دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

کے این واصف
سفارت خانہ ہند ریاض کے اعداد و شمار کے مطابق صرف مملکت سعودی عرب میں 28 لاکھ ہندوستانی آباد ہیں۔ اس کے علاوہ برصغیر سے تعلق رکھنے والے ممالک جن میں پاکستان ، بنگلہ دیش ، نیپال اور سری لنکا سے تعلق رکھنے والوں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد آباد ہے ۔ ان ممالک میں نیپال کے سوا ہر ملک سے تعلق رکھنے والے باشندوں کی سماجی و ادبی تنظیمیں قائم ہیں جبکہ سعودی عرب میں اس طرح کی اجتماعی سرگرمیوں اور بڑے اجتماعات کے انعقاد کی کسی کو اجازت نہیں ہے ۔ کسی عنوان کے تحت ہم خیال افراد کا مل بیٹھنا ہماری سرشت میں شامل ہے ۔ مملکت میں دیگر بیسیوں ممالک کے افراد برسرکار ہیں،

لیکن صرف جنوب مشرقی ایشیاء کے ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کی سماجی تنظیمیں یہاں قائم ہیں، جن میں اکثریت تو چھوٹے پیمانے پر خاموش انداز میں اپنی محافل آراستہ کرتی ہے اور ہفتہ کے اختتام پر چھٹی کے دن کو خوشگوار بنالیتی ہے اور اگر کوئی محفل بڑے پیمانہ پر منعقد کرنی ہو تو یہ لوگ یہاں کے متعلق محکمہ سے اجازت بھی حاصل کرلیتے ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ سن 2010 ء میں وزیراعظم ہند ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دورۂ سعودی عرب کے موقع پر جو ’’ریاض ڈکلیریشن‘‘ منظور کیا گیا تھا اس میں دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی تبادلہ بھی شامل تھا ۔ اس معاہدہ کی رو سے دونوں ممالک کے درمیان کچھ ثقافتی پروگرامس ہندوستان اور سعودی عرب میں منعقد بھی ہوئے ۔ مگر یہ پروگرامس صرف یہاں دو بڑے شہروں یعنی ریاض اور جدہ تک ہی محدود رہے جبکہ ہندوستانی باشندے مملکت کے دور دراز اور چھوٹے شہروں میں بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں، جن کی اکثریت یہاں تنہا زندگی بسر کرتی ہے ۔

آ پس میں مل بیٹھنا ، محفلیں آراستہ کرنا ہماری فطرت میں داخل ہے۔ ایمبسی اور ہندوستانی قونصلیٹ جدہ جو کلچرل پروگرامس کا اہتمام کرتی ہے اس سے یہاں آباد ہندوستانیوں کی ایک بہت ہی چھوٹی سی تعداد مستفید ہوپاتی ہے۔ سفارت خانہ ہند ریاض اور جدہ قونصلیٹ کے زیر اہتمام جو سب سے بڑا سالانہ پروگرام منعقد ہوتا ہے وہ ’’سالانہ مشاعرہ‘‘ ہے جس میں ہر سال ہندوستان سے 12 تا 15 شعراء مدعو کئے جاتے ہیں۔ اس سالانہ مشاعرے میں 12 تا 15 سو ہندوستانی تارکین وطن شرکت کرتے ہیں۔ ریاض میں رہنے والے ہندوستانیوں کی بدقسمتی ہے کہ وہ پچھلے تین سال سے اس سالانہ مشاعرے میں محروم ہوگئے ۔ حالانکہ جدہ قونصلیٹ میں یہ سلسلہ پابندی سے جاری ہے ۔ مگر ریاض ایمبسی نے اسٹاف کی کمی کا بہانہ بناکر اس سلسلے کو بند کردیا ۔ یہ سلسلہ 90 کی دہائی میں شروع ہوا تھا جبکہ عزت مآب حامد انصاری (موجودہ نائب صدر جمہوریہ ہند) سفیر ہند برائے سعودی عرب ہوا کرتے تھے ۔ اس وقت سے اب تک شاید نہ ریاض ایمبسی کے اسٹاف کی کمی واقع ہوئی نہ جدہ قونصلیٹ کے اسٹاف میں کوئی اضافہ ہوا ۔ سالانہ مشاعرے کا سلسلہ جدہ قونصلیٹ کے زیر اہتمام بدستور جاری ہے جبکہ ریاض ایمبسی میں یہ سلسلہ منقطع ہوگیا ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ریاض ایمبسی میں کلچرل امور کی نگرانی کیلئے ڈپارٹمنٹ آف کلچرل امور حکومت ہند کی جانب سے خصوصی طور پر ایک سینئر عہدیدار بھی ریاض ایمبسی میں متعین کیا گیا ہے، لیکن مشاعرے کا سلسلہ کیوں بند ہوا اور پھر کب شروع ہوگا اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ ہماری ایمبسی میں ایک خوبصورت آڈیٹوریم بھی موجود ہے جس میں کبھی مسلسل بنیاد پر ایمبسی اور دیگر کلچرل آرگنائزیشن کی جانب سے کلچرل پروگرامس منعقد ہوا کرتے تھے ۔ یہ سلسلہ ایک عرصہ سے تقریباً ختم ہوگیا ۔ ثقافتی پروگرامس میں شرکت کرنا یا ان کا انعقاد عمل میں لانا ہندوستانیوں کے مزاج کا حصہ ہے ۔اس بات کا خیال ہماری ایمبسی کو رکھنا چاہئے ۔ اگر ایمبسی آڈیٹوریم میں ہر ہفتہ کے اختتام پر ثقافتی پروگرامس کا انعقاد عمل میں نہیں لایا جاسکتا ہے تو اس کا کوئی متبادل انتظام ایمبسی کو کرنا چاہئے ۔

