوٹان ، سری لنکا ، ملیشیا، قطر اور سعودی عرب کے اسفار ہوئے ۔ حج اور عمروں کی سعادت بھی حاصل ہوئی ۔ مشاہیر سے ملاقات کے شوق کی بھی ان اسفار میں تسکین ہوتی رہی۔
موصوف کو تعلیمی دور سے ہی اردو زبان کے فروغ سے دلچسپی رہی ۔ چنانچہ حیدرآباد کے روزناموں’’رہنمائے دکن‘‘ اور ’’سیاست‘‘ (اور بعد میں ’’منصف‘‘ ، ’’اعتماد ‘‘ اور صحافی دکن) میں زبان ، ملت اور وطن کے متعلق مراسلہ نگاری آپ کا معمول رہا ۔ اس کا آغاز ’’رہنمائے دکن‘‘ سے ہوا۔ زبان سے متعلق متنوع موضوعات کو یہ چھیڑتے رہے ۔ موصوف کے مراسلوں کی خصوصیت یہ ہیکہ یہ جامع اور مختصر ہوتے ہیں اور ان میں ادبی چاشنی بھی ہوتی ہے ۔ اب تو ابن غوری صاحب کو صاحب طرز مراسلہ نگار کہا جاسکتا ہے۔
اب تک صرف اردو ہی سے متعلق ان کے (150) مراسلے شائع ہوئے ہیں۔
ابن غوری صاحب کو اردو زبان کی اشاعت کی فکر جنون کی حد تک ہے ، اس بات کا ثبوت ان کی یہ فریاد بھی ہے جسے وہ اپنے وزیٹنگ کارڈ کے طور پر پیش کر تے ہیں: ’’اولاد کو اردو سکھایئے ، یہ آپ کی مادری زبان ہے نا ! ، ہر ماہ اردو کا ایک رسالہ / کتاب خریدیے، اپنے مکان و دکان کی تختی پر اردو بھی لکھوایئے ‘‘ ؎
یوں ہی گر غافل رہے اردو سے اے اہل وطن
دیکھنا ان محفلوں کو تم کہ ویراں ہوگئیں
جس مسجد میں بھی ان کا جانا ہوتا ہے وہاں موجود تختہ سیاہ پر یہ تحریر کردیتے ہیں: ’’اولاد کو اردو سکھایئے ۔ دین سیکھنا بھی آسان ہوگا‘‘، یہی جملہ انگریزی اور تلگو میں بھی ہوتا ہے ۔
لوگوں (خصوصاً نوجوانوں) سے عندالملاقات بلا تکلف پوچھتے کہ کیا وہ ار دو پڑھتے ہیں/ ان کی اولاد اردو پڑھتی ہے ؟ اور پھر اس کی اہمیت بتاکر ترغیب دیتے ہیں۔ اپنے خطوط پر یہ ربر اسٹامپ بھی لگاتے ہیں’’اولاد کو اردو سکھایئے ‘‘۔
ان کا لٹرہیڈ بھی چونکا دینے والا ہے : سرورق پر یہ جملہ ہے ’’جو مسلمانوں کے امور کو اہمیت نہ دے وہ ان میں سے نہیں‘‘ (حدیث نبویؐ) ’’اردو کا دوسرا نام شائستگی ہے‘‘ اور بالکل نیچے وہی فریاد ہے: ’’اولاد کو اردو سکھایے ، اردو رسالہ خریدیے ، سائن بورڈ پر اردو بھی لکھوایئے ‘‘۔ اپنی ملازمت کے دوران میں بیس سال تک وہ اردو کے رسالے اور کتابیں بھی فروخت کرتے رہے ، مقصد حصول آمدنی نہیں اشاعت اردو ہی تھا۔
تصنیف و تالیف :
ابن غوری صاحب ایک مقبول مؤلف اور مصنف بھی ہیں۔ آپ کی کم و بیش بیس تصنیفات ہیں، جن میں 15 زیور طبع سے آراستہ ہوچکی ہیں۔ اور پانچ زیر طبع اور زیر ترتیب ہیں۔ آپ نے پہلی کتاب ’’فضائل اخلاق و اخلاص‘‘ کے نام سے 1970 ء میں تالیف کی جس پر مولانا عمران خان صاحب ندویؒ کی تفریظ ہے۔ اس کتاب کی تقریظ میں پدم شری مجتبیٰ حسین رقم طراز ہیں:’’مدتوں بعد ایک ایسی کتاب پڑھنے کو ملی جو شروع سے آخر تک نصیحت ہی نصیحت ہے۔ ابن غوری صاحب ،مولانا عبدالماجد دریا بادی سے بہت متاثر ہیں اور انہیں کے طرز تحریر کواپنانے کے کامیاب کوشش بھی کی ہے ۔ ’’فکریے‘‘ نہ افسانے ہیں نہ مضامین نہ انشایے۔ ان کو محسوسات کا نام دیا جاسکتا ہے ۔ یہ فکریے ہم کو صرف دعوت فکر ہی نہیں دیتے بلکہ دعوت عمل بھی دیتے ہیں۔ مصنف نے دریا کو کوزے میں بند کیا ہے ۔اختصار اور اختصار میں جامعیت ان کا ہنر ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے‘‘۔
سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم
اگرمیرے پاس رقم ہوا کرتی تو میں اس کتاب (سیرت النبیؐ انگریزی ، ظہیر احمد ) کو زیادہ تعداد میں خریدتا اور اپنے (غیر مسلم) دوستوں کو تحفہ دیتا۔
آپ کا گمان یہی ہوگا کہ یہ متمنی کوئی مؤمن ہی ہوں گے ۔ جی نہیں۔ یہ تو مشہور اردو داں اور انگریزی صحافی خشونت سنگھ ہیں !
