خیالی جنون

ڈاکٹر مجید خان
میں نے ہمیشہ سے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ سارے نفسیاتی امراض کو دو زمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ ایک تو ہے علانیہ جنونی اور دوسرا پوشیدہ اور خاموش جنونی ۔ پہلا جنونی ہے جو ہم لوگوں کو بدنام کیا ہے اور اسکی وجہ سے سارے پاگل خانے دنیا بھر میں قائم ہوئے اور پاگل خانوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں سے ملنا معیوب سجھا جاتا تھا اور کچھ کچھ آج بھی یہی صورتحال ہے چنانچہ جو غیر شادی شدہ ماہر امراض نفسیات ہیں بقول ان کے لوگ رشتہ کرنے سے جھجھکتے ہیں ۔ لوگوں کا یہ تصور ہیکہ صبح شام پاگلوں کو دیکھنے اور ان کی صحبت میں رہنے سے بیماری کا اثر ڈاکٹر پر بھی پڑتا ہوگا ۔ کالج کے زمانے میں چارمینار کے اطراف دیواروں پر بڑے بڑے اشتہارات دیکھا کرتا تھا ، کسی ڈاکٹر مسرا کے شرطیہ علاج کے تعلق سے ۔ اشتہار میں یہ لکھا ہوا ہوتا تھا کہ پاگلوں کا شرطیہ علاج ۔ میں دنیا میں کسی کو پاگل نہیں چھوڑوں گا ۔ کسی منچلے نے اسکے نیچے یہ جملہ بڑھا دیا تھا ’’سوائے میرے‘‘ ۔ پرانے زمانے میں دیواروں پر ہی اشتہارات لکھے جاتے تھے ۔

ایک وہ پاگل جو ہنگامہ مچادیتا ہے اور آناً فاناً ایک غیرت دار اور مہذب انسان جاہل بن جاتا ہے اور ایسی ایسی حرکتیں کربیٹھتا ہے کہ جب وہ ہوش میں آتا ہے تو تاحیات شرمندہ رہتا ہے ۔ چنانچہ میرے ایک کامیاب مریض ہیں جن کا علاج 40 سال سے میں کررہا ہوں ۔ پہلی مرتبہ تشدد پر اتر آئے جب وہ انجینئرنگ کالج میں پڑھا کرتے تھے ۔ خاندان میں ایسے کئی کیسس cases ہوچکے تھے اس لئے ان کے والد ابتدائی علامات نظر آتے ہی رجوع ہوگئے ۔ یہ بیماری جنگل کی آگ کی طرح بہت تیزی سے بے قابو ہوجاتی ہے اور بعض اوقات زنجیروں سے باندھ دینے کی نوبت تک آجاتی ہے ۔ مگر یہ شخص پہلے دورے کے بعد ہی علاج کا مرید ہوگیا اور تاکید کے مطابق علاج پابندی سے کرواتا رہا ۔ ایسے لوگ بہت عقلمند اور محنتی ہوتے ہیں اور زندگی کی کامیابی کے زینوں پر تیزی سے چڑھتے ہیں چنانچہ انہوں نے بھی اپنی ملازمت میں آخری درجے تک ترقی کی اور اپنی اولاد میں بھی کچھ نفسیاتی نقص ان کو نظر آیا تو مشورہ ضرور کیا کرتے تھے ۔

اتنے سمجھدار مریض کم ہوا کرتے ہیں ۔ ان کا خود کہنا ہیکہ ایک دو دن بھی دوا نہ لیں تو طبیعت خراب ہوجاتی ہے ۔ گھر اور دفتر میں برہنہ پھرنے کے واقعات ہوتے ہیں ۔ مگر میری زیادہ دلچسپی خاموش جنون میں ہے ۔ یہ لوگ اپنے خاندان کے جنون میں گھرے ہوئے رہتے ہیں اور ماہر امراض نفسیات سے ملنے سے گریز کرتے رہتے ہیں ۔ چند دن پہلے دماغی صحت کا عالمی دن منایا گیا ۔ اس ضمن میں اندرا پریہ درشنی ہال میں حیدرآباد کے ماہرین نفسیات کی جماعت نے ایک جلسہ عوام کی معلومات کیلئے منعقد کیا اور مجھے صدارت کے لئے مدعو کیا ۔ کئی ماہرین نفسیات نے کہا کہ آج بھی لوگ ماہر نفسیات سے مشورہ کرنا ایک سماجی دھبہ سمجھتے ہیں یعنی کسر شان اور انگریزی میں اس کو Stigma کلنک کا ٹیکہ کہا جاتا ہے ۔

میں نے ان لوگوں سے اختلاف کیا ۔ یہ احساس آج بہت کم ہوچکا ہے اور کامیاب ڈاکٹروں کے پاس ہجوم لگا رہتا ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک میں اپنے ماہر نفسیات سے وقتاً فوقتاً مشورہ کرتے رہنا باعث فخر مانا جاتا ہے ۔ مگر بیماری سے انکار کا مرض بہت عام ہے ۔ ہمارے ہاں بھی پیڑھیوں سے نفسیاتی مشوروں کیلئے لوگ آتے ہیں اور جن کو ضرورت ہو وہ نہیں آتے ۔ اسکی وجہ تکلف نہیں بلکہ ’’انکار مرض‘‘ ہے ۔ اس میں قریبی سرپرست بھی برابر کے خاطی ہیں ۔ ابتدائی علامتوں کو نظر انداز کرتے ہیں ۔ آسیب وغیرہ کو بآسانی ان کا ذہن قبول کرلیتا ہے ۔
مگر آج کل نت نئے مسائل دیکھنے میں آرہے ہیں ۔ ایک خاتون جو پرانے شہر میں بڑی ہوئی ، اعلی تعلیم حاصل کی اور ایک انجینئر سے شادی کے بعد شہر کے نئے مقامات میں خوشحال زندگی گذارنے لگی ۔ حیدرآباد کے اطراف کئی ایسی نئی بستیاں آباد ہوگئی ہیں جن کو مقفل یا محصور یعنی Gated community کہا جاتا ہے ۔ پرانے شہر میں سب کے درمیان رہنے والی لڑکی بڑی ہمت اور خوشی سے یہاں پر رہنے لگی مگر ہجوم میں جو غیر شعور طور پر احساس تحفظ میسر تھا وہ نہیں رہا ۔ اس نوعیت کی تبدیلی اور نقل مقام کے لوگ آہستہ آہستہ عادی ہوجاتے ہیں مگر غیر معمولی حالات میں یہ ایک نفسیاتی کیفیت بن کر ابھر آتا ہے ۔ چنانچہ اس مریضہ میں بھی ایسا ہی ہوا ۔

اسکے پڑوس میں اسی کی طرح ایک پیشہ ور انجینئر کا خاندان تھا ۔ میاں بیوی ، ایک لڑکا جو انجینئرنگ کا طالب علم تھا اور لڑکی کالج میں پڑھ رہی تھی ۔نہ جانے ان کے کیا مسائل تھے ۔ ایک دن دوپہر میں جب پرانے شہر والی خاتون اکیلی تھی ، باہر کچھ ہنگامہ ہونے کی آوازیں آئی تو یہ بھی باہر گئی تو پڑوس کا دروازہ کھلا تھا ۔ لوگ جوق در جوق آ جارہے تھے اور ڈرائنگ روم میں چار لاشیں لٹکی ہوئی تھیں ۔ یہ بھیانک منظر اس بیچاری کے ذہن میں نقش ہوگیا ۔ فوراً شوہر کو بلایا ، وقت کی گھڑی تو رکتی نہیں اور واقعہ آیا گیا ہوگیا مگر اس کیلئے نہیں ، راتوں کی نیند حرام ہوگئی ۔ دن میں اکیلا رہنا مشکل ہوگیا تھا ۔ کئی ماہ تک تو واپس پرانے شہر چلی گئی ۔ دن بھر بے چینی اور بے قراری سے پریشان رہا کرتی تھی ۔ کچھ دوائیں تجویز کی گئی جن سے وقتیہ فائدہ ضرورہوا مگر مجموعی طور پر ہیبت زدہ رہنے لگی ۔ اس کی شخصیت کا جب میں نے تجزیہ کیا تو پتہ چلا کہ وہ بڑے حساس مزاج کی عورت ہے اور ہمیشہ سے غیر ضروری خیالات اس کو پریشان کرتے تھے ۔

میں نے پھر اس سے پوچھا اور سمجھایا کہ آپ کے گھر میں بھی چار لوگ ہیں اور آپ کو ایک اندرونی ڈر ہوگیا ہے کہ کیا اس قسم کاواقعہ آپ کے گھر میں بھی پیش آسکتا ہے اور اگر ایسا ہو تو پھر کسی کو کانوںکان خبر نہ ہوگی ۔ دونوں مکانوں کے درمیان ایک ہی دیوار تھی اور ایک طرف اجتماعی خودکشیوں کی وارداتیں ہورہی تھیں اور دوسری طرف پڑوس میں کسی کو پتہ بھی نہیں چلا ۔ جب یہ سب سوچتی ہے تو سارے جسم میں انتہائی سردی کی لہر چلتی ہے جو اس کو تقریباً معذور کردیتی ہے ۔
اس کے خدشات دماغ میں منجمد تھے ۔ گو کہ شوہر بہت چاہنے والا تھا مگر اندرونی شکوک و شبہات بھرا دماغ یہ کہہ رہا تھا کہ ایسا ہی واقعہ تمہارے گھر میں بھی ہوسکتا ہے ۔ شوہر کو شک کی نظر سے دیکھنے لگی مگر کیسے اس کا ذکر کسی سے کرسکتی تھی ۔ شوہر قریب آنے پر اس کو ڈر ہونے لگا تھا ۔ اس کو ایک قسم کی ہیبت ہوا کرتی تھی اور ڈر کی اصل وجہ اس کو معلوم نہیں تھی ۔
ان منجمد خدشات کو ، سب کے سامنے اور ایک محفوظ دواخانے کے ماحول میں جب پگھلایا گیا تو ان کو صحیح اور موزوں الفاظ کے جامے میں پیش کرنے سے اس کو اپنے بے جا خوف کی وجہ سمجھ میں آئی ۔ وہ اپنے ڈر اور خوف کو الفاظ میں ڈھالنے سے بھی خوفزدہ تھی اور میں نے اس کی مشکل حل کردی ۔ شوہر اور بچوں کے سامنے کھل کر ان حالات پر گفتگو ہوئی تو وہ روتی بھی اور ہنستی بھی اور نفسیاتی علاج شروع ہوگیا ۔ اس جمع ہوئے مواد کو نکالنا ضروری علاج کا عمل ہے ۔