دونوں ہم سائے کرلیں اگر دوستی دوستی کی طرح

مودی کی لاہور ڈپلومیسی
یو پی چناؤ… رام مندر پھر ایجنڈہ

رشیدالدین
گزشتہ 60 برسوں میں ہند۔پاک تعلقات کئی نشیب و فراز سے گزرے ہیں لیکن دونوں ممالک کے عوام نے ہمیشہ اپنی حکومتوں کو کشیدگی کم کرنے کیلئے مجبور کیا۔ مرکز میں نریندر مودی زیر قیادت حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کیلئے کوئی خاص پیشرفت کے امکانات دکھائی نہیں دیئے لیکن نریندر مودی نے گزشتہ چند ماہ کے دوران پاکستان سے رشتے بہتر بنانے کیلئے جو پیشرفت کی ہے ، اس کے حوصلہ افزاء نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ نریندر مودی نے اچانک لاہور پہنچ کر نہ صرف پاکستان بلکہ ساری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔ افغانستان سے ہندوستان واپسی کے دوران مودی اچانک لاہور میں اتر گئے اور وزیراعظم پاکستان نواز شریف کو سالگرہ کی مبارکباد پیش کی۔ مودی کے اس غیر متوقع اقدام کی کسی کو اطلاع نہیں تھی اور دوپہر میں مودی نے خود ٹوئیٹ کرتے ہوئے اپنے پروگرام سے دنیا کو واقف کرایا۔ نواز شریف کی سالگرہ کی مبارکباد کے بہانے مودی نے جو قدم اٹھایا ہے، یقیناً تاریخی اور قابل ستائش ہے۔ انہوں نے پہلے نواز شریف کو فون پر مبارکباد دی اور پھر طیارہ کا رخ لاہور کی طرف کردیا۔ لاہور پہنچنے پر دونوں وزرائے اعظم کی جذباتی ملاقات رہی اور مختصر قیام کے دوران دونوں ممالک نے تعلقات میں بہتری کا واضح طور پر اشارہ دیا ہے ۔ امید کی جارہی ہے کہ مودی کا یہ اقدام دونوں ممالک کے رشتوں میں نئے دور کا آغاز ہوگا۔ وزیراعظم بننے سے قبل نریندر مودی کے پاکستان کے بارے میں تیور مختلف تھے لیکن حلف برداری کے موقع پر نواز شریف کو مدعو کرتے ہوئے مودی نے اپنی شبیہ درست کرنے کا آغاز کردیا اور اسی تسلسل کے تحت وہ اچانک لاہور پہنچ گئے۔ گزشتہ 11 برس میں پاکستان کا دورہ کرنے والے نریندر مودی دوسرے وزیراعظم ہیں۔ 1999 اور 2004 ء میں اٹل بہاری واجپائی نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اس سے قبل 2001 ء میں پرویز مشرف پاکستان کے صدر کی حیثیت سے ہندوستان کے دورہ پر آئے اور آگرہ چوٹی کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری اگرچہ وقت کی اہم ضرورت ہے لیکن 2008 ء ممبئی حملوں کے بعد سفارتی تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے اور مذاکرات کا راستہ بند ہوگیا۔ حالیہ عرصہ میں سرحدوں پر کشیدگی اور سرحد پار دراندازی میں اضافہ کے بعد ہندوستان نے معتمدین خارجہ کی سطح پر بات چیت سے دوری اختیار کرلی تھی۔ الغرض نریندر مودی نے اچانک پاکستان پہنچ کر ہندوستان کی جانب سے جس دوستی اور خیرسگالی کا مظاہرہ کیا ہے ، وہ خطہ میں بڑے بھائی کی حیثیت سے ہندوستان کے رول کو ظاہر کرتا ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ سرحدوں پر سب کچھ ٹھیک ہوگیا لیکن نریندر مودی نے تعلقات استوار کرنے کو اہمیت دی کیونکہ تعلقات میں بہتری سے از خود تنازعات حل ہوسکتے ہیں۔ نریندر مودی کا اچانک لاہور پہنچنا دراصل نومبر میں پیرس میں ماحولیات کانفرنس میں نواز شریف سے ملاقات کا ایک تسلسل ہے۔ ماحولیات کانفرنس میں دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات میں دونوں ممالک کے کشیدہ ماحول کو دوستانہ میں تبدیل کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ اس کے بعد بنکاک میں دونوں ممالک کے مشیران قومی سلامتی  نے مذاکرات کئے ۔ پھر جاریہ ماہ کے اوائل میں وزیر خارجہ سشما سوراج نے اسلام آباد میں ہارٹ آف ایشیا ء کانفرنس میں شرکت کے ذریعہ ہندوستان کی سنجیدگی کا مظاہرہ کر کے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں خاتمہ کے عہد  پر مہرثبت کردی۔ دونوں ممالک کے متعمدین خارجہ کی جنوری میں ہونے والی ملاقات سے عین قبل مودی کا لاہور ’’سرپرائیز وزٹ ‘‘ مذاکرات کی کامیابی میں اہم رول ادا کرسکتا ہے ۔ امید کی جارہی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ حل طلب تنازعات کا خوشگوار حل تلاش کیا جائے گا اور کشمیر سمیت سرحدوں پر کشیدگی اور دراندازی جیسے مسائل کی شدت میں کمی آئے گی ۔ایسا نہیں ہے کہ چند ملاقاتوں سے دونوں ممالک کے تمام مسائل حل ہوجائیں گے ۔ تاہم امید کی جاسکتی ہے کہ کشیدگی کی شدت میں کمی ضرور واقع ہوگی۔ نریندر مودی نے پاکستان سے تعلقات میں بہتری کیلئے سنگھ پریوار اور کٹر ذہنیت کے حامل عناصر کی پرواہ نہیں کی جو پاکستان کے نام پر عوام کو بانٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نریندرمودی نے بھلے ہی اپنے طور پر لاہور دورہ کا فیصلہ کیا ہو، تاہم سنگھ پریوار اور پارٹی کی جانب سے اس اقدام پر کس حد تک تائید حاصل ہوگی، اس کا اندازہ چند دنوں میں ہوجائے گا۔ ہر بات پر مسلمانوں کو پاکستان جانے یا بھیجنے کی بات کرنے والے سنگھ پریوار کے قائدین اب کیا کہیں گے جب اُن کے وزیراعظم خود پاکستان پہنچ گئے ؟ نریندر مودی شہرت حاصل کرنے کے فن سے اچھی طرح واقف ہیں اور روس کے بعد افغانستان اور پاکستان میں توقف کے ذریعہ انہوں نے وزیراعظم کی حیثیت سے دورہ کنندہ ممالک کی فہرست میں اضافہ کرلیا ہے ۔ اپوزیشن اور سیاسی تبصرہ نگار بھلے ہی کچھ کہہ لیں لیکن نریندر مودی نے خود کو ایک چالاک اور اسمارٹ سیاستداں ثابت کردیا ہے جو صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرتے ہوئے اپنی مقبولیت کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔ دونوں ممالک کو چاہئے کہ اس موقع سے استفادہ کرتے ہوئے تعلقات میں بہتری کی سمت پیشرفت کریں کیونکہ یہی دونوں ممالک کی بھلائی میں ہے۔

ترقی کے ایجنڈہ پر 2014 عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی بی جے پی دوبارہ جارحانہ فرقہ پرستی کی طرف لوٹتی دکھائی دے رہی ہے۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس نعرہ سے پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہوئی تھی اور عوام کو توقع تھی کہ حکومت عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل کرے گی ۔ 18 ماہ گزرنے کے باوجود عوام کے مسائل کی یکسوئی توکجا ان میں اضافہ ہی ہوا اور دوسری طرف حکومت کی جانب سے وعدوں کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومت سے عوام کی مایوسی کا اظہار دہلی اور بہار میں ہوا۔ ان ریاستوں میں بدترین شکست کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی آج بھی سبق لینے کیلئے تیار نہیں ۔ عوام کی توقعات پر پورا اترنے کے بجائے دوبارہ فرقہ وارانہ ایجنڈہ کو ہوا دی جارہی ہے ۔ اترپردیش اور دیگر ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر متنازعہ مسائل کو ہوا دی جارہی ہے ۔ اترپردیش ایودھیا تنازعہ کے سبب چونکہ ایک حساس ریاست ہے ، لہذا 2017 ء اسمبلی چناؤ کیلئے نفرت کے ایجنڈہ کو عوام سے متعارف کیا جارہا ہے ۔ رام مندر ، یکساں سیول کوڈ اور دستور کی دفعہ 370 پارٹی کے انتخابی منشور میں شامل ہونے کے باوجود اسے وقتی طور پر پس پشت ڈال دیا گیا تھا  لیکن اب اس کا دوبارہ احیاء کیا جارہا ہے۔ اترپردیش کے چناؤ تک رام مندر اور یکساں سیول کوڈ بی جے پی کے اہم موضوعات ہوں گے ۔ ہوسکتا ہے کہ ہندو اکثریت کی تائید حاصل کرنے متنازعہ اراضی پر مندر کی تعمیر کی کوشش کی جائے گی۔ وعدوں کی تکمیل اور ترقیاتی ایجنڈہ میں ناکامی کے بعد سنگھ پر یوار نے اترپردیش ، آسام ، مغربی بنگال ، کیرالا اور ٹاملناڈو اسمبلی چناؤ میں روایتی ایجنڈہ کے ساتھ قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا ہے۔ ان تمام ریاستوں میں غیر بی جے پی حکومتیں ہیں اور شکست سے بی جے پی کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔سنگھ پریوار ابھی بھی غلط فہمی میں ہے کہ اب 1990 ء کے حالات کا احیاء کیا جاسکتا ہے ۔ رام مندر تحریک کے ذریعہ بی جے پی نے پارلیمنٹ میں اپنا موقف مستحکم کیا تھا۔