ہمارے مال دار مسلمانوں کو اپنی بے لگام خواہشات کے پورا کرنے سے فرصت ہی کہاں کہ ایسے …
غیر شاعرانہ فعل :
پہلی نظر بھی آپ کی اف کس بلا کی تھی
ہم آج تک وہ چوٹ ہیں دل پر لئے ہوئے
تصویر ہے کھنچی ہوئی ناز و نیاز کی
ہم سر جھکائے اور وہ خنجر لئے ہوئے
آپ تو بس یہی جانتے ہوں گے کہ یہ اشعار مشہور شاعر اصغر گونڈوی کے ہیں۔ اب یہ بھی جان لیجئے کہ یہ اس وقت ان کی زبان پر تھے جب وہ ایک بزرگ سے بیعت ہوکر (جی ہاں بیعت ہوکر) واپس ہورہے تھے!
سلمان رشدی :
رُشدی سے محروم ، شاتم رسول سلمان رشدی بے شک اپنے کئے کا بھرپور خمیازہ بھگتے گا لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ … کہ ہم میں سے ہر ایک میں (الاماشاء اللہ) ایک عدد سلمان رشدی چھپا ہوا ہے تو شاید آپ اس کے سر کی بھی قیمت لگادیں!!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ترین عمل کی طرف مؤذن کی پکار سے روزانہ پانچ مرتبہ اعراض ، کیا رسول خدا کی توہین نہیں ؟ حدیث پڑھی جارہی ہو اور ہم منہ پھیر کر چلے جائیں ، کیا یہ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں ؟
اک تیر ہم نے دل میں وہ مارا کہ ہائے ہائے!
تاج محل :
لارڈ ولیم بنٹک نے تاج محل (اول تو فروخت کرنے اور بعد میں) منہدم کردینے کا حکم دیا تھا۔ لیکن تاج محل کے حسن نے ہندو مسلم کو مجبور کیا کہ وہ گورنر کو مجبور کریں۔ چنانچہ حکم واپس لے لیا گیا ۔ اگر مسلمان اپنے اندر عمل صالح کا حسن پیدا کریں اور پھر بھی کوئی پاگل (یعنی اعلیٰ تعلیم یافتہ) ان کو نقصان پہنچانا چاہے تو ہر دیکھنے والا اس کی مخالفت پر اپنے کو مجبور پائے گا ۔
حسن ، جس رنگ میں ہوتا ہے جہاں ہوتا ہے
اہلِ دل کیلئے سرمایہ جاں ہوتا ہے
زیر تکمیل کتابیں :
(1) آج رخصت جہاں سے کون ہوا ؟ (2) مشاہد الفاظ کی لغت (3) اچھا نام رکھیئے (4) شعر سنیے (5) غوری کے خطوط ۔
انعامات :
اردو اکیڈیمی آندھراپردیش نے ان کتابوں پر انعامات سے نوازا : (1) قرآن میں کیا ہے (2) کلام اقبال : موضوعاتی ترتیب (3) سب کیلئے (4) فکریے (5) اقبال کی نظمیں۔
وہ نوجوانوں کو مشہور ادبی ، سیاسی اور علمی شخصیات سے واقف کروانے کیلئے مختصر مضامین بھی لکھتے رہتے ہیں، جن کی اشاعت مختلف روزناموں اور رسالوں میں ہوا کرتی ہے ۔ املا اور تلفظ کی معاملے میں بہت حساس ہیں۔
آخر میں دعا ہے کہ ؎
سحر تک گردش میں ساقی ، تیرا پیمانہ رہے