داعش کے خلاف امریکی جنگی جنون یقینی

محمد مبشرالدین خرم
خون مسلم کی ارزانی پر عالم اسلام کی خاموشی کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتاہے کہ مسلمان اپنی اہمیت و وقعت انتشار کے سبب کھوتے جارہے ہیں۔ عالم عرب میں پیدا شدہ حالات بالخصوص گزشتہ 60 برس سے زائد عرصہ سے فلسطین کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے مسلمان یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ مسجد اقصیٰ کی آزادی اور مسجد اقصیٰ کو مکمل طور پر بازیاب کرنے کیلئے عالم اسلام کا اتحاد ضروری ہے لیکن اس معاملہ میں عالم عرب کی غیر سنجیدگی سے ایسا لگتا ہے کہ عالم عرب کے حکمراں طبقہ کو فلسطین کے امور سے دلچسپی نہیں رہی۔ یہ بات ضرور ہے کہ مظلوم فلسطینیوں کی امداد کیلئے جزائر عرب میں موجود مملکتیں فراخدلانہ امداد کرتی ہیں لیکن کسی بھی قوم کو امداد آزادی نہیں دلاسکتی اور جو قومیں آزادی کیلئے جدوجہد کرتی ہے وہ امداد کی زندگی سے ایک وقت عاجز آہی جاتی ہیں اور مدد کرنے والوں پر مسلط کی گئی سازشوں کا انکشاف ہونے لگتا ہے ۔ غزہ میں ہزاروں معصوم فلسطینی بچے اسرائیلی افواج کے مظالم کا شکار ہوتے ہیں لیکن کوئی اقوام متحدہ کی آواز بلند نہیں ہوتی جبکہ مبینہ طور پر دہشت گردوں کی گولیوں کا شکار بننے والی ایک ملالہ کیلئے انسانیت کی دہائی دینے والے ممالک متحدہ طور پر واقعہ کی مذمت کرنے لگتے ہیں۔

روزانہ سینکڑوں ملالہ اسرائیل ۔فلسطین کی سرحد پر اسرائیلی افواج کی گولیوں کا شکار ہورہی ہیں لیکن ان دہشت گردوں کی دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کرنے والا کوئی نہیں بلکہ فلسطینیوں کی امداد و اظہار یگانگت کے ذریعہ یہ تصور کیا جانے لگا ہے کہ اس سے ہماری ذمہ داریاں ختم ہوجائیں گی۔ جزیرۃ العرب اور مشرق وسطی کے دیگر علاقوں میں موجودہ صورتحال کے دوران کسی کی نظر فلسطین کی جانب نہیں جارہی ہے جہاں پر روزانہ سینکڑوں فلسطینی اسرائیلی افواج کی دہشت گردی کا شکار بن رہے ہیں ۔ گزشتہ ماہ تین اسرائیلی نوجوانوں کے اغواء کے بعد سے اسرائیلی افواج غزہ ، رملہ کے علاوہ دیگر فلسطینی علاقوں میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں مصروف ہیں لیکن کوئی انہیں روکنے والا نہیں ہے۔ تین یہودی نوجوانوں کے اغواء کی قیمت 300 سے زائد مسلم نوجوانوں کی زندگی نے چکا دی ہے لیکن گزشتہ دنوں جب ان تین یہودی نوجوانوں کی نعشیں برآمد ہوئیں تو ایک مرتبہ پھر اسرائیلی افواج درندگی پر اتر آئی۔ عالم عرب بالخصوص طاقتور عرب ممالک اسرائیل کی اس درندگی پر احتجاج کرنے سے قاصر نظر آرہے ہیں جس کی بنیادی وجہ امریکی تسلط ہے۔

عراق و شام میں جاری حالات کے دوران الدولۃ الاسلامیہ فی العراق والشام نے جنگی حالات کو انجام تک پہنچائے بغیر اسلامی خلافت کا اعلان کرتے ہوئے جس عجلت کا مظاہرہ کیا ہے اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جو گروہ عالم اسلام کی نجات کیلئے اٹھے گا ، اس گروہ کی آمد سے قبل پیدا شدہ شورشیں شروع ہوچکی ہیں اور عالم اسلام کے نجات دہندے کی آمد کا تصور جو دین اسلام میں موجود ہے۔ اس نجات دہندے کے استقبال کے لئے دنیا تیار ہونے لگی ہے ۔ غزوۂ شام کے بعد جو حالات پیدا ہونے ہیں ان کے مطابق عالمی سطح پر بڑے پیمانہ پر قتل و غارت گری کا عمل ہوگا اور مسلمانوں پر ہر طرف سے مظالم ڈھائے جائیں گے۔ عراق ، شام ، فلسطین ، لیبیا ، لبنان ، اردن ، مصر کے علاوہ میانمار، یوکرین ، کینیا اور چین میں جس انداز سے مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی اس حالت کے لئے کوئی اور نہیں بلکہ مسلمانوں کے اندر پیدا کئے گئے مسلکی اختلافات ذمہ دار ہیں۔

