دنیا کی قدیم یونیورسٹیز کا جائزہ

حلیم بابر
خوش نصیب ہیں وہ ممالک جہاں یونیورسٹیز کثیر تعداد میں موجود ہوں۔ دانشوران ملک کی نظروں میں یونیورسٹیز کی بڑی اہمیت ہے ۔ چونکہ ان کے ذریعہ دنیائے علم و سائنس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے ۔ حصول علم کو ہر مذہب لازمی قرار دیتا ہے۔ بڑی حد تک قوموں میں بیداری آچکی ہے ۔ غریب آدمی بھی کیوں نہ ہو وہ آج کے دور میں تعلیم دلوانے کا خواہشمند ہے۔ یقیناً ایسا اقدام قوم کو تعلیم یافتہ بنانے میں مفید ثابت ہوگا۔ ایک انسان کیلئے علم ایسا زیور ہے جس سے معاشرہ میں سدھار آسکتا ہے ۔ ظلمت بڑھ رہی ہے۔ زندگیوں سے تیرگی دور ہونے لگتی ہو۔ نظام قدرت کا فہم نصیب ہوتا ہے ۔ تعلیم سے دور ہونے والا جاہل کہلایاجاتا ہے اور سماج میں جاہل کا کوئی مقام نہیں ہوتا چونکہ اسے اچھے اور برے کی تمیز نہیں ہوتی ۔
دنیا میں ہر طرف کہیں نہ کہیں کالجس اور یونیورسٹیز موجود ہیں۔ دنیا میں اگر قدیم یو نیورسٹیز کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں یہ معلوم ہوگا یہ ایک قدیم یونیورسٹی جس کا نام ٹیکسلا یونیورسٹی ہو جس نے اب تک 2700 برس مکمل کرچکی ہے ۔ اب یہ یونیورسٹی پا کستان کے حدود میں جاچکی ہے ۔ ایک اور یونیورسٹی جس کا نام نلندہ یونیورسٹی ہے جو بارھویں صدی میں قائم کی گئی تھی ۔ اس یونیورسٹی میں چین، کوریا ، جاپان ، ترکی ، انڈونیشیا و ایران سے طلبہ تعلیم حاصل کیا کرتے تھے ۔ اس طرح یہ یونیورسٹی کو بلند مقام حاصل ہوا تھا ۔ ایک اور نامور یونیورسٹی آف رواکی کے نام سے 1847 ء میں قائم ہوئی ۔ بعد ازاں 1857 ء میں یونیورسٹی آف کولکتہ کا قیام عمل میں آیا۔ اس طرح 1875 ء میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی جو ہندوستانیوں کی نظروں میں بڑی قدر سے دیکھی جاتی ہے، قیام عمل میں آیا اور 1887 ء میں یونیورسٹی آف الہ آباد قائم ہوئی اور 1916 ء میں بنارس یونیورسٹی قائم ہوئی جس کی بڑی شہرت رہی ۔ اس کے بعد عثمانیہ یونیورسٹی جو ہمارے دلوں کی دھڑکن ہے اور جس سے ہمارے بے شمار طلبہ نے علم کے زینے طئے کرتے ہو ئے اعلیٰ مقامات حاصل کئے ۔ وہ 1918 ء میں قائم ہوئی ۔ اس کانام سلطنت عثمانیہ سے وابستہ کرتے ہوئے عثمانیہ یونیورسٹی نام رکھا گیا ۔ اس کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ بڑی عظمت و احترام سے 1920 ء میں قائم کی گئی۔ اس طرح جامعہ ملیہ کو ایک صدی مکمل ہونے میں تین سال باقی ہیں جبکہ عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد اپنے 100 سال مکمل کررہی ہے، جو نہ صرف ریاست بلکہ سارے ہندوستان کیلئے ایک اعزاز کی بات ہے ۔ معتبر ذرائع کے مطابق اس یونیورسٹی کی عظیم الشان ایک صدی تقاریب میں حکومت تلنگانہ ایسے اقدامات کرے گی۔ جو ایک تاریخی اور یادگار اہمیت کے حامل ہوں گے۔ دنیا کی سب سے قدیم ایک یونیورسٹی کا نام ’’القر اوپن یونیورسٹی‘‘ ہے جو 869 ء میں قائم ہوئی جو ایک دولت مند تاجر نے اپنی بیٹی فاطمہ اظہری کے نام سے اس کا سنگ بنیاد رکھا ۔ اس یونیورسٹی کو بہت فعال بنایا گیا اور کئی عصری شعبوں سے یہاں تعلیم کو فروغ حاصل ہوتا رہا ۔ ایک اور مصر کے نامور ’’جامعہ ازہر‘‘ کے نام سے 970 ء میں مصر میں قائم ہوئی جس کی شہرت دوردور تک رہی ۔ ابتداء میں یہ اسماعیلی شعبہ مکتب میں ڈھلی مگر بعد ازاں اس کو سنی طریقہ تعلیم میں تبدیل کیا گیا ۔ اس طرح اٹلی کے شہر بولونا میں 1088 ء میں ’’یونیورسٹی آف بولونا‘‘ کے نام سے قائم ہوئی جو یوروپی ممالک کیلئے بہت نفع رساں رہی ۔ اس میں اس وقت 85 ہزار طلبہ استفادہ کر رہے ہیں۔ اس طرح 1096 ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی آف انگلینڈ قائم ہوئی اور یہ دنیا کی ایک اہم ترین یونیورسٹی کہلائی جاتی ہے ۔ اس کا اعزاز یوں بھی ہے کہ یہاں سے 26 برطانوی وزرائے اعظم اور 27 نوبل انعام یافتگان فارغ التحصیل ہوئے ۔ اسپین میں 1094 ء میں ایک یونیورسٹی قائم ہوئی جس کا نام یونیورسٹی آف سلمانکا‘‘ ہے اور اسی طرح 1160 ء میں یونیورسٹی آف پیرس قائم ہوئی ۔ ایک اور بڑی اہمیت وعظمت کی حامل یونیورسٹی 1209 ء میں قائم کی گئی جس کو دنیا کی پانچ سرکردہ یونیورسٹیز میں شامل کیا جاتا ہے ۔ یہاں سے 82 نوبل انعام یافتگان کو اعزاز ملا اور 1222 ء میں اٹلی میں ایک اور یونیورسٹی ’’یونیورسٹی آف پڈوا‘‘ کے نام سے قائم ہوئی ۔ یہاں سے ایک نامور سائنسداں جس کانام ’’گلیبو‘‘ ہے ۔ فارغ التحصیل ہوا ۔ ایک اور یونیورسٹی 1224 ء میں روسی شہنشاہ فریڈرک نے قائم جس کا نام ’’یونیورسٹی آف فلپس’‘ رکھا گیا جو دنیا کی 100 سرکردہ یونیورسٹیز میں سے ایک ہے۔ ایک اور یونیورسٹی اٹلی میں 1240 ء میں قائم ہوئی جس کا نام سینا یونیورسٹی ہے۔ جہاں 20 ہزار طلباء زیر تعلیم ہیں۔
حرفِ آخر : ریاست تلنگانہ حیدرآباد کی مشہور و معروف تاریخی عظمت کی حامل عثمانیہ یونیورسٹی جو 1918 ء میں قائم ہوئی تھی ۔ وہ اب عنقریب اپنے 100 سال مکمل کرے گی جس کی ایک طویل مدت تک سرپرستی شہنشاہوں نے کی اور اپنی چاہتوں اور قدردانی سے اس کا بھرپور احترام کرتے رہے۔ ماضی میں یہ یونیورسٹی ہندو مسلم اتحاد کی بہترین مثال سمجھی جاتی تھی ۔ یہاں سے تمام مذاہب کے طلباء نے علم کے زینے طئے کئے اور علمی ادبی و سیاسی دنیا میں بلند ترین مقامات پر فائز رہے ۔ چند برسوں سے یہ نظر بد کا شکار ہے اور مسائل و مصائب کا سامنا کر رہی ہے جس کو حل کرنا دانشورانِ ملت اور حکومت کا فرض ہے ۔ اب عثمانیہ یونیورسٹی کی صد سالہ تقریب کا اہتمام حکومت تلنگانہ کی جابنب سے کیا جانے والا ہے ۔ توقع کی جاتی ہے کہ ہردالعزیز چیف منسٹر کے سی آر جو ایک مکمل سیکولر شخصیت کے حامل ہیں اور جنہیں حیدرآبادی تہذیب و تمدن بے حد عزیز ہے، وہ اسی صد سالہ تقریب کو بہتر سے بہتر اور اعلیٰ سے اعلیٰ بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں گے اور اس کو ایسا یادگار بنائیں گے کہ تاریخ میںحکومت تلنگانہ کا نام سنہری حرفوں میں لکھا جائے گا ۔