نسیمہ تراب الحسن
تقی عسکری ولا صاحب سے میرا کوئی رشتہ نہ ہوتے ہوئے بھی ہمارے درمیان ایک نہایت پاک رابطہ ہے وہ ہے عشق اہلبیت کا جو ہم دونوں کے رگ و پے میں موجزن ہے ۔ شاید اسی وجہ سے انھوں نے مجھ سے اپنی کتاب ’’خزینۂ بلاغت‘‘ دیتے ہوئے کہا کہ میں اس کے بارے میں کچھ لکھوں ۔ یہ شاعری کی کتاب ہے اور میں شاعری کے فن سے نابلد ۔
تقی عسکری ولا صاحب ایک پرعزم شخصیت کے مالک ہیں ۔ پڑھنے لکھنے کا شوق انھیں ہر دم بے چین کرتا ہے اور وہ قلم کے ذریعہ اپنی حاصل کردہ معلومات کو صفحہ قرطاس کے حوالے کردیتے ہیں ۔ اس سے پہلے بھی انھوں نے نہج البلاغہ سے حضرت علیؓ کے ارشادات سے چند نایاب موتی چن کر انھیں شعری ہیئت میں ڈھالا تھا ۔ لیکن اپنی اس کاوش پر ان کی طبیعت سیر نہ ہوئی تو پھر نہج البلاغہ سے علمی خزانہ سمیٹ لیا ۔ تقی عسکری ولا صاحب ساری زندگی رسولؐ اور آل رسولؐ کا دامن تھامے رہے ۔ علم کی لگن میں انکاسر حضرت علیؓ جن کو رسول اللہؐ نے باب مدینتہ العلم کہا کی چوکھٹ پر سجدہ ریز رہا ۔ رسول مقبول کے یہ فرمانے کے بعد کہ ’’میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ‘‘ ۔ حضرت علیؓ کے علم کی گہرائی اور بلندی کا اندازہ کرنا آسان ہے کیونکہ ہر اہل ایمان اس بات سے واقف ہے کہ اللہ نے محمد مصطفیﷺ کو رسول مبعوث کرنے کے بعد انکا سینہ کھول کر اس میں اپنا علم ڈال دیا تو سوچئے کہ رسول خداؐ کے علم کا کیا عالم ہوگا پھر رب العالمین نے اپنی تعلیم بنی نوع انسانی تک پہنچانے کی تمام تر ذمہ داری بھی رسولؐ کو سونپ دی یعنی خدا اور انسانوں کے درمیان رسول وہ ذات گرامی ہیں جن کے توسط سے اللہ کو پہچانا گیا ۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ رسول اللہؐ کا ہر فعل و عمل اللہ کے تابع ہے وہ اپنی مرضی سے کچھ کرنے یا کہنے کے مجاز نہیں ۔ جب رسول اکرمؐ نے حضرت علیؓ کو یہ رتبہ دیا تو اس میں ذرا سا شک بھی کفر ہے ۔ نہج البلاغہ حضرت علیