ظفر آغا
دنیا کا ہر نظام وقت کے تقاضوں کے ساتھ تبدیل ہو تا رہتا ہے۔ چنانچہ اسلامی نظام کے ساتھ بھی فطری طور پر یہی ہوا۔ بدلتے حالات نے بنیادی اسلام کے خدو خال ہی بد ل دیئے۔ لیکن ہر نظام کی اپنی ایک بنیادی روح ہوتی ہے جو بدلتے زمانے کے تقاضوں کے ساتھ نہیں بدلنی چاہئے۔ ان دنوں القاعدہ، طالبان اور داعش جیسی تنظیمیں اپنے کو بنیادی اور اصل اسلام کا علمبردار کہہ رہی ہیں اس لئے اصل اسلام کی روح پر بحث بہت لازمی ہے۔ اسی نقطۂ نگاہ سے راقم الحروف پچھلے کچھ عرصے سے اسلام کے بنیادی اہم پہلوؤں پر دور جدید کی اصطلاح (Idiom) میں روشنی ڈالنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس پس منظر میں پچھلے دو مضامین میں اللہ اور مسلمان کے درمیانی رشتوں پر اور اسلام کے سیاسی پیغام پرروشنی ڈالی گئی تھی۔ بنیادی اسلام میں اللہ اور بندے کا جو رشتہ ظاہر ہو تا ہے وہ بے حد جمہوری یعنی Democratic ہے۔
کیونکہ اس رشتے میں کسی بیچولئے یعنی پنڈت ، راہب ،فادر یا عالم دین کی گنجائش نہیں ہے۔ پھر راقم الحروف نے اسلام کے سیاسی پیغام پر بھی روشنی ڈالی تھی جو کچھ یوں ہے کہ قرآن محض پروردگار کو قادر مطلق اور ملک یعنی بادشاہ تسلیم کرتا ہے اس لئے اسلامی نظام میں کسی دوسرے قادر مطلق کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ پھر کسی کو قرآن یہ اختیار نہیں دیتا ہے کہ وہ کسی بھی بندے کے ذاتی اعمال میں دخل اندازی کرے۔ ہاں حاکم وقت سماجی جرائم اور معاملات میں کسی جرم کی سزا دے سکتا ہے۔ باقی عقیدے سمیت بندے کے تمام معاملات کی جزاء و سزاء روز قیامت خود پروردگار طے کرے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ ذاتی اور سیاسی میدانوں میں بندوں کو اس قدر خود مختار (Autonomous) اور آزاد بنانے والا اسلام اپنے اولین دور میں سماجی سطح پر کیا اور کیسی شکل رکھتا تھا۔
اسلام کی بنیادی روح کے دوپہلوبہت واضح طور پر ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ اولاً ، اسلام ہر سطح پر اپنے ماننے والوں کے درمیان ایک انتہائی جمہوری نظام کے طور پر ابھر کر آتا ہے جو اپنے ماننے والوں کو ہر سطح پر با اختیار یعنی Autonomous اور آزاد بنا تا ہے۔ سماجی سطح پر اسلام آخر اپنے بندوں کو کس طرح با اختیار بنانے کی کوشش کرتا ہے؟سماجی سطح پر وہی شخص با اختیار اور آزاد ہو سکتا ہے جو سماجی طور پر آزاد ہو اور معاشی طور پر خود کفیل اور اپنے پاوں پر کھڑے ہونے کی حیثیت میں بھی ہو۔ اگر دور نبویؐ کے مختلف معاشروں پر نگاہ ڈالیں تو سماجی سطح پر انسانیت ایک عجیب گھٹن کا شکار تو تھی ہی ساتھ ہی وہ دور انسان کو حیثیت کے اعتبار سے اونچ نیچ کے خانوں میں با نٹتی تھی۔ مثلاً ہندوستانی معاشرہ ذات کے خانوں میں بٹاتھا۔ یہاں اکثریت دلت اور دیگر پسماندہ ذاتوں کی صورت میں ہر قسم کے حقوق سے ایک تو محروم تھی اور دوسرے معاشی اعتبار سے سماج کے سب سے نچلی سیڑھی پر کھڑے ہو کربد ترین مظالم اور کرب کی زندگی بسر کر رہی تھی۔ پھر مغرب میں انسان Nobles یعنی شرفاء اور Commoner یعنی عام شخص کے خانوں میں بٹ کر سخت انسانی نا برابری کا شکار تھا۔ یا پھر عرب سمیت تر دنیا کے زیادہ تر حصوں میں اس وقت قبائلی نظام رائج تھا جس میں قبیلے کا سردار عام شخص کی زندگی کا آقا ہو تا تھا اور ہر شخص قبیلے کے رسم و رواج (خواہ وہ کتنے ہی غیر منصفانہ کیوں نہ ہوں )کا غلام ہوتا تھا۔
اس پس منظر میں ذرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے مدینے کے سماج پر نظر ڈالئے کہ جہاں رسول کریمؐ بنیادی اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھ رہے تھے رسولؐ نے جو سماجی نظام پیش کیا اس نظام نے سیاسی و سماجی سطح پر سب سے پہلے قبائلی سردار اور رسوم کو توڑ کر اللہ کو بندے کا مالک بنا دیا۔ یعنی اب بندہ اسلامی اصول و قوانین کا پابند ہو کر اپنے افعال اور اعمال کا خود ذمہ دار اور آزاد ہوگیا۔ یعنی اولاً ہر مسلمان کو ہر قسم کے فرسودہ رسم و رواج سے سماجی آزادی حاصل ہوگئی۔ پھر رسول نے سماجی سطح پر جو انقلاب برپا کیا وہ تھا اسلامی اخوت کا پیغام۔ یعنی ہر وہ شخص جس نے اسلام قبول کیا وہ اللہ کے نزدیک اتنا ہی برابر ہے جتنا کہ دوسرے مسلمان، خواہ وہ قریش ہو یا انصار ، گورا ہو یا کالا، مرد ہو یا عورت، عربی اس کی مادری زبان ہو یا فارسی یا کوئی دوسری زبان ، ہر مسلمان اللہ کے نزدیک اور خود دوسرے مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے نزدیک برابر حیثیت کا مالک ٹھہراہے۔ اس ایک بنیادی اسلامی اصول نے سماجی سطح پر انسان کو جس قدر با اختیار، خود مختار آزاد اور برابر بنا دیا اس کا تصور بھی انسانیت نے دور رسولؐ سے قبل نہیں کیا تھا۔
اب سماجی سطح پر مسلمان کسی قبائلی سردار کا غلام نہیں تھا۔ وہ ہر قسم کی قبائلی عصبیت سے پاک تھا۔ یعنی وہ خواہ قریش ہو یا انصار ، عورت ہو مردیا افریقی ہو یا عرب یا ایرانی ہر مسلمان نہ صرف اللہ کے نزدیک بلکہ اپنے پورے سماج میں ایک دوسرے کے برابر تھا۔ تب ہی تو وہ حضرت ابوبکر جیسے قریشی ہو ںایوب عیوب انصاری جیسے اہل مدینہ ، یا پھر حضرت عمرؒ ہوں یا حضرت عائشہ یا پھر سلمان فارسی ہوں یا بلال حبشی ہر شخص جو اسلام میں عقیدہ رکھتا تھا رسول کے مدینہ میں ایک دوسرے کے برابر تھا۔ یعنی اس طرح رسول نے سماجی سطح پر ہر مسلمان کو اس دور کی نہ صرف قبائلی غلامی بلکہ آج کی اصطلاح میں gender، Linguistic اور racial discrimination سے بھی نجات دلائی۔ بالفاظ دیگر بنیادی اسلام نے بندوں کو سماجی سطح پر جس طرح با اختیار، خود مختار اور آزاد بنایا اس کی مثال انسانیت کو قبل اسلام اس پیمانے پر کہیں بھی نہیں ملتی جس پیمانے پر دور رسولؐ کے مدینہ میں نظر آتی ہے۔ بس یہی وہ کمال تھا اسلام کا کہ جس نے رسول کی آنکھ بند ہوتے ہی اسلام کو دنیا کے چاروںکونوں میں عام کر دیا۔
