دنیا بھر میں امن و امان کی صورتحال انتہائی ابتر ہوتی جارہی ہے لیکن اس صورتحال کے خاتمہ کے بجائے عالمی ادارہ کی جانب سے اختیار کردہ رویے کے سبب ممکن ہے کہ دنیا مزید ابتر صورتحال کا شکار ہوجائے، چونکہ داعش ، القاعدہ ، بوکوحرم جیسے تنظیموں کے خاتمہ کیلئے جو اتحاد تشکیل پارہے ہیں، ان میں ایسے ممالک شمولیت اختیار کر رہے ہیں جو کہ سابق میں کسی جنگی کارروائی کا حصہ نہیں تھے لیکن ان کی جانب سے داعش کے خلاف تیار کئے جارہے محاذ میں شمولیت ان کیلئے خطرات کا باعث بن سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے جو رویہ اس مسئلہ پر اختیار کیا گیا ہے ، وہ غیر متوقع نہیں ہے لیکن جو اتحادی ممالک امریکہ کے ساتھ داعش کے خلاف کارروائیوں میں شامل ہورہے ہیں، وہ حیرت انگیز نظر آرہا ہے۔
داعش کی کارروائیوں کی ابتداء کے ساتھ ہی عراق میں ایران نے راست اور بالواسطہ مداخلت کا آغاز کرتے ہوئے داعش کے خلاف دنیا کو متحد ہونے کی دعوت دی تھی لیکن آج دنیا داعش کے خلاف متحد ہوچکی ہے مگر اس اتحاد کے داعی ایران کو ہی اس عظیم اتحاد میں شامل نہیں رکھا گیا بلکہ ایران جو کہ شام میں بشارالاسد حکومت کا سخت گیر حامی ہے اور حکومت کے مفادات کے تحفظ کیلئے کوشاں ہے، بشارالاسد کے خلاف ہونے والی کارروائیوں پر ایران کی جانب سے متعدد مرتبہ تنقیدیں کی جاچکی ہیں لیکن آج جو صورتحال پیدا ہوئی ہے ، اس میں ایران بھی مخمصہ کا شکار ہے کہ آخر کرے تو کیا کرے اور دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرواتے ہوئے مطالبات کو منظور کرانے کیلئے کس طرح کی منصوبہ بندی کی جائے چونکہ ایران نے یورانیم افزودگی اور جوہری صلاحیتوں کے مسئلہ پر دنیا کی چار بڑی طاقتوں کو مذاکرات کے لئے مجبور کرنے میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے دنیا کو یہ پیغام دیا تھا کہ اب ایران کی ان قوتوں میں شامل ہوچکا ہے جو فیصلہ کن جنگوں کی متحمل قرار دی جاتی ہیں لیکن داعش کی عراق میں اچانک شروع ہوئی کارروائیوں اور سرحدوں میں توسیع کے ساتھ شام میں داخلے نے دنیا کو چونکا دیا ہے اور داعش کے خلاف دنیا بھر میں ایک عظیم اتحاد تشکیل پاچکا ہے لیکن اس اتحاد میں ایران شامل نہیں ہے جس نے سب سے پہلے داعش کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تھا ۔
امریکی فضائیہ کے ساتھ ساتھ فرانس ، برطانیہ ، اسرائیل اور دیگر اتحادی ممالک کی جانب سے عراق پر جاری فضائی حملوں میں داعش کو ہونے والے نقصانات کا تخمینہ تاحال کسی قابل اعتماد ادارہ کی جانب سے جاری نہیں کیا گیا ہے لیکن ان حملوں کے دوران امریکی کانگریس کی جانب سے شام میں بشارالاسد حکومت کے خلاف باغیوں کو ہتھیاروں سے لیس کرنے کی منظوری دیئے جانے کی اطلاع نے نہ صرف اتحادی ممالک کو حیرت زدہ کیا ہے بلکہ جو بھی دنیا کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں ، انہیں اس بات کا اندازہ ہوچلا ہے کہ امریکہ درحقیقت داعش کے خلاف جنگ میں حصہ لینا اپنی مجبوری تصور کر رہا ہے چونکہ امریکی کانگریس کی جانب سے بشارالاسد کے خلاف سرگرم باغیوں کو ہتھیاروں سے لیس کرنے کی منظوری سے امریکہ کا دوغلہ پن واضح ہوچکا ہے۔ امریکی حکومت اتنی لاعلم بھی نہیں کہ شام میں جو باغی بشارالاسد کے خلاف محاذ آرائی میں مصروف ہیں، ان باغیوں نے عراق میں داعش کے رقہ پر قبضے کے اعلان کے ساتھ ہی النصرہ فرنٹ کے دولت اسلامیہ العراق والشام میں انضمام کا اعلان کردیا تھا اور امریکی کانگریس اب ان باغیوں کو ہی ہتھیار فراہم کرنے کو منظوری دے رہی ہے جو داعش کی نگرانی میں جنگ کر رہے ہیں۔
