خطرات کا جائزہ

ڈاکٹر مجید خان
کیا عام لوگ اپنی روزمرہ کی زندگیوں میں مستقبل کی منصوبہ بندی میں آنے والے ممکنہ خطرات کا جائزہ لیتے ہیں ۔ ایک غور طلب مسئلہ ہے ۔ میں حالات حاضرہ کی روشنی میں اس موضوع پر روشنی ڈالنا چاہوں گا ۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آج سے 68 سال پہلے جب کہ میں اسکول میں پڑھا کرتا تھا اور پولیس ایکشن ہونے کو تھا اور حیدرآباد دکن ریڈیو سے جوشیلی تقاریر نشر کی جارہی تھیں کہ حیدرآباد فاتح رہے گا اور سڈنی کاٹن ہتھیار لیکر ہوائی جہاز سے حیدرآباد کی مدد کیلئے آرہا ہے ۔ یہ حوصلے جو باندھے گئے وہ صرف جھوٹا اور بے بنیاد پروپگنڈہ تھا جو آخر میں تباہ کن ثابت ہوا ۔

خیر مجھے اس طرح یاد ہے کہ میں والد صاحب سے متعدد مرتبہ یہ پوچھتا رہا کہ ہم لوگوں کا کیا حشر ہوگا ۔ اگر یہ دعوے غلط ثابت ہوں یعنی میرے دماغ میں خطرات کا اندیشہ تھا صرف اتنا واضح تھا کہ چونکہ حیدرآباد میں مسلمانوں کی حکومت تھی اس لئے مسلمانوں کا بھاری نقصان ہوگا ۔ والد صاحب ہمت دلایا کرتے تھے اور اللہ پر بھروسہ کرنے کی تلقین دیا کرتے تھے اور میں سوجایا کرتا تھا ۔ اس کے بعد جو خونی جنگ ہوئی اسکے ہولناک واقعات کو آج تک کوئی بھلا نہ سکا ۔ آخر مجھے یہ معلومات کہاں سے دستیاب ہوئیں ۔ سوائے اخبارات کے اور ریڈیو کے اور ذرائع معلومات آج کی طرح نہیں تھے ۔ مگر ایک بات مجھے اچھی طرح یاد ہے آزادی کے بعد ہزاروں پناہ گزین شمال سے محفوظ مقام کی تلاش میں حیدرآباد منتقل ہوئے اور جگہ جگہ پناہ گزین کیمپس قائم کئے گئے اور مجھ جیسے نوجوان ان کی رضاکارانہ خدمت میں لگ گئے ۔ مقامی مسجد میں ان سے فسادات کا آنکھوں دیکھا حال ہی سنا کرتا تھا اور اپنے مستقبل کے بارے میں متفکر ہونے لگا تھا ۔ خطرات کا اندازہ تو ہوچکا تھا مگر ان سے نجات کی راہ کیا اختیار کرنی چاہئے وہ میرے بس کی بات نہیں تھی ۔ ہر صبح فجر ،مغرب اور عشاء میں بے پناہ ہجوم ہوا کرتا تھا ۔ روزانہ کی نمازوں میں لوگ سڑک پر آجایا کرتے تھے ، جیسے کہ عید کی نمازوں میں ہوتا ہے ۔ غالباً اسی وقت سے میرے ذہن میں خطرات کا جائزہ لینے کی صلاحیت پروان چڑھنے لگی ۔ دوسرا فیصلہ کن مرحلہ حیدرآبادیوں میں اس وقت آیا جب لوگ پاکستان منتقل ہونے لگے تھے ۔ والد صاحب سے میں نے پھر پوچھا کہ لوگ پاکستان منتقل ہورہے ہیں آپ کا کیا ارادہ ہے ، مسکراکر کہا کرتے تھے کہ بیٹے اللہ پر بھروسہ رکھو اور میں سوجایا کرتا تھا ۔

