خوش ادا کی طرح خوش بیاں کی طرح

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری        خیر اللہ بیگ
ٹی آر ایس حکومت کی قسمت جاگ گئی ۔ ورنگل ضمنی انتخابات میں کامیابی کے بعد چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی کارکردگی پر اٹھنے والی اپوزیشن کی انگلیاں بھی نیچے ہوگئی ہیں ۔ رائے دہندوں نے ٹی آر ایس پر ہی بھروسہ کرتے ہوئے زیادہ کامیاب بنایا ہے کہ ان کے مسائل حل ہوجائیں گے ۔ چیف منسٹر ریاست تلنگانہ نے عوام کو جو خواب دکھائے ہیں اس کے عین مطابق بھی عوام یہ سمجھ رہے ہیں کہ ایک دن تبدیلی ضرور آئے گی ۔ خاص کر شہر حیدرآباد کو اسمارٹ سٹی بنانے کا عزم رکھنے والے چیف منسٹر واقعی شہر کو اسمارٹ بنادیں گے جب شہریوں نے یہ توقع کر ہی لی ہے تو ایک صبح جب وہ اٹھیں گے تو دیکھیں گے کہ پورا شہر اسمارٹ ہوگیا ہے ۔ نہ کچرا ، نہ گندگی کے ڈھیر ، نہ غلاظت ، نہ بدبو ، نہ مکھیوں کی یلغار ، نہ مچھروں کا ڈر ، ٹریفک اژدھام نہیں ، کاروں کا دھواں نہیں بلکہ شہر ایک خوبصورت خوابوں کی صبح کا منظر پیش کررہا ہوگا ۔ لیکن جب شہری پوری طرح نیند سے بیدار ہوں گے تو انھیں وہی حقیقت ملے گی جو روزانہ وہ برداشت کرتے آرہے تھے ۔ ورنگل کے نتائج نے ٹی آر ایس کے نوجوان لیڈر کی مقبولیت میں اضافہ کردیا ہے جیسا کہ میں نے گذشتہ کالم میں لکھا تھا کہ چیف منسٹر چندرا شیکھر راؤ نے اپنے فرزند کے ٹی راماراؤ کو طاقتور بنانے اور انھیں اول دستہ لیڈر کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ اب ورنگل ضمنی انتخابات میں ان کی سرگرم مہم کے بعد ملنے والی پارٹی کامیابی نے انھیں مضبوط لیڈر کے طور پر ابھارا ہے ۔ درحقیقت یہ کے ٹی آر ہی تھے جنھوں نے پسنوری دیاکر کو ٹی آر ایس ٹکٹ دینے کے لئے زور دیا تھا اور وہ اپنی پارٹی کے بعض قائدین کے دباؤ کے باوجود دیاکر کو ہی نامزد کئے ہوئے پارٹی کی کامیابی کو یقینی بنانے میں اہم رول ادا کیا  ۔ اگرچیکہ انتخابی مہم میں چیف منسٹر نے کم ہی حصہ لیا مگر ان کی حکمت عملی کی وجہ سے پارٹی کارکنوں نے زبردست کام کیا ۔ ٹی ہریش راؤ اور کویتا اپنے حامیوں کو ٹکٹ دلانا چاہتے تھے ، کے ٹی آر نے اپنی مرضی کا سکہ چلا کر پارٹی کو زبردست کامیاب بنانے میں مدد کی ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ اپنے فرزند کی خوبیوں کو گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں بھی استعمال کریں گے ۔ حکومت نے کارپوریشن میں وارڈس کی حد بندی کے لئے قطعی اعلان جاری کردیا ہے ۔

ٹی آر ایس کو شہر میں زیادہ سے زیادہ کامیاب بنانے کے لئے ہر زاویہ سے کوشش کی جائے گی ۔ حکومت کے فلاحی اقدامات اور اسکیمات شہر حیدرآباد کو ترقی دینے کے منصوبوں سے عوام کو واقف کروانے کے لئے شہر کے مختلف مقامات پر ہورڈنگس ، بڑے اور چھوٹے اشہارات آویزاں کئے جارہے ہیں ۔ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے یہ انتخابات آئندہ سال 31 جنوری تک منعقد ہوں گے ۔ یہ انتخابات تمام بڑی سیاسی پارٹیوں کے لئے کرو یا مرو کی جنگ ثابت ہوں گے ۔ خاص کر حکمراں پارٹی ٹی آر ایس کو ریاستی صدر مقام حیدرآباد میں کامیابی حاصل کرنا وقار کا مسئلہ ہوگا ۔ جی ایچ ایم سی کے حدود میں 24 اسمبلی حلقہ ہیں ۔ ٹی آر ایس سربراہ نے شہر کو خوبصورت بنانے کا جو وعدہ کیا تھا اس کا امتحان ان انتخابات کے ذریعہ لیا جائے گا ۔ شہریوں کو ٹی آر ایس سے کتنی ہمدردی ہے یہ بلدی انتخابات ثابت کردیں گے ۔ کانگریس کو ورنگل میں بدترین ہزیمت اور اس سے قبل 2014 کے انتخابات میں ناکامی کا منہ دیکھنے کے بعد جی ایچ ایم سی انتخابات ایک اور موقع ہوں گے جہاں اسے اپنی موجودگی کا احساس دلانا ہوگا ۔ کانگریس کے سابق میں 52 کارپوریٹرس تھے

