ریاض ۔ 18 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) سعودی عرب کے شہر ریاض میں ہونے والے خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے اختتام پر جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تمام جی سی سی کے تمام رکن ممالک ‘اعلان ریاض’ کے میکینزم کے عملی نفاذ پر متفق ہیں۔ اعلان ریاض خلیج تعاون کونسل کے بنیادی نظام کے موجودہ اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے۔ اعلامیے میں قطر کے ساتھ تین خلیجی ملکوں کے سفارتی تعلقات کی فوری بحالی کا کوئی اشارہ نہیں دیا گیا۔العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق جمعرات کو منعقدہ اجلاس میں خلیج تعاون کونسل کی خارجہ اور سیکیورٹی پالیسیوں پر غور کیا گیا۔ اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ تمام ممالک اس امر پر متفق ہیں کہ کسی بھی ملک کی خارجہ اور دفاعی پالیسی کونسل کے کسی رکن ملک کی سلامتی، خود مختاری اوراس کے بنیادی مفادات کے لیے خطرہ نہیں بنے گی۔
خلیجی وزراء خارجہ نے جی سی سی کے رکن ممالک کے درمیان مفاہمانہ پالیسی کو سراہا اور امید ظاہر کی امیر کویت الشیخ صباح الاحمد الجابر الصباح کی قیادت میں جاری مفاہمتی کوششوں کے مثبت نتائج جلد سامنے آئیں گے۔ اعلامیے سے قبل وزرائے خارجہ کے بند کمرہ اجلاس میں خلیج تعاون کونسل کے رْکن ممالک کو درپیش چیلنجز کا مل کر مقابلہ کرنے پر اتفاق کیا گیا۔یاد رہے کہ العربیہ ڈاٹ نیٹ نے یہ خبر دی تھی کہ خلیجی وزرائے خارجہ اجلاس جمعرات کو ہو رہا ہے۔ اجلاس میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے قطر میں تعینات سفیروں کی فوری واپسی کا اعلان ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔ بعد ازاں ایسا ہی ہوا۔خیال رہے کہ ایک ماہ قبل قطر سے تین خلیجی ملکوں کے سفیروں کی واپسی کے بعد کونسل کے وزرائے خارجہ کا یہ پہلا اجلاس ہے۔ اس اجلاس میں تمام ممالک پر زور دیا کہ وہ اپنی خارجہ اور سیکیورٹی پالیسیاں اس انداز ترتیب دیں تاکہ کونسل کے کسی دوسرے کن ملک کے مفادات متاثر ہوں اور نہ ہی اسے کوئی خطرہ لاحق ہو۔”تمام رکن ممالک کو ایسے گروپوں اور افراد کی سیاسی اور مادی حمایت سیدستکش ہو جانا چاہیے جو دوسروں کے لیے پریشانی کا موجب بن رہے ہیں۔” ان کا اشارہ قطر کی جانب تھا جو کھلے عام اخوان المسلمون کی حمایت کر رہا ہے جبکہ سعودی عرب اور بعض دوسرے خلیجی ملک اخوان المسلمون کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے کر اس پر پابندیاں عائد کر چکے ہیں۔
اعلامیے میں توقع ظاہر کی گئی کہ قطری حکومت خلیج تعاون کونسل کا حصہ رہتے ہوئے کونسل کے اصول و مبادی کا احترام کرے گی اور ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائے گی جس سے دوحہ اور دوسرے خلیجی ملکوں کے درمیان تعلقات مزید خراب ہوں۔