خوشبوئے گل نہ جانے کہاں جا کے رہ گئی

یسین احمد
14 فروری 2015 کو وہ خوشبوئے گل نہ جانے کہاں جا کے رہ گئی جس سے گلستان سخن مہکتا تھا ، جس کے کلام میں ایسا سوز و گداز چھپا ہوا تھا کہ پتھر بھی پگھل جائے ۔ بشر کی کیا بساط ہے ؟ جس کی شاعری میں رقص جام نہ مئے کی رنگ فشانیاں تھیں ۔ گیسوئے ناز کے پیچ و خم بھی نہیں تھے ، دکھ بھروں کی حکایتیں تھیں ۔ دل جلوں کی کہانیاں تھیں اور وہ شاعر ہیں کلیم عاجز ۔
ساحر لدھیانوی نے کہا تھا ؎
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
کلیم عاجز بھی جن حادثات سے دوچار ہوئے تھے ، جو ظلم و ستم برداشت کیا تھا ، جو کرب ، رنج ، آنسو اور ستم زمانے سے ملا تھا وہی ان کی شاعری کا سبب بنا ۔ رنج و الم کی اس دولت کو کلیم عاجز نے شاعری کے وسیلے سے دنیا کو لوٹادیا ۔
ہر صبح اوڑھنا کفن ہر شام اتارنا
مر مر کے زندگی کا مزہ ہم سے پوچھئے
وہ اک حادثہ منصور پر جو گذرا تھا
وہ حادثہ تو یہاں بار بار گذرے ہے
مختصر لفظوں میں بس میری یہی تشخیص ہے
چوٹ کب دل پر لگی تھی درد اب ظاہر ہوا

کلیم عاجز کے کلام سنانے کا انداز بھی نہایت دل سوز تھا ۔ چاک گریباں اسٹیج پر آتے ، متانت سے کلام سناتے نہ کسی کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی سعی کرتے ، نہ داد کی بھیک مانگتے ، تحسینی کلمات بلند کرتے کرتے سامعین کی زبان نہیں تھکتی ۔ فراق کہتے ہیں ’’میں اپنی زندگی کی اہم خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ مجھے کلیم عاجز صاحب کا کلام خود ان کے منہ سے سننے کے موقعے ملے ۔ اب تک لوگوں کی شاعری پڑھ کر یا سن کر پسندیدگی اور کبھی کبھی قدر شناسی کے جذبات میرے اندر پیدا ہوتے رہے لیکن جب میں نے کلیم عاجز صاحب کا کلام سنا تو شاعر اور اس کے کلام پر مجھے ٹوٹ کر پیار آیا اور ہم آہنگی ، محبت اور نہ قابل برداشت خوشی کے جذبات میرے اندر پیدا ہوگئے ۔ ان کا کلام مجھے اتنا پسند آیا کہ مجھے تکلیف سی ہونے لگی اور کلیم صاحب پر غصہ آنے لگا کہ کیوں اتنا اچھا کہتے ہیں‘‘ ۔
کلیم عاجز کی شاعری ایسی تھی کہ شعراء حضرات بھی رشک کریں ۔ کلیم الدین احمد جس نے غزل کی ایسی ویسی کردی تھی وہ بھی کلیم عاجز کے شاعری کے معترف تھے ، لکھا ہے سادگی و پرکاری ، بے خودی و ہشیاری صرف شاعری ہی نہیں بلکہ فن کا اہم نکتہ بھی ہے اور کلیم عاجز اس نکتہ سے واقف ہیں ۔ ان کی شاعری میں ایسی کیفیت ایسی شدت اس وقت پیدا ہوئی جب ان پر غموں کا ہمالیہ ٹوٹا ۔ تقسیم ہند کے وقت ہزاروں گھر نذر آتش کئے گئے ، ہزاروں خاندانوں کے افراد کو تہہ تیغ کیا گیا ، اسی وقت کلیم عاجز کے خاندان کے کئی افراد بھی شہید کردئے گئے جن میں ان کی والدہ اور ہمشیرہ بھی شامل تھیں ۔ اس وقت سے جو تاریکی کلیم عاجز کی زندگی میں پھیلی تو پھر کبھی اجالا نہ ہوا ۔ اسی حادثہ نے کلیم عاجز کی شاعری کو رنج و الم سے ہم آہنگ کردیا تھا ۔
کتنی باتیں زندگی کی چھوڑدیں
شاعری بھی چھوڑ دیں ، مرجائیں کیا
میری شاعری میں نہ رقص جام ، نہ مئے کی رنگ فشانیاں
وہی دکھ بھروں کی حکایتیں ، وہی دل جلوں کی کہانیاں
کلیم عاجز لکھتے ہیں ’’میں نے اپنا جائزہ لیا تو پچیس سال کی پوری کمائی اور صدیوں کا پورا سرمایہ ضائع ہوچکا تھا ۔ دل کے پیالے میں کچھ درد اور آنکھوں کے پیمانے میں کچھ آنسو رہ گئے تھے ۔ میں نے اسی سے پھر اپنی نئی زندگی شروع کی ، میری زندگی میری شاعری میری شخصیت اور میرا فن ان کے سوا کچھ اور نہیں‘‘ ۔
کنہیا لال کپور لکھتے ہیں ’’کلیم عاجز دور جدید کے پہلے شاعر ہیں جنہیں میرؔ کا انداز نصیب ہوا ہے ۔ ان کی غزلوں کے تیور نہ صرف میر کی بہترین غزلوں کی یاد دلاتے ہیں بلکہ ہمیں اس سوز و گداز سے بھی روشناس کراتے ہیں جو میر کا خاص حصہ تھا‘‘ ۔

