داعش کے خلاف صف آرائی

تلمیذ احمد

سیاسی بحران کا پیش خیمہ
جاریہ سال اگست کے ابتدائی دنوں سے اکتوبر کے دوسرے ہفتے تک اتحادی افواج نے عراق پر 550 فضائی حملے کئے ہیں جبکہ شام نے 23 ستمبر سے 15 اکتوبر تک 15,000 فضائی حملے کئے ہیں ۔ آج بھی اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا (آئی ایس آئی ایس) ان اتحادی افواج کے نشانے پر ہیں ۔ مسلسل انھیں نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن اس کے باوجود یہ فورسس یعنی آئی ایس آئی ایس شام اور عراق کے بہت سے حصوں پر اپنا کنٹرول قائم کرتی جارہی ہیں ۔

یو ایس داخلی امور کے ایک تجزیہ نگار جیمس رسل کا کہنا ہے کہ یو ایس ان علاقوں پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے ۔ اسی وجہ سے وہاں بم باری کررہا ہے اور بے تحاشہ دولت لٹارہا ہے اور ساتھ ہی سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال کررہا ہے‘‘ ۔ جبکہ اس کے اتحادی ممالک اس کارروائی سے بہت زیادہ خوش نہیں ہیں اور ان کا اعتبار بھی یو ایس پر سے اٹھتا جارہا ہے ۔ وہ اپنے ایجنڈے پر توجہ مرکوز کررہے ہیں جو یو ایس کی ترجیحات سے بالکل مختلف ہیں ۔
ترکی کا مفاد :۔ کوبان پر قبضہ یو ایس کی قیادت والی اتحاد افواج کی ناکامی کا نتیجہ بن کر ڈرامائی طور پر سامنے آیا ہے ۔ یہ شہر کُردوں کے علاقے میں شام کی سرحد پر واقع ہے ۔ جسے 16 ستمبر سے آئی ایس آئی ایس نے اپنے قبضے میں لے لیا ہے ،کم و بیش 200,000 کرُد پناہ گزین ترکی میں داخل ہوچکے ہیں جبکہ بقیہ آبادی کو اس بات کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے کہ اگر آئی ایس آئی ایس یہاں قبضہ کرلیتی ہے تو یہاں قتل و خون کا بازار گرم ہوسکتا ہے ۔ علاقائی پلیئرس کے مفاد پیچیدگی کا شکار ہوچکے ہیں ۔ ترکی کی دلچسپی اس بات میں ہے کہ اسپیشل کرد فورسیس جو شام میں ہیں وہ ڈیموکریٹک یونین پارٹی (پی وائی ڈی) سے تعلق رکھتی ہیں ۔ اور ان کا الحاق ڈومسٹک کردش پارٹی ہے ، جو کردش ور کرس پارٹی (پی کے کے) کہلاتی ہیں ، جو گزشتہ کئی دہائیوں سے ترکی اسٹیٹ کے خلاف خون خرابہ کی مہم میں سرگرم عمل ہیں ۔ حالانکہ اب اس نے اپنے مفاد سے دست کشی اختیار کرلی ہے ، لیکن کُردوں کا ایشو آج بھی ان کے لئے کافی اہمیت کا حامل ہے ۔ علاوہ ازیں ایک دوسری پیچیدگی بھی وہاں پائی جاتی ہے اور وہ یہ کہ بشار الاسد حکومت گزشتہ چند برسوں سے ڈیموکریٹک یونین پارٹی (پی وائی ڈی) کی حمایت کرتی آرہی ہے ، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ ترکی کے خلاف طاقت کو متوازن رکھنا چاہتی ہے ۔ اب موجودہ منظرنامے میں ترکی نے اپنا مفاد ڈھونڈنا شروع کردیا ہے اور اس نے آئی ایس آئی ایس کے خلاف نبرد آزما ہونے کی بجائے دمشق میں حکمرانی کی تبدیلی میں دلچسپی لینا شروع کردیا ہے ۔ اتحادی افواج میں اس نے اپنی شمولیت کی شرط یہ رکھی کہ شامی ایرفورس کے لئے وہاں فلائی زون نہ بنایا جائے اور بفر زون اس کے بارڈر پر شام کے ساتھ بنایا جائے ۔ جو شام کے حدود میں 40 کلومیٹر تک جائے گا جہاں کرد پناہ گزین پناہ لئے ہوئے ہیں اور ساتھ ہی باغی جنگجوؤں کو بھی وہاں پناہ دی جائے ۔