لیکن سماجی سطح پر وہی شخص خود مختار اور آزاد ہوسکتا ہے جو معاشی طور پر کم از کم خود کفیل بھی ہو۔ شروع سے اب تک دنیا میں جو معاشی نظام چلا آرہا ہے وہ بنیادی طور پر نا انصافی اور عدم مساوات پر منحصر ہے۔ اس کو ختم کرنے کی تاریخ میں کئی کوششیں ہوئیں لیکن معاشی نا انصافی کبھی ختم نہیں ہوسکی۔ اور غالباً کبھی ختم بھی نہیں ہوسکتی ہے۔ یعنی معاشی نا انصافی اور عدم مساوات انسانی سماج کا حصہ ہے۔ اب اس صورت حال میں اسلامی معاشرے میں بندے کو کم از کم خود کفیل اور بنیادی معاشی آزادی کیسے مہیا کرائی جاسکتی ہے ؟ اس سلسلے میں غالباً اسلام وہ پہلا نظام ہے جو بندے کی کفالت کا ذمہ ریاست اور سماج دونوں پر ڈالتا ہے۔ مثلاً بیت المال وہ مال ہے جس میں ہر مسلمان کا حصہ ہے اور اسلامی حاکم وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس میں ہر بندے کو حصہ دے۔ پھر زکوٰۃ وہ مال ہے جس پر غریبوں کا حق ہے۔ پھر اس کے علاوہ سلام سماجی سطح پر ہر مسلمان کو یتیموں اور مسکینوں کی کفالت کی پوری ذمہ داری ڈالتا ہے۔ یعنی معاشی سطح پر رسولؐ کی ریاست ایسی Welfare State کے خدوخال پیش کرتی ہے جس میں غریب سے غریب شخص کی کفالت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اس طرح بندے کو کم از کم بنیادی معاشی خود مختاری اور آزادی حاصل ہو جائے تا کہ انسان پھر اپنی ترقی کی مزید کوشش کرسکے۔
لب لباب یہ ہے کہ عقیدے سے لے کر سیاسی اور سماجی سطح پر ہر جگہ دور رسولؐ کے بنیادی اسلام میں ایک جمہوری روح (Democratic sprit ) پروئی ہوئی ہے جس کا اصل مقصد بندے کو ہر سطح پر آزاد، خود مختار اور با اختیار بنا نا ہے تا کہ دنیا میں عدل اور انسانی حقوق کی بنیاد پر ایک ایسا معاشرہ قائم ہو سکے جس میں سیاسی، سماجی ،مردو خواتین (gender) رنگ و نسل یا لسانی کسی قسم کی نا انصافی یازیادتی نہ پائی جائے۔ کیا القاعدہ، طالبان اور داعش جیسی تنظیمیں جن نظریات اور جس قسم کے معاشرے کا پرچم بلند کررہی ہیں اس میں کہیں بھی کسی قسم کی جمہوری روح کا شائبہ نظر آتا ہے۔ نہ تو ان تمام تنظیموں میں کوئی جمہوری طرز ہے اورنہ ہی ان تنظیموں میں کسی قسم کی آزادی ہے ۔ ان تنظیموں کا سربراہ ایک Autocrat (ڈکٹیٹر) ہے جو خود کو بندوق اور بارود کے زور پر خلیفہ گردانتا ہے اور سماجی و سیاسی سطح پر اس کے نظام میں Rule of law کے بجائے Rule of gun کارواج ہے، جو ظاہر ہے کہ اسلامیSprit کے بالکل مغائر ہے۔ اس لئے داعش جیسی تنظیمیں نہ صرف غیر مسلم بلکہ تمام مسلمانوں کیلئے بھی انتہائی خطرناک اور غیر اسلامی تحریکیں ہیں، جن کو شکست دینا ہر مسلمان کا فرض ہے۔