پروفیسر محسن عثمانی ندوی کی رائے کچھ ذرا مختلف ہے وہ لکھتے ہیں کہ ’’کلیم عاجز جس خون ریزی فساد کے دریائے غم سے ہو کر گزرے ہیں میر تقی میری بھی اس کے شناور نہیں ہوسکے ۔ اس لئے جو خزینہ لے کلیم عاجز کی پوری شاعری میں ملتی ہے وہ میر کے لَے سے بھی زیادہ تیز ، زیادہ غم انگیز اور زیادہ اونچی ہے‘‘ ۔ کلیم عاجز کے کلام میں غم دوراں ، غم جاناں دو الگ الگ بہتی ہوئی ندیوں کی طرح ہیں جو آگے چل کر آپس میں گڈ مڈ ہو کر ایک وشال سمندر بن گئے ہیں اور اس میں ان کی شاعری لمحہ آخر تک غوطہ زن رہی ۔
کلیم عاجز کی تاریخ پیدائش 11 اکتوبر 1936ء ان کی والدہ کی تحریرکردہ ایک یاداشت کے مطابق بتائی گئی ہے ۔ آپ کے والد بڑے خوش رو ، تنومند ، قوی ہیکل ، خوش وضع اور خوش پوش آدمی تھے ۔ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے ۔ کلکتہ میں تجارت کرتے تھے اور پہلوانی سے انسیت تھی ۔ وہ کلیم عاجز کو بھی دنگل میں اتارنا چاہتے تھے لیکن کلیم عاجز کو یہ سب کہاں پسند تھا ۔ ان کو ادب اور شاعری سے لگاؤ تھا اور اسی میدان کا سورما بننا ان کا مقدر تھا ۔ کلکتہ میں رہ کر انہوں نے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی پھر پٹنہ آگئے ۔ یہاں میٹرک اور پھر اعلی تعلیم حاصل کی ۔ تدریسی پیشے سے وابستہ ہوئے ، پروفیسر بھی بن گئے ۔ 1989 ء میں پدم شری کا اعزاز حکومت نے عطاکیا ۔ یہ ان کے مزاج کی سادگی تھی بڑا پن تھا کہ کبھی انھوں نے اپنے نام کے ساتھ پروفیسر کا لاحقہ استعمال کیا اور نہ پدم شری لکھنا پسند کیا ۔ شنیدہ ہے کہ پدماشری کا خطاب لینے کے لئے وہ نہیں آئے اور یہ خطاب ان کے گھر پر پہنچادیا گیا ۔ اس وقت وہ عمرہ کی سعادت سے فیضیاب ہورہے ہیں اور رحمت العالمین کے حضور میں اپنا سینہ چیر کر دکھارہے تھے ۔
زخم کھائے ہوئے سر تابہ قدم آئے ہیں
ہانپتے کانپتے یا شاہ امم آئے ہیں
سرنگوں آئے ہیں بادیدہ نم آئے ہیں
آبرو باختہ دل سوختہ ہم آئے ہیں
کھوکے بازار میں سب اپنا بھرم آئے ہیں
شرم کہتے ہوئے آتی ہے کہ ہم آئے ہیں
آپ کے سامنے جس حال سے ہم آئے ہیں
ایسے مجرم کسی دربار میں کم آئے ہیں

شرافت ، متانت اور فراست کی بیش بہا دولت سے ان کا دامن زیست آخری سانس تک بھرا بھرار ہا ۔ خوش اخلاقی ، نرم گفتاری اور صبر و تحمل ان کا وطیرہ تھا ۔ کوئی ناگوار بات سن بھی لیتے تو خاموش رہتے ۔ کلیم عاجز کی بارہ تصانیف منظر عام پر آئی ہیں ۔ جن میں چار شعری مجموعے ہیں اور بقیہ نثری شہ پارے ہیں ۔ کلیم عاجز کو شعر کہنے کا ہنر تو آتا ہی تھا نثر پر بھی دسترس رکھتے تھے ۔ کلیم عاجز کی نثر نگاری میں ڈاکٹر محمد عتیق الرحمن کہتے ہیں ’’انشائے کلیمی کی بات ہی نرالی ہے اس کے صفحات کھولئے اور پڑھتے جایئے نہ کہیں تکان ہوگی اور نہ کہیں الجھن نہ کبھی پریشانی ہوئی ، نہ کہیں الفاظ کی سجاوٹ رکاوٹ بنے گی نہ کہیں معنی کا ابہام‘‘ ۔
نثر ہو یا شاعری کلیم عاجز کو جو بھی کہنا ہوتا ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ڈرتے ڈرتے سہمے سہمے انداز ں وہ دنیا کے سامنے نہیں آئے اور نہ جھوٹ ، بناوٹ اور تصنع کا ملمع ان کے چہرے پر چڑھا رہا ۔ یوم جمہوریہ کے موقع پر لال قلعہ میں ایک تاریخی مشاعرہ ہورہا تھا جس کی نظامت کنور مہندر سنگھ بیدی کررہے تھے ۔ مشاعرہ میں لال بہادر شاستری جی کے علاوہ اس وقت کے نامی گرامی شعراء بھی موجود تھے اس جشن کے موقع پر کلیم عاجز نے جو جرأت مندانہ انداز میں اپنی نظم پڑھی وہ سب کو دم بخود کرگئی ۔
یارانِ میکدہ یہ امامان بادہ نوش
یہ دشمن جنوں یہ پرستار عقل و ہوش
گندم نما یہ دوست ، یہ احباب جو فروش
باطن سیاہ کار بظاہر سفید پوش
یہ تاجرانِ لالہ و گل تیغ در بغل
دیتے ہیں زخم کرتے ہیں فرمائش غزل
یہ جشن ، یہ جلوس ، یہ جلسہ ، یہ جلوہ گاہ
یہ شاعری ، یہ داد ، یہ تحسیں یہ واہ واہ
یہ پیار کے معاملے یہ لطف کی نگاہ
سب جھوٹ ، سب مغالطہ ، سب جرم سب گناہ
شاعر ہیں راز ہائے دروں جانتے ہیں ہم
دنیا کو ہر لباس میں پہچانتے ہیں ہم

کلیم عاجز کو شہر حیدرآباد سے خاص لگاؤ تھا ۔ اہل حیدرآباد نے بھی ان کو اپنے دل کے سنگھاسن پر بٹھارکھا تھا جب وہ حیدرآباد آتے تو ادبی محفلیں سج جاتی تھیں ۔ ان کا شعری مجموعہ ’’وہ جو شاعری کا سبب ہوا‘‘ ۔ کا تیسرا ایڈیشن حیدرآباد سے شائع ہوا تھا ۔ سال 2014کے اواخر میں وہ حیدرآباد آئے تھے اور اس وقت ایک کتاب ’’کلیم احمد عاجزؔ اور ایک شاخ نہال غم‘‘ کی رسم اجرائی عمل میں آئی تھی ۔ اس کتاب کو پروفیسر محسن عثمانی ندوی نے مرتب کیا ہے ۔
عزرائیل کی بے آواز چاپ کو شاید کلیم عاجز نے محسوس کرلیا تھا اس لئے تو انہوں نے کہا تھا کہ
اہل زباں اہل سخن آئیں گے بہت
اصحاب فکر صاحب فن آئیں گے بہت
ساغر بکف سبو بہ دہن آئیں گے بہت
لے کر کلام توبہ شکن آئیں گے بہت
ایسا شکستہ حال غزل خواں نہ آئے گا
پھر ہم سا کوئی چاک گریباں نہ آئے گا
زندگی ان پر ناز کرتی ہے جو دنیا میں روتے ہوئے آتے ہیں اور ساری دنیا کو رلا کر جاتے ہیں ۔ کلیم عاجز کا شمار ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے ۔
کچھ دور ہی بہار چمن آ کے رہ گئی
ابھری نہ تھی کہ آرزو مرجھا کے رہ گئی
پھیلائے ہاتھ شاخ نے پھیلا کے رہ گئی
خوشبوئے گل نہ جانے کہاں جا کے رہ گئی
اک عمر گذاری حسرت فصل بہار میں
اب تک تڑپ رہے ہیں اسی انتظار میں