جو لوگ پاکستان منتقل ہوئے ، مہاجرین کہلانے لگے ۔ ان کا کیا حشر ہوا اور ہورہا ہے وہ سن کر ہی ہمارا خون خشک ہورہا ہے ۔
آج کی تاریخ میں کس ملک میں مسلمان محفوظ ہیں اس پر غور کرنے سے معلوم پڑتا ہے کہ بیشتر مشرق وسطی کے ممالک جنگی میدان بن چکے ہیں ۔ اگر آپ شیعہ ہیں تو کسی ملک میں خطرہ ہے سنّی ہیں تو اور ملک میں ۔

امریکہ میں ’’خوف اسلام‘‘ تیزی سے پھیلایا جارہا ہے اور مسلمانوں کا سماجی موقف متاثر ہورہا ہے ۔ فرانس اور جرمنی میں براحال ہے ۔ برطانیہ میں مسلمانوں کا مستقبل غیر محفوظ ہے ۔ اس پس منظر میں داعش نے آناً فاناً سراٹھایا اور اب یہ تنظیم طالبان سے زیادہ خطرناک ثابت ہورہی ہے ۔ اس کی حرکات مثلاً سرعام امریکی یرغمالیوں کو موت کے گھاٹ اتارنا اور اسکے خون کو منجمد کرنے والے ویڈیوز تشہیر کیلئے ذرائع ابلاغ میں مقبول عام کرنا ۔ مسلمانوں کے وقار کو بری طرح مجروح کررہا ہے ۔ اس کے خلاف نہ صرف مغربی ممالک اکٹھا ہوگئے ہیں بلکہ مسلم ممالک بھی اس کو نیست و نابود کرنا چاہتے ہیں جن میں سعودی عرب پیش پیش ہے ۔ کہا تو یہ جاتا ہیکہ شروع میں اس تنظیم کو سعودی عرب کی پشت پناہی تھی جو انہی کے لئے مہنگی پڑرہی ہے ۔ مسلم ممالک جو نہ صرف متمول تھے اور عوام خوش و خرم تھے اور آرام و آسائش کی زندگیاں گذار رہے تھے ، آج وہ لوگ قریبی ممالک میں پناہ گزین کیمپس میں کسمپرسی کی حالت میں زندگی گذار رہے ہیں ۔ بہت ممکن ہے ان کیمپس کی تفصیلات ٹیلیویژن پر دیکھنے کے بعد مجھے حیدرآباد میں آئے ہوئے پناہ گزینوں کی مصیبتوں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے اور ایسے مضامین لکھنے کی تحریک ہوتی ہے ۔

اب موجودہ حالات میں کوئی بھی کیا احتیاطی تدابیر اختیار کرسکتا ہے وہ غور طلب ہے ۔ ایک پرانے مضمون میں ، ممکن ہے قارئین بھول بھی گئے ہوں گے میں نے ایک پیشن گوئی کی تھی کہ دنیا میں تیل کی قیمت گھٹے گی کیونکہ شیل کا استعمال بڑھے گا اور زیادہ سے زیادہ ممالک اس کو پیدا کرینگے جس میں کینیڈا اور امریکہ بہت آگے ہیں اور سعودی عرب اور روس کے تیل کے برآمات متاثر ہوں گے ۔ چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ڈیزل اور پٹرول کے دام مسلسل گررہے ہیں اور بین الاقوامی بازار میں جو قیمت ایک بیارل کی 140 ڈالر کی تھی اب وہ 70 ڈالر تک بھی آگئی تھی ۔ ان کی پیداوار کا خرچ یہی 90 ڈالر کے قریب ہے ۔ اب سبھی لوگ اندازہ کرسکتے ہیں کہ مشرق وسطی اور خاص طور سے سعودی عرب کی معیشت پر اسکا کیا اثر ہوگا ۔ اسکے خطرات کیا ہوسکتے ہیں ان پر ہر شخص کو غور کرنا چاہئے خاص طور سے وہ نوجوان جو ابھی بھی سعودی عرب یا خلیج جانے کے خواب دیکھ رہے ہیں ۔