رام مندر اور یکساں سیول کوڈ عوام کے مذہبی جذبات سے وابستہ مسائل ہیں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیلئے سنگین خطرہ بن سکتے ہیں۔ اترپردیش کو ذہن میں رکھتے ہوئے رام مندر کی تعمیر کیلئے پتھر جمع کرنے کا کام شروع ہوچکا ہے۔ مندر کی تحریک سے وابستہ قائدین نے دعویٰ کیا کہ بہت جلد تعمیری کام شروع کردیا جائے گا۔ بابری مسجد کا مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر دوران ہے اور مسجد کے مقام پر کوئی بھی شرانگیزی عدالت کے فیصلہ کی خلاف ورزی ہوگی۔ بابری مسجد شہادت کے وقت بھی عدالت کے احکامات تھے اور اس وقت کی کلیان سنگھ حکومت نے مسجد کا تحفظ کرنے کا حلفنامہ داخل کیا تھا ۔ مرکز میں کانگریس اقتدار کے باوجود بابری مسجد شہید کردی گئی اور عارضی مندر تعمیر کرتے ہوئے پوجا پاٹ کا سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ اب جبکہ مرکز میں مودی سرکار ہے، لہذا سنگھ پر یوار کے حوصلے بلند ہیں۔ ایودھیا تنازعہ ہو یا پھر یکساں سیول کوڈ کی تجویز ملک کا اکثریتی طبقہ بھی ان تنازعات سے عاجز آچکا ہے اور کسی بھی ریاست میں بی جے پی کا ان مسائل پر اقتدار حاصل کرنا ممکن نہیں۔سنگھ پریوار نے وقتاً فوقتاً مختلف عنوانات سے سماج کو مذہبی خطوط پر بانٹنے کی کوشش کی لیکن عوام نے ان کوششوں کو ناکام بنادیا ۔ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت اور دوسری بڑی اکثریت کے مذہبی جذبات کا امتحان لیا جارہا ہے ۔ اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ شان رسالتؐ میں گستاخی کی مذموم کوشش کی گئی۔ ان تمام سرگرمیوں کا مقصد ملک کی روایتی مذہبی رواداری کو ختم کرنا اور اکثریتی طبقہ کے ووٹ حاصل کرنا ہے ۔ اس طرح کی سرگرمیاں نہ صرف عوام بلکہ مرکز اور اتر پردیش حکومتوں کیلئے ایک چیلنج ہیں ۔ کھلے عام پتھروں کی منتقلی پر مرکز اور اترپردیش کی خاموشی باعث حیرت ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دونوں حکومتوں کی عقل پر پتھر پڑ چکے ہیں ۔ خود کو مسلمانوں کا ہمدرد ظاہر کرنے والی سماج وادی پارٹی حکومت آخر کیوں خاموش ہے؟ کہاں ہے اعظم خاں ، وہ اکھلیش یادو حکومت کو کارروائی کیلئے مجبور کیوں نہیں کرتے ؟ یوں بھی سماج وادی پار ٹی اور کلیان سنگھ دوستی کو عوام آج بھی بھولے نہیں ہیں۔ لہذا وہ ملائم سنگھ یادو پر بھروسہ نہیں کرسکتے کیونکہ اقتدار کیلئے وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ بی جے پی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت چلانے کا انہیں تجربہ ہے ، لہذا کوئی عجب نہیں کہ اسمبلی میں اکثریت نہ ملنے کی صورت میں دوبارہ اسی تجربہ کو دہرایا جائے ۔ گزشتہ عام انتخابات میں بی جے پی نے ترقی کا ایجنڈہ پیش کیا تھا جس کے نتیجہ میں کئی برس بعد کسی واحد پارٹی کو پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہوئی ۔ بی جے پی یہ ہرگز نہ بھولے کہ اسے صرف 33 فیصد عوام کی تائید حاصل ہے۔ اگر فرقہ وارانہ ایجنڈہ کے احیاء کی کوشش کی گئی تو دوبارہ وہی حشر ہوگا جو سابق میں ہوچکا ہے۔ گزشتہ 18 ماہ میں عدم کارکردگی ، نفرت کی مہم ، عدم رواداری کے واقعات کا اثر مرکزی حکومت کے امیج پر پڑا ہے، ساتھ میں بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں بھی حکومتوں کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ نفرت اور پھوٹ کے ایجنڈہ کے ساتھ اقتدار حاصل کرنے کے دن گزرگئے ۔ رائے دہندے باشعور ہوچکے ہیں اور وہ سماج کو بانٹنے کی کوششوں کے حصہ دار نہیں بن سکتے۔ کثرت میں وحدت ہندوستان کی پہچان اور اکثریتی طبقہ رواداری ، تحمل اور باہمی اخوت کو اپنا شعار سمجھتا ہے۔ ہندوستان کی یہ خوبی ہے کہ عوام کی اکثریت فرقہ وارانہ اساس پر رائے دہی کے خلاف ہے۔ ایودھیا اور یکساں سیول کوڈ جیسے تنازعات کا احیاء ملک کے استحکام کو خطرہ پیدا کرسکتا ہے۔
زخم بھرجائیں دل کے سبھی پھول کھل جائیں بارود میں
دونوں ہم سائے کرلیں اگر دوستی دوستی کی طرح