سید علی حسین
خواجہ الطاف حسین حالی اردو کے عظیم ادیب ، شاعر اور نقاد تھے ۔ انھوں نے اپنی ساری زندگی اردو کے فروغ اور ترویج کے لئے وقف کردی تھی ۔ وہ اردو زبان کے عظیم معمار تھے ۔ اردو والے کبھی بھی اردو کے اس محسن کو فراموش نہیں کرسکتے ۔ خواجہ الطاف حسین حالی کی مسدس اور مقدمہ شعر و شاعری ایسا گراں قدر سرمایہ ہے جو اردو ادب کو آفاق کی وسعتوں میں پہنچادیا ہے ۔
خواجہ الطاف حسین حالی کا وطن پانی پت ہے ۔ ان کا جدی سلسلہ خواجہ ملک سے ملتا ہے جومشہور صوفی ، عالم اور برگزیدہ بزرگ تھے ۔ ان کا سلسلہ نسب انصاریوں کے معزز خاندان سے تھا ۔ ان کے نانا سید تھے ۔ خواجہ ملک علی سلطان غیاث الدین بلبن کے زمانہ میں ہندوستان آئے ۔ سلطان غیاث الدین بلبن نے خواجہ ملک کے تقوی اور علمی بصیرت کو دیکھ کر انھیں چند گاوں پانی پت کے قریب بطور جاگیر عطا کئے ۔ انھیں پانی پت کا قاضی مقرر کیا ۔اجناس بازاری کا نرخ مقرر کرنے اور عیدین کی نماز پڑھانے کا حق بادشاہ نے انھیں دیا تھا ۔ خواجہ الطاف حسین حالی کے والد بزرگوار حضرت خواجہ ایزد بخش ایک صوفی منش انسان تھے ۔ وہ عشق رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے سرشار تھے ۔ خواجہ الطاف حسین حالی بھی موحد تھے ۔ پابند صوم و صلوۃ تھے ۔ نہایت متقی و پرہیزگار بزرگ تھے ۔ وہ بھی عشق رسولﷺ و آل رسولﷺ کی محبت سے سرشارتھے ۔
خواجہ الطاف حسین حالی نہایت شریف النفس اور وضع دار انسان تھے ۔ نہایت خوش اخلاق ، منکسر مزاج ، صبر و تحمل ، دردمندی ، درگذر اور چشم پوشی ان کی شخصیت کے اجزا تھے ۔ وہ نہایت قانع ، شکر گذار اور راضی بہ رضا تھے ۔ حیدرآباد دکن کے حضور نظام میر عثمان علی خان آصف جاہ سابع نے ان کی چند اردو ادبی خدمات کے انجام کے لئے ماہانہ سو روپیہ وظیفہ مقرر کیا تھا۔ اور وہ پانی پت میں رہ کر اس کی تکمیل میں مصروف تھے ۔ وہ اپنے وطن پانی پت میں مستقل سکونت اختیار کئے اور یہاں انہماک و یکسوئی سے اردو ادب کی تصنیف و تالیف کے کاموں میں مصروف ہوگئے 1904 ء میں انھیں شمس العماء کا خطاب ملا ۔
خواجہ الطاف حسین حالی 1837ء میں پانی پت میں پیدا ہوئے ۔ حالی نو سال کی عمر میں یتیم ہوگئے ۔ ابتداء میں تعلیم کا خاطر خواہ انتظام نہیں ہوسکا ۔ انھوںنے خود لکھا ہے کہ مسلسل اور باقاعدہ تعلیم کا موقع کبھی نہیں ملا ۔ سترہ سال کی عمر میں شادی کردی گئی ۔ تعلیم کی ناتمامی کا شدید احساس تھا ۔ شادی کے ایک سال بعد گھر والوںکو اطلاع دئے بغیر دہلی چلے گئے ۔ دہلی میں جامع مسجد کے قریب ایک مدرسہ میں پڑھنے لگے ۔ یہ دور خواجہ الطاف حسین کی زندگی کا نہایت عسرت اور مفلسی کا تھا ۔ وہ نہایت مضبوط ارادوں کے مالک تھے ۔ ناموافق حالات میں بھی انھوں نے تعلیم کو جاری رکھا ۔ انھوں نے ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں معمولی ملازمت اختیار کی ۔ آٹھ سال تک نواب مصطفی خاں شیفتہ کے بچوں کے اتالیق رہے ۔ چار سال تک پنجاب گورنمنٹ بک ڈپو میں ملازم رہے ۔ یہاں انگریزی سے ترجمہ کی ہوئی کتابوں پر نظرثانی کرتے تھے ۔ اس طرح ان کو انگریزی ادبیات سے واقفیت حاصل ہوئی ۔ دہلی کے اینگلو عربک اسکول میں مدرس رہے ۔