داعش جو کہ عالمی سطح پر مسلمانوں کی ہیرو تنظیم کے طور پر پیش کی جانے لگی تھی، نے اسلامی خلافت کا اعلان کرتے ہوئے یہ پیغام دیا کہ وہ نہ صرف ان اختلافات کو ہوا دینے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے بلکہ امریکی سازشوں سے وہ بھی محفوظ نہیں ہے۔ جس عجلت میں اسلامی خلافت کے قیام کا اعلان اور خلیفہ کے انتخاب کی بات کہی گئی ہے، اس سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ داعش نہ صرف عراق اور شام کے درمیان موجود سرحد کو مٹانے کیلئے جدوجہد کر رہی ہے بلکہ داعش کی قیادت کا مقصد القاعدہ و طالبان جیسی عسکری تنظیموں کی قیادت بھی حاصل کرنا ہے ۔ امریکہ جو کہ طالبان و القاعدہ کے خاتمہ کیلئے جنگی حکمت عملی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے تباہی کی طرف گامزن ہوچکا ہے ۔

اب ایک اور مصیبت اپنے لئے کھڑی کرنے جارہا ہے اور یہ مصیبت امریکہ کی مزید تباہی کا سبب بن سکتی ہے چونکہ امریکہ مسلکی بنیادوں پر جزیرۃ العرب اور اس کے اطراف و اکناف کے ممالک بالخصوص ایران ، شام ، لبنان ، اردن ، مصر کو منقسم رکھنے کی سازش کے تحت جو خانہ جنگی کی صورتحال ان علاقوں میں پیدا کرچکا ہے وہ اب امریکہ کیلئے پریشانی کا باعث بننے لگی ہیں۔ امریکہ کو درپیش مشکلات کا اندازہ نہ صرف امریکہ کو ہوچکا ہے بلکہ حلیف تصور کی جانے والی مملکتیں بھی اپنے صیانتی امور کا جائزہ لینے پر مجبور ہوچکی ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ جو کہ امریکی و اسرائیلی مفادات کے تحفظ کیلئے خدمات انجام دینے کا ریکارڈ رکھتا ہے ، اس نے جس انداز سے حالات کو پیش کرنا شروع کردیا ہے، جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ بہت جلد داعش کے خلاف جنگی جنون کا مظاہرہ کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرے گا ۔ عالم اسلام کے مسلمانوں کو قیام خلافت اسلامیہ کی صورت میں جو خوشی ہونی چاہئے ، ان میں وہ خوشی محسوس نہیں کی جا رہی ہے

جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جنگ و جدال حق و باطل کی معرکہ آرائی اور قانون خالق کائنات کے نفاذکی راہیں اتنی آسان نہیں ہیں۔ اگر داعش قیام خلافت کے لئے سنجیدہ جدوجہد کی حامی ہیں اور واقعی خلافت اسلامیہ کا قیام اس کا مقصد تھا تو وہ اپنے مقبوضہ علاقوں پر خلافت اسلامیہ کا اعلان کرنے کے بجائے عالمی سطح پر جن مقامات پر مسلمان پریشان حال ہیں ، ان مقامات تک اپنی رسائی کو یقینی بناتی تاکہ ان کے مسائل کو دور کرتے ہوئے انہیں مصائب و آلام کی زندگی سے نجات دلائے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ عالم اسلام کا قبلۂ اول اور فلسطینی عوام کے مسائل اب بھی جوں کے توں برقرار ہیں۔ یو ایس اے ٹوڈے میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق عراق کی تین حصوں میں تقسیم واحد حل کے طور پر پیش کی گئی لیکن ترکی ، مصر اور ایران تینوں ممالک میں عراق میں علحدہ کردستان کے قیام کو مسترد کرتے ہوئے تقسیم عراق کیلئے پیش کئے جانے والے جواز کو ختم کردیا ہے۔ عراقی عوام جو کہ داعش کے زیر تسلط علاقوں میں قیام کئے ہوئے ہیں، ان کا یہ احساس ہے کہ وہ داعش کی حکمرانی میں فی الحال تو محفوظ ہیں چونکہ گزشتہ برسوں کے دوران ان پر نورالمالکی کی افواج جو مظالم ڈھائے ہیں، وہ انتہائی کربناک تھے ۔ اسی طرح کے احساسات جریدہ العربیہ میں شائع ایک انٹرویو میں ایک عراقی نوجوان نے پیش کرتے ہوئے کہا کہ داعش کے مقبوضہ علاقوں میں وہ آزادانہ زندگی گزارنے کے موقف میں ہیں، چونکہ سابق میں وہ اپنے مسلک کی بنیاد پر اکثر شکار بنتے آئے ہیں۔ الدولۃ الاسلامیہ فی العراق والشام کی جانب سے قیام خلافت کے اعلان پر جو ردعمل ظاہر کیا گیا ہے،

