چندی گڑھ۔ سابق وزیراعظم من موہن سنگھ نے چہارشنبہ کے روز اس بات پر زوردیا ہے کہ ملک میں دلتوں اوراقلیتوں کے خلاف مظالم بڑھتے واقعات کی روک تھام نہیں کی گئی تو یہ جمہوریت کے خطرہ بن سکتے ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی میں پہلے ایس بی رانگیر یادلکچر سے خطاب کرتے ہوئے سنگھ نے ’’ تقسیم کی پالیسی اور سیاست ‘‘ دونوں کو مسترد کرنے کی بات بھی کہی۔انہوں نے کہاکہ ’’ موجودہ حالات میں کی ہندوستانی لوگوں کو مذہب‘ طبقے ‘ زبان اور تہذیب کی نام پر تقسیم کرنے کی جوکوششیں کی جارہی ہیں اس کے متعلق میں گہری تشویش میں ہوں اورمیں چاہتاہوں میری یہ تشویش زیادہ وقت تک نہیں رہے۔
اقلیتوں اور دلتوں پر مظالم میں اضافہ ہوا ہے‘ اگر اس کو روکا نہیں کیاگیااس طرح کے واقعات صرف ہماری جمہوریت کے لئے نقصاندہ ثابت ہونگے۔ بطور انسان ہمیں چاہئے کہ ہرحال میں اس تقسیم کی پالیسی اور سیاست دونوں کو نامنظور کریں‘‘
۔ سابق وزیراعظم جس عنوان پر خطاب کررہے تھے وہ ’’ ہماری آزادی کے ستر سال ۔ جمہوری جڑوں کو مضبوط بنانا‘تھا جس سے خطاب کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہاکہ ’’ خطرناک اور فرضی رحجان ‘‘ ترقی اور آزادی کے درمیان میں ملک میں سیاست میں پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے جس کو بھی نامنظور کرنا ضروری ہے۔انہوں نے مبینہ طور پر لوگوں کو تقسیم کرنے کی کوششوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہاکہ ملک کی آزادی محض ان کی حکومت کی آزادی نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ ’’ یہ لوگوں کی آزادی ہے ‘ جو نہ صرف ان کی آزادی ہے بلکہ ان کے استحکام اور طاقتور ہونے کی آزادی ہے مگر یہ تمام ہندوستانیوں کے لئے ہونا چاہئے‘‘۔
انہو ں نے کہاکہ ’’ آزادی یہ ہے کہ اظہار خیال کی آزادی ‘ سوال کرنے کی آزادی ‘ ایک سونچ کے اظہار کی آزادی ‘ تاہم یہ دوسرے کے لئے مشکل نہیں ہونا چاہئے۔ مذکورہ آزادی کے لئے صرف یہ تحدیدات ہونا چاہئے کہ یہ تمام کی آزادی ہو۔ دوسرے لفظوں میں کسی ایک فرد یاگروپ کی آزادی کا استعمال کسی دوسرے فرد یا گروپ کی آزادی کے خلاف میں نہیں ہونا چاہئے‘‘۔
سابق وزیراعظم نے کہاکہ جمہوریت کی بقاء صرف اس میں ہے کہ آزادی کے ائیڈیا کے لئے ایک مضبوط عزم ہونا چاہئے۔ مسٹر سنگھ نے کہاکہ سامراجی طاقتوں کے ہاتھوں کا کھلونا بننے کے بجائے’’ منصوبہ سازی کے عمل کے لئے ہمیں ضروری ہے کہ محفوظ حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ہندوستان کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لئے ہمیں عزم کا احیاء عمل لانے کی ضرورت ہے جس کی بنیاد ہر ہندوستانی شہری کی آزادی ہو‘‘۔
انہوں نے کہاکہ ’’ گاندھی جی بابائے قوم کی بات ہمیںیہاں پر یاد آتی ہے ‘ انہوں نے کہاتھا کہ اچھی حکومت خود مختار حکمرانی ( سوراج) سے بہتر ہے۔یہ ( آزادی ) جدوجہد آزادی کی ابتدائی میں ہی ہمارے آباواجداد سے ملا ہے جو کہ ہماری پیدائشی حق ہے اور اس پر کسی قسم کا تعاون نہیں ہونا چاہئے‘ ترقی ‘ دولت اور استحکام جمہوریت کے پھل ہیں جس کا کوئی متبادل نہیں ہے‘