خواجہ الطاف حسین حالی نہایت خلیق اور ملنسار بزرگ تھے ۔ سچے قوم پرست تھے ۔ مسلمانوں کی علمی اور معاشی پسماندگی سے دلبرداشتہ تھے ۔ سرسید احمد خاں اس زمانے میں مسلمانوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرکے انھیں معاشی طور پر مضبوط کرکے دوسرے ابنائے وطن کے شانہ بہ شانہ قدم سے قدم چلنے کی تحریک میں منہمک تھے ۔ خواجہ الطاف حسین اس تحریک سے وابستہ ہوگئے اور سرسید کے کہنے پر مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے انھوں نے ایک معرکتہ الآرا مسدس لکھی ۔ یہ مسدس مقبول عام ہوئی ۔ اب حالی قومی شاعر کہلانے لگے ۔ انھوں نے دہلی کی تباہی زمانہ غدر اور مرثیہ حکیم محمود خان لکھا ۔ وہ ایک ایسے مصلح قوم اور خطیب بن گئے جو اپنی قوم کو قعر مذلت سے نکالنے ہر ممکن کوشش و سعی میں لگ گئے ۔ خواجہ الطاف حسین حالی کی تصانیف مثنویاں ، مسدس حالی ، شکوہ ہند ،چپ کی داد ، مراثی غالب ، حکیم محمود خان و تباہی دہلی ، مجموعہ نظم حالی ، مجموعہ نظم فارسی ہیں ۔
۱ ۔ مسدس حالی مولانا الطاف حسین حالی کی بے مثل اور معرکہ آرا تصنیف ہے جسے روز اول سے ہی مقبولیت حاصل ہے ۔ مسدس حالی سے ہی ہندوستان میں قومی شاعری کی بنیاد پڑی ہے ۔ سرسید احمد خان کہتے تھے کے مسدس حالی نے صنف نظم میں ایک نیا دور پیدا کردیا ۔ مسدس حالی میں مسلمانوں کی گذشتہ عظمت کے کارنامے اور موجودہ پستی کا ذکر ایسے انداز میں کیا ہے کہ پتھر دل انسان بھی موم ہوجاتا ہے ۔ آخر میں انھوں نے اہل اسلام سے عاجزانہ درخواست کیا ہے کہ وہ اٹھیں اور بیدار ہو کر انتھک محنت و کوشش سے اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو حاصل کریں ۔
۲ ۔ مقدمہ شعر و شاعری
اس تصنیف میں مصنف کا اصلی منشا اصناف سخن میں اصلاح کرنا ہے ۔ دائرہ غزل کو وسیع کرنے کیلئے اس میں عاشقانہ ، فلسفیانہ مضامین کے علاوہ قومی اور عوامی مسائل پر مبنی شاعری کو بھی شامل کرنا چاہتے ہیں ۔ زبان غزل کو بھی تبدیل کرنے کے حامی ہیں کہ زبان کا دائرہ وسیع ہو ۔ قیود عروض کو بھی اٹھادینا چاہتے ہیں جو ترقی کی راہ میں سنگ گراں ہے ۔ غزل گوئی میں ردیف و قافیہ کو مختصر کرنا چاہتے ہیں ۔ ردیف کو چھوڑ کر محض قافیہ پر قناعت کرنے کی صلاح دیتے ہیں کہ شعراء اپنے خیالات کا اظہار آزادی سے کرسکیں ۔
۳ ۔ دیوان حالی
دیوان میں قدیم و جدید دونوں رنگ کی نظمیں ہیں ۔ غزلیں دیگر اصناف سخن سے زیادہ ہیں ۔ طرز جدید کی غزلیں الگ پہچانی جاتی ہیں ۔ سب غزلیں جذبات سے لبریز ہیں ۔ رباعیات اخلاقی اقدار اور نصائح سے پر ہیں ۔ قصائد نئی شان لئے ہوئے ہیں جو گراں بہار زیور نشائح سے آراستہ ہیں ۔
۴ ۔ اولیات حالی : خواجہ الطاف حسین حالی کا اردو ادب میں نہایت بلند اور ممتاز مقام ہے ۔ سب سے پہلے انہوں نے غزل اور قصیدہ میں نیارنگ اختیار کیا ۔ سیاسی اور قومی نظمیں لکھیں ۔ مولانا حالی اور مولانا آزاد کو اردو شاعری کے جدید رنگ کا بانی سمجھا جاتا ہے ۔ خواجہ الطاف حسین حالی ایک اعلی نثار بھی تھے ۔ انکی تصانیف نثر حسب ذیل ہیں ۔
۱) یادگار غالب (۲) حیات جاوید (۳) تریاق مسموم (۴) علم طبقات الارض (۵) مجالس النسا (۶) حیات سعدی (۷) مضامین حالی ۔
۱ ۔ یادگار غالب : خواجہ الطاف حسین حالی کی یہ تصنیف مرزا اسد اللہ خان غالب کی ایک مستند سوانح ہے ۔ اس سے بہتر کتاب کسی نے غالب پر نہیں لکھی ۔ اس میں غالب کے زندگی کے حالات ، واقعات ، لطائف نہایت دلچسپ انداز میں بیان کئے ہیں ۔ ان کے فارسی اور اردو کلام پر ناقدانہ نظر ڈالی ہے ۔ خواجہ صاحب نے یہ کتاب تصنیف کرکے حق شاگردیٔ غالب ادا کیا ۔
۲ ۔ حیات جاوید : اس کتاب میں سرسید احمد خاں کی سوانح بیان کی ہے ۔
۳ ۔ مجالس : مجالس النسا لکھنے پر حکومت ہند نے مولانا خواجہ الطاف حسین کو چار سو روپیہ انعام دیا ۔ مولانا خواجہ الطاف حسین حالی کا انتقال ستر سال کی عمر میں 1914 ء میں اپنے آبائی وطن پانی پت میں ہوا اور وہیں ان کی تدفین ہوئی ۔