اس لئے ہندوستان ہی میں ملازمت حاصل کرنے کے لئے جد وجہد کرنا چاہئے اور وہ لوگ مشرق وسطی میں مقیم ہیں وہ اپنے اخراجات کچھ قابو میں لانا ضروری ہے ۔ شادیوں میں اسراف کرنے سے پہلے ٹھنڈے دل سے غور کیجئے کہ مستقبل میں یہ آمدنی نہ ہو تو کیا مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ سمجھدار سرمایہ کاری اور منڈیوں کی طرح دوسروں کی کامیابی دیکھتے ہوئے اندھا دھند تقلید مہنگی ثابت ہوسکتی ہے ۔ حیدرآبادیوں کو تو ایسے دلکش مگر پرفریب پیش کش خوب لوٹ چکے ہیں ۔ ہر پیشے میں نئے نئے خطرات ابھر کر آرہے ہیں ۔ ان کو سمجھنا اور نپٹنا آسان نہیں ہے مگر معلومات حاصل کرنا ضروری ہے ۔
ہندوستان فی الحال کافی محفوظ ملک ہے مگر حکومتیں بدل رہی ہیں ۔ ہندو راشٹرا کے بادل منڈلارہے ہیں ۔ ان بدلتے حالات میں ہم کو نئے ضابطہ اخلاق اور نئے آداب سے ہمکنار ہونا پڑے گا ۔

نوجوانوں کو چاہئے کہ اپنی تعلیمی اور زندگی میں کامیابی کیلئے جو عملی صلاحیتوں کو تیز تر کریں اور دنیا کے حالات کا جائزہ لیتے رہیں ۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ بہتر سے بہتر تعلیم کے بہترین مواقع ہندوستان میں دستیاب ہیں ۔ اچھی سے اچھی ملازمتیں آپ حاصل کرسکتے ہیں ۔ زبانوں پر مہارت بھی ضروری ہے ۔ اپنے اپنے پیشوں میں کس قسم کے نئے خطرات ابھر کر آرہے ہیں وہ روزانہ ٹیلیویژن پر طشت ازبام ہورہے ہیں۔ چھتیس گڑھ میں نس بندی کے آپریشن کیمپ میں 14 عورتیں جاں بحق ہوگئیں ۔ سرجن جو کیمپس کے آپریشن میں ماہر اور تجربہ کار تھے ، دوسروں کی لاپروائی کی وجہ سے جیل کی سزا بھگت رہے ہیں ۔ ان پیچیدہ ذمہ داریوں کے خطرات نئی شکل میں دیکھے جارہے ہیں ۔ سرجن اپنے ماتحتین پر بھروسہ کرتا ہے کہ وہ تمام احتیاطی تدابیر اختیارکریں گے مگر کسی ایک کی غفلت کی وجہ سے صدر ٹیم مصیبت میں آجاتا ہے ۔ یہاں پر نہ صرف غیر معیاری دوائیں سربراہ کی گئی تھیں بلکہ چوہوں کا زہر بھی اس میں مل گیا تھا ۔ اس میں سرجن کی کیا غلطی ہوسکتی ہے ۔ یہاں پر پتہ چلتا ہیکہ قانون اندھا ہے ۔

اس کے علاوہ نئے اور قدیم وبائی امراض ساری دنیا کوپریشان کررہے ہیں جس کی مثال ایبولا افریقہ میں اور پلیگ ماریشیس میں جہاں پر 40 لوگ مرچکے ہیں ۔ لوگ پلیگ کو بھول گئے تھے ۔
آفات سماوی کے تعلق سے سوچنا بھی مشکل ہے ۔ جس کی حالیہ مثال کشمیر کی تباہی کی ہے ۔ یہ تباہی خدا نہ کرے کہیں بھی اچانک آسکتی ہے ۔کیا ہم اسکے لئے تیار ہیں ۔ حکومت تباہی کے تدارک کے محکمے Disaster Management کھول رکھی ہے ، جو اچھا کام کررہے ہیں مگر ہم کو بھی چاہئے کہ اپنے اطراف کے ممکنہ خطرات کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیتے رہیں ۔