خیر جیسا کہ ہم نے اپنی بات کی ابتداء میں بتایا کہ یہاں مختلف سماجی و ادبی تنظیمیں قائم ہیں جو مملکت میں اپنے وطنوں کیلئے اور واپس وطن میں کئی فلاحی کام انجام دیتی ہیں اور یہاں چھوٹے پیمانے پر مل بیٹھنے کا اہتمام کرلیتی ہیں اور اپنے چھٹی کے دن کو خوشگوار اور با مقصد بناتی ہیں جس سے ’’درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو‘‘ والے جذبے کو فروغ اور تقویت حاصل ہوتی ہے ۔اس سلسلے میں پچھلے ہفتہ کے اختتام پر بہار کی سماجی تنظیم بسواس نے ایک تقریب کااہتمام کیا جس کی روداد پیش خدمت ہے۔بہار انٹرنیشنل سوسائٹی برائے فلاح و بہبود و یکجہتی (بسواس) کی تنظیم جدید عمل میں آئی ۔ نئی کمیٹی کیلئے عیبدالرحمن چیرمین ، ڈاکٹر محمد مختار خاں صدر، شہزاد صمدانی نائب صدر (ویلفیر) محمد وکیل احمد نائب صدر (تعلیم) ، اخترالاسلام صدیقی جنرل سکریٹری اور طارق نور الحسن جوائنٹ سکریٹری منتخب کئے گئے۔ جمعرات کی شب ایک پر وقار تقریب میں نئی کمیٹی کا اعلان کیا گیا اور نو منتخب اراکین نے رسمی طور پر اپنے عہدوں کا جائزہ حاصل کیا۔ اس تقریب کا آغاز طارق ندوی کی قراء ت کلام پاک سے ہوا ۔ طارق ندوی نے پڑھی گئی آیات قرآنی کا ترجمہ و تفسیر بھی پیش کی ۔ احسن ندوی نے خیرمقدم کیا ۔ انہوں نے ہندوستان کی تاریخ میں بہار کا حصہ اور اس کی اہمیت پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے جدوجہد آزادی ، تعلیم، ثقافت اور ادب کے میدان میں بہار اور اس فرزندان سر زمین بہار کے حصہ پر تفصیلات پیش کیں۔

چیرمین تنظیم عبیدالرحمن نے محفل کو مخاطب کرتے ہوئے بسواس کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی ۔ انہوں نے تنظیم کے قیام کے بعد سے پچھلے 12 سالوں میں بسواس کی کارکردگی کا تفصیلی جائزہ بھی پیش کیا ۔ عبید نے کہا کہ قوم کی ترقی کیلئے بنیادی شرط تعلیم ہے اس لئے بسواس تعلیمی ترقی کی طرف خصوصی توجہ دیتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کی بنیادی تعلیم اچھی ہو تو وہ اعلیٰ تعلیم کے کسی بھی مسابقتی امتحان کا سامنا آسانی سے کرسکتے ہیں۔