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نہ صرف جزیرۃ العرب بلکہ دنیا کے دیگر خطوں میں بھی داعش کے اس اقدام کو مسترد کردیا گیا ہے۔ داعش کس اعتبار سے جدوجہد کر رہی ہے، وہ صحیح ہے یا نہیں اس کے فیصلے زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے کرنے چاہئے لیکن خلافت اسلامیہ کے قیام کے اعلان میں عجلت اور قیادت کی خواہش نے داعش اور القاعدہ کے عسکری گروپوں میں اختلافات کی اطلاعات کو بڑی حد تک مصدقہ قرار دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ فلسطین کے حالات پر مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے اختیار کردہ مجرمانہ خاموشی کا جائزہ لیتے ہوئے عالم عرب کو چاہئے کہ وہ فوری طور پر فلسطین اور مسجد اقصیٰ کے متعلق اپنا ایک نکاتی ایجنڈہ تیار کریں اور اسرائیل کے غاضبانہ تسلط سے فلسطین کو آزاد کرواتے ہوئے مسجد اقصیٰ کی حرمت کو مزید پامال ہونے سے بچائیں۔ مسلمان اگر اپنے مذہبی فریضہ کو محسوس کرتے ہوئے مظلوم کی آہ پر لبیک کرنے لگے اور ظالم کے تسلط سے مظلوم کو آزاد کروانے کی جمہوری جدوجہد کا حصہ بنیں تو ان میں بھی یہ احساس پیدا ہوگا کہ قبلہ اول کی رہائی بھی ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔عالم اسلام کے خلاف سازشیں کرنے والے جو کل تک مسلمانوں کو نشانہ بنانے کیلئے یہ نہیں دیکھا کرتے تھے کہ وہ کس مسلک و فرقہ سے تعلق رکھنے والا ہے بلکہ مسلمان کو نشانہ بنانا ان کا مقصد ہوا کرتا تھا لیکن مسلمانوں میں دیکھے جارہے اجتماعی جمود کو محسوس کرتے ہوئے دشمنان اسلام نے عرب و عجم کے علاقوں میں مسلکی بنیاد پر تقسیم کے عمل کا آغاز کیا ہے جس کا اثر دنیا کے ان تمام علاقوں میں محسوس کیا جارہا ہے جہاں پر ان مسلکوں کے ماننے والے موجود ہیں۔ اس نازک وقت میں اگر مسلمانان عالم اپنے فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دشمانان اسلام کے خلاف متحدہ طور پر جدوجہد کرتے ہیں تو اس کے نہ صرف مثبت نتائج برآمد ہوں گے بلکہ عالم اسلام کی علحدہ طاقتور شناخت کے بننے میں بھی کوئی وقت نہیں لگے گا۔ چونکہ دنیا میں قیام امن کے دعویدار امریکہ کے حقیقی چہرے پر سے نقاب الٹاجانے لگا ہے اور موجودہ صدر امریکہ کو دوسری عالم جنگ عظیم کے بعد سے اب تک کے صدور میں سب سے ناکارہ صدر تصور کیا جانے لگا ہے اور امریکی عوام خود صدر امریکہ کو ناکارہ تصور کر رہے ہیں۔
infomubashir@gmail.com