امریکہ داعش کو دنیا کے سامنے جتنے بڑے خطرے کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے، آیا واقعی داعش دنیا کیلئے اتنا بڑا خطرہ ہے ؟ اگر نہیں ہے تو پھر داعش کو اتنا بڑھا چڑھاکر پیش کرنے کی وجوہات کیا ہیں، جو امریکہ جیسی طاقتور حکومت کو اس کے خلاف محاذ آرائی پر مجبور کئے ہوئے ہیں۔ القاعدہ اور طالبان کے نظریات کو مکمل طور پر ختم کرنے میں مغربی دنیا کی ناکامی کے بعد جو حالات پیدا ہوئے ہیں ، ان میں مغربی دنیا نے یہ محسوس کیا کہ مغرب کی جانب سے نظریات کے خاتمہ کیلئے جو کوششیں کی جارہی ہیں اور ان میں جن انسانی زندگیوں کا اتلاف ہورہا ہے ، درحقیقت وہ بالواسطہ طور پر ایک مذہب کے ماننے والوں کو نشانہ بنانے کی کوشش ہے۔ امریکہ نے پاکستان کے علاقہ ایبٹ آباد میں ایک کارروائی کے دوران اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی توثیق کرتے ہوئے یہ محسوس کرنا شروع کردیا تھا کہ شائد اس ہلاکت کے بعد دنیا میں کوئی طاقت اس نظریہ کی حمایت نہیں کرے گی لیکن چند ہی دنوں میں جو صورتحال وزیرستان کی سرحدوں پر دیکھنے میں آئیں ، اس صورتحال نے امریکہ کو پاکستانی افواج کی مدد کے ذریعہ آپریشن ضرب عزب شروع کرنے پر مجبور کردیا ۔
پاکستانی و امریکی افواج کی جانب سے ان کارروائیوں کے دوران جن لوگوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے ، درحقیقت وہ بھی اسی نظریہ کو عام کرنے والے جو نظریہ قیامت کے قریب کے آثار میں موجود ہیں، دنیا نظام خلافت کی کتنی ہی مخالفت کیوں نہ کریں ، یہ نظام حکمرانی دنیا کے خاتمہ سے قبل بہر صورت قائم ہوکر رہے گا لیکن خلافت ایک ایسا لفظ ہے جس کی اپنی خصوصی اہمیت ہے اور اس لفظ کے ساتھ ہی احترام وابستہ ہوجاتا ہے مگر حالیہ ایام میں جس طرح سے اس لفظ کو ارزاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل میں قیام خلافت کی راہ میں موجودہ نام نہاد خلیفہ کے ذریعہ مذاق بنائے جائے۔ ممکن ہے کہ مغربی ممالک اور اسلام دشمن طاقتوں کو اس نظریہ میں اپنی تباہی نظر آرہی ہے لیکن یہ عقیدہ رکھنا بھی ضروری ہے کہ یہی ایک نظام حکمرانی ہے جس کے ذریعہ ہر کسی کے ساتھ انصاف ممکن ہے۔ اس بات کا احساس ان قوتوں کو بھی ہے جو بظاہر تو انسانی حقوق کی باتیں کرتی ہیں لیکن عملی میدان میں وہ انسانیت کا خون چوسنے میں مصروف ہیں۔ انہیں اس بات کا احساس ہے کہ اگر یہ نظام حکمرانی قائم ہوجاتا ہے تو شرق سے غرب تک انصاف اور امن و امان کی فضاء قائم ہوجائے گی ۔ ایسے میں ان کے تیار کردہ ہتھیار کسی کام کے نہیں رہیں گے اور وہ جس طرح غلامانہ ذہنیت رکھنے والوں کو سرحدوں کے اقتدار تفویض کردیا تھے، ایسا نہیں کرپائیں گے۔
حالیہ فضائی حملوں میں جو اطلاعات موصول ہوئی ہیں ان کے مطابق تین ڈرون طیارے ایک دن میں مارے گئے اور تین میں سے دو کا تعلق اسرائیل سے تھا جبکہ ایک امریکی ڈرون بھی عراقی فضائی حدود میں مارا گیا۔ اسرائیل کے جو طیارے مار گرائے گئے ہیں، ان میں ایک طیارہ گولان کی پہاڑیوں کے قریب حادثہ کا شکار ہوا ہے جو کہ شام کے حدود میں جبکہ دوسرا طیارہ شام اور عراق کی سرحد کے قریب مار گرایا گیا۔ اسی طرح امریکی طیارے کو نشانہ بنانے کی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ ان اطلاعات کے بعد امریکہ کے رویہ میں مزید سختی پیدا ہوئی ہے اور اتحادی ممالک کی افواج کی جانب سے فضائی حملوں میں شدت پیدا کردی گئی ہے لیکن کوئی بھی اتحادی مملکت یہ دعویٰ کرنے کے موقف میں نہیں ہے کہ فضاء سے گرنے والے بم صرف ان کو ہی نشانہ بنارہے ہیں جو دنیا کی تباہی کیلئے منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔ ایران کے متعلق امریکہ کے رویہ نے جو حالات پیدا کئے ہیں، اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جن حالات کا شکار آج عراق بنا ہوا ہے، کل امریکہ ایران کو بھی ان حالات کا شکار بناسکتا ہے، چونکہ داعش کے خلاف جدوجہد کی دعوت کے باوجود ایران کو یکا و تنہا کیا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ امریکہ اسرائیلی تسلط سے آزاد نہیں ہے چونکہ اسرائیل واحد مملکت ہے جو ایران کو اپنا ہی نہیں بلکہ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ملک تصور کرتا ہے ۔
امریکی صدر بارک اوباما کی جانب سے ہندوستان کو داعش کے خلاف اتحاد میں شامل کرنے کی دعوت دیئے جانے کے امکانات کا اظہار کیا جارہا ہے لیکن اگر ایسا ہوتا ہے تو شاید ہندوستانی حکومت اس دعوت کو قبول کرنے سے انکار بھی نہیں کرپائے گی چونکہ ہندوستان بھی ایک ایسی مملکت ہے جو دہشت گردانہ حملوں کا شکار رہی ہے۔ ہندوستان جس طرح کی دہشت گردی کا سامنا کر رہا ہے اس میں پڑوسی ممالک کی دراندازی کے علاوہ زعفرانی دہشت گردی بھی شامل ہے۔ وزیراعظم ہند کی جانب سے حالیہ عرصہ میں جاری کئے گئے بیان میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر مکمل اعتماد رکھتے ہیں، ان کے اس بیان کو مختلف تناظر میں دیکھا جارہا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ نریندر مودی جیسے سخت گیر نظریہ کے حامل شخص کی جانب سے اس طرح کا بیان ہندوستانی عوام کو چونکادینے والا ہے۔ بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران داعش کے علاوہ القاعدہ کی ہندوستانی سرحدوں میں سرگرمیوں سے متعلق جو اطلاعات منظر عام پر آئی ہیں ، ان اطلاعات کے سبب یہ بیان دیا گیا ہے جبکہ بعض کا کہنا یہ ہے کہ درحقیقت یہ بیان امریکی دورے سے قبل اس لئے دیا گیا ہے کہ ہندوستانی عوام کو اعتماد میں لیتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر ہندوستانی جمہوریت کو مستحکم انداز میں پیش کیا جاسکے۔ امریکی دورہ کے دوران اگر بارک اوباما کی جانب سے نریندر مودی کو داعش ، القاعدہ ، بوکوحرم جیسی تنظیموں کے خلاف موجود اتحاد میں شرکت کی دعوت دی جاتی ہے تو ایسی صورت میں ہندوستان کو دہشت گردی کے خلاف اپنے نظریہ کو پیش کرنا ضروری ہوگا بلکہ ایران کے ساتھ ہندوستان کی دیرینہ رفاقت بھی وزیراعظم نریندر مودی کے پیش نظر ہونی چاہئے لیکن ایسا اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب ہندوستان کی خارجہ پالیسی میں زعفرانیت کی جھلک نہ رہے۔ اقوام متحدہ کے سیکوریٹی کونسل اجلاس سے قبل اسرائیل کی جانب سے ایران کے متعلق انکشافات اور ترکی کی جانب سے مصر میں فوجی حکومت کو قبول کئے جانے پر برہمی کے اظہار کے علاوہ دیگر امور میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کو مزید اہمیت کا حامل بنادیا ہے۔ چونکہ موجودہ حالات میں اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس کے اقدامات دنیا میں قیام امن کے علاوہ مختلف ممالک میں پھیلی بے چینی کی کیفیت کو دور کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