نو منتخب صدر بسواس ڈاکٹر محمد مختار خاں نے کہا کہ سعودی عرب میں کوئی 2 لاکھ بہاری باشندے آباد ہیں اور علاقہ بہار سے تعلق رکھنے والوں کی اور بھی سماجی تنظیمیں ہیں۔ ڈاکٹر خاں نے کہا کہ ہم سب کا مقصد ایک ہے تو ہمیں آپسی اتحاد کے ساتھ قائم کرنا چاہئے کیونکہ اتحاد میں بھلائی اور برکت ہے ۔انہوں نے بسواس کی نئی کمیٹی کے ساتھ تمام بہاری باشندوں اور بہار کی تنظیموں سے تعاون کی اپیل ۔نائب صدر (تعلیم) وکیل احمد نے تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ بسواس بہار میں تعلیمی ترقی کیلئے اپنی توانائیاں صرف کرے گا۔

جنرل سکریٹری بسواس اخترالاسلام صدیقی نے کہا کہ بہار مجاہدین آزادی سرزمین ہے، لیکن آزادی کے بعد ملک میں اس علاقہ کو بری طرح نظر انداز کردیا گیا ۔ نتیجتاً بہار ملک کا پسماندہ ترین علاقہ بن گیا جس کی وجہ بہار آزادی کے بعد مخلص قائدین سے محروم رہا ۔ ریاست بہار کے سیاسی قائدین کی اپنے علاقہ سے بے توجہی اور عدم دلچسپی کی وجہ سے ریاست بہار کی یہ حالت ہوئی ۔ انہوں نے کہا کہ خلیجی ممالک میں کام کرنے والے اپنے آپ کو بہاری کہنے سے گریز کرتے تھے ۔ بسواس اور بہار کی دیگر انجمنوں کی کاوشوں نے بہاریوں میں خود اعتمادی پیدا کی ۔ انہوں نے ابتداء میں بسواس کے نو منتخب عہدیداران کا تعارف بھی پیش کیا۔

مہمان خصوصی و معروف صحافی غضنفر علی خاں نے اس موقع پر مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری سماجی تنظیموں کی سرگرمیاں قابل ستائش ہیں۔ خصوصاً پچھلے دنوں سفارت خانہ ہند کے ساتھ ہندوستانی سماجی تنظیموں نے تعاون کر کے ایک بہت بڑے آپریشن کو کامیاب بنایا جس میں ایک لاکھ 40 ہزار ہندوستانی باشندوں نے نطاقات پروگرام کے تحت اپنا اصلاح حال کرایا ۔ اس کام میں سماجی کارکنان نے اہم رول ادا کیا ۔ غضنفر نے کہا کہ 1450 ہندوستانی باشندے سعودی جیلوں میں قید ہیں جن میں اکثریت چھوٹے جرائم یا جرمانے کی رقم کی ادائیگی کی خاطر جیل سے رہائی کی منتظر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری سماجی تنظیمیں اگر متحدہ طور پر ایمبسی سے نمائندگی کرے اور سفیر ہند حکومت سعودی سے نمائندگی کریں تو ان ہندوستانی باشندوں کو جیل سے رہائی مل سکتی ہے ۔

ایک مقامی ریسٹورنٹ میں منعقد اس تقریب میں ریاست ہبار سے تعلق رکھنے والے باشندوں کی بڑی تعداد کے علاوہ ریاست بہار کی مختلف سماجی تنظیموں کے اراکین اور ریاض کی دیگر سماجی تنظیموں نے اراکین نے بھی شرکت کی ۔ صدر تنظیم ہم ہندوستانی محمد قیصر نے تنظیم کی جانب سے بسواس کے چیرمین عبدالرحمن کو تہنیت پیش کرتے ہوئے انہیں روایتی شال پیش کی ۔ احسن ندوی نے نظامت کے فرائض انجام دیئے ۔ آخر میں طارق نورالحسن کے ہدیہ تشکر پر اس محفل کا اختتام عمل میں آیا۔