پیر یعنی 20 اکتوبر کو اچانک ترکی نے یہ اعلان کردیا کہ وہ اسلحوں اور ہتھیاروں کی سربراہی کی اجازت دے گا اور ہتھیار کوبان میں کرد فورسس کو سربراہ کئے جائیں گے اور وہ کرد فوجیوں کو عراق سے شام میں داخل ہونے کی بھی اجازت دے گا ۔ جب اس فیصلہ کا اعلان ہوا اس کے بعد طیب اردغان اور بارک اوباما نے اس مسئلے پر ٹیلی فون پر گفتگو کی ہے ۔ اس طرح کی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ یو ایس نے ترکی کے تمام مطالبات نہ سہی لیکن اس کے بیشتر مطالبات تسلیم کرلئے ہیں ۔ حالانکہ اس مداخلت کے طویل المدتی پیچیدگیوں کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر اگر ترکی افواج کو بشار الاسد حکومت کی بیخ کنی کے لئے اکسایا جائے تو اس بات کے امکانات پائے جاتے ہیں کہ ایران کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے اپنے اسٹرٹیجک پارٹنر کو بھی دست کشی کی اجازت دے دے گا ۔ ایک بار پھر کوبان پر قبضہ کردوں کے لئے خاص اہمیت کاحامل ہے ۔ ان کا آئی ایس آئی ایس کے خلاف سخت جارحانہ اقدام جو گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری ہے ، وہ کردوں کی بقاء کی علامت کے طور پر دیکھا جارہا ہے ۔ اور اسے حب الوطنی کی علامت اور شناخت کے طور پر دیکھا جارہا ہے ۔ یہ بعد میں ترکی کی کوششوں کو دھکا لگنے کے مترادف قرار دیا جارہا ہے جو کردوں کے ساتھ قوم پرستی اور ریاست کے قیام کے طور پر دیکھا جارہا ہے ۔

ناکام اسٹرٹیجی :
یہ بات واضح ہے کہ جاریہ ملٹری ایکشن وسیع پیمانے پر کامیاب اسٹرٹیجی طے نہ کئے جانے کی علامت کے طور پر دیکھا جارہا ہے کیونکہ طویل المدتی لائحہ عمل اس مہم کے لئے طے نہیں کیا گیا ہے ۔ یہاں تک کہ امریکہ کی اتحادی افواج کے ساتھ اتفاق رائے کی بھی کمی نظر آرہی ہے ۔ کیونکہ ان کے اہم ترین مفاد پر ان ممالک کی اتفاق رائے نہیں ہے ۔ حالانکہ امریکہ کا مقصد صاف ہے کہ وہ جہادی عناصر کو ختم کرنا چاہتا ہے ۔ وہ انھیں نشانہ بنائے ہوئے ہے جس کی نمائندگی القاعدہ کرتا ہے۔ حالانکہ امریکی پارٹنرس سعودی عرب کے دوسرے مفادات پوشیدہ ہیں ۔ ان کی ترجیحات میں دمشق میں اقتدار کی تبدیلی شامل ہے ۔ وہ جبہت نصرہ کو اسد حکومت کے خلاف ایک مضبوط طاقت تصور کرتے ہیں ۔ اتحادی افواج کی مقامی افواج کی آئی ایس آئی ایس کے خلاف تیاری جو زمینی ایکشن کے طور پر کی جانی ہے ، وہ بھی غیر یقینی صورتحال کی شکار ہوچکی ہے ۔ عراق میں ماڈرن ، پروفیشنلس ، غیر نسلی افواج کی ڈیولپمنٹ کے لئے بہت ہی وسیع سیاسی ماحول کی ضرورت ہے جو کہ وہ ملک دس برسوں میں ایسا ماحول نہیں بنا پایا ہے ۔ شام میں اس طرح کی فورسس کی تیاری کافی مشکل ہوگی کیونکہ ملک پہلے سے ہی سیکڑوں ہم مقابل ملیشیا کا سامناکرتا آرہا ہے ۔ جہاں پر عقیدے اور مسلک کے نام پر جنگی خطوط کھینچے جاچکے ہیں جبکہ سعودی عرب کے ممالک سلفی ملیشیا کی حمایت کرتے نظر آرہے ہیں ، جو جہادی عناصر سے جڑے ہوئے ہیں ۔
بیشتر سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی ایس پر زمینی حملوں کے ذریعہ ہی قابو پایا جاسکتا ہے ۔ وائٹ ہاؤس اس طرح کے کسی بھی نقصان کے لئے تیار نہیں ہے جبکہ سعودی عرب ممالک کو اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں اس طرح سے ایک بڑا طبقہ آئی ایس آئی ایس کی آئیڈیالوجی سے ہمدردی نہ کرنے لگے اور اس میں شامل ہونے کی خواہش نہ ظاہر کرنے لگے ۔ درحقیقت حالیہ سرویز نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ سعودی عرب ممالک کو ہی جنگ کی قیمت چکانی پڑے گی اور اس تنازعہ کا سب سے زیادہ فائدہ ایران کو حاصل ہوگا اور اس جنگ کے بعد غیر یقینی کیفیات کا پیدا ہونا یقینی ہے ۔
(بشکریہ روزنامہ دکن کرانیکل)