اور 2009-14 تک ان کارپویٹر نے شہر کی حلیف پارٹی سے مل کر ترقیاتی کاموں کا کاغذی جنازہ نکال دیا تھا ۔ اگر شہریوں کو اپنے بلدی مسائل سے دلچسپی ہے تو وہ کانگریس اور اس کی پرانی حلیف پارٹی کو ضرور سبق سکھائیں گے ۔ لیکن شہریوں سے ایسی کوئی توقع نہیں ہے کہ وہ اپنی ہوشمندی اور شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بلدی مسائل کو حل کرانے کی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرسکیں گے ۔ اردو کے اس شہر میں جہاں سرکاری ، بلدی ، عوامی مسائل ہیں وہاں اردو کی ترقی کے لئے سرکاری سطح پر اقدامات کا کوئی خاص تذکرہ نہیں ہوتا مگر اردو کے چاہنے والوں نے اپنی زبان کی ترقی و ترویج کے لئے اپنی کوششوں کو ہر وقت جاری رکھاہے ۔ اردو کی ترقی کے لئے اردو ایکسپو کا پروگرام منعقد کرتے ہوئے سنٹرل پبلک ہائی اسکول خلوت نے ادارہ سیاست کے باہمی اشتراک سے محبان اردو کے سامنے ایک متاثرکن جستجو کا مظاہرہ کرنے میں کامیابی حاصل کی ۔ اس ایکسپو کا مشاہدہ کرنے والوں نے طالب علموں کی صلاحیتوں اور تیاریوں کی دل سے ستائش کی ۔ احاطہ روزنامہ سیاست محبوب حسین جگر ہال میں منعقد اس ایکسپو کا اگر کسی نے مشاہدہ نہیں کیا ہے تو وہ اردو کی ترقی کے لئے محبان اردو کی ایک اچھی کوشش سے استفادہ کرنے میں ناکام رہے ۔ ایکسپو کے انعقاد کی ستائش کرتے ہوئے سینکڑوں محبان اردو ،اردو کے ممتاز شعراء کے تمثیلی مظاہرہ کو دیکھ کر نہ صرف دم بخود رہے بلکہ طلبہ کی اردو دانی ، شعر و سخن میں ان کے ماہرانہ مظاہرہ سے متاثر ہو کر یہ تاثر دیا کہ اردو جیتی جاگتی حقیقت کا روپ اختیار کرکے ہر آنے والے کا استقبال کرتی ہے اور اس سے ہم کلام نظر آتی ہے ۔ مختلف شعراء کی تمثیل جس میں مرزا غالب سے لیکر علامہ اقبال ، امیر خسرو ، قلی قطب شاہ اور دیگر شعراء کی فنی صلاحیتوں اور طرز زندگی کا عین مظاہرہ کرنا ایک مشکل کام تھا جس کو طلباء نے بڑے کمال حسن سے انجام دیا ۔ خوش ادا کی طرح خوش بیاں کی طرح ان طلباء نے اردو شعراء کی تخلیقات کو انہی کے انداز میں پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی لہذا بات کیجئے تو اردو زبان کی طرح اس ایکسپو کا مظاہرہ کرنے والوں میں جو تھوڑی سی بھی اردو جانتے تھے

اردو کی شیرینی کو محسوس کرکے اپنے ساتھ خوشگوار یادیں لے گئے ۔ اردو اور اردو والے اپنی قوت سے واقف ہیں جس میںراست یہ زبان اور اس  سے نسبت رکھنے والوں کا عز و وقار اونچا ہی رہتا ۔ اردو والوں کے لئے اس سے بڑھ کر خوشی کی بات کیا ہوسکتی ہے کہ احاطہ سیاست میں اس اردو ایکسپو کے ذریعہ نئی نسل کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا موقع ملا ۔ یہ ننھے بچے اس طرح خود کو تیار کرچکے تھے ان کے پاس موجود الفاظ اور تاریخی حوالے اور ایم اے کے طالب علموں کے لئے ایک انمول ذخیرہ تھے ۔ ان بچوں کی صلاحیتوں کو دیکھ ایسے کئی نوجوان طلبا نے جو اردو میں پی ایچ ڈی  ، ایم فل کررہے تھے اپنی خامیوں اور کمزوریوں کا بر موقع جائزہ لیا اور فوری اپنی اصلاح کرنے کا عزم بھی کرلیا کہ اگر اردو بولنے اور دیکھنے سمجھنے کی ضرورت ہے تو ان بچوں کی طرح جذبہ ہونا چاہئے۔ اردو شعر و شاعری کا حوالہ ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس شہر میں جہاں اردو کے دوست بھی ہیں اور دوست بن کر دشمنی کرنے والی بھی ہیں مگر محبان اردو کو اپنی کوشش جاری رکھنی چاہئے تاکہ آنے والی نسلوں تک اردو کی شیرینی پہونچائی جاتی رہے ۔ ہر سال یکم فبروری کو اقوام متحدہ کی طرف سے عالمی سطح پر مادری زبانوں کا دن منایا جاتا ہے ۔ یہ دن مادری زبانوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے مقرر کیا گیا ہے ۔ دنیا کے مختلف حلقوں میں کئی محققین یہ ثابت کرچکے ہیں کہ وہ بچہ جس کی بنیادی تعلیم مادری زبانوں میں دی جائے تو اس سے نہ تو رابطے کی زبان اور سیکھنے میں کوئی خلل پڑے گا اور نہ ہی قومی  وحدت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور ایکسپو میں حصہ لینے والے طلباء اگرچیکہ انگریزی میڈیم اسکول میں زیر تعلیم ہیں مگر ان کی مادری زبان نے انھیں صلاحیتوں کے مظاہرہ کا عظیم موقع عطا کیا جس میں وہ صد فیصد کامیاب رہے ۔
خوش اد کی طرح خوش بیاں کی طرح
بات کیجئے تو اردو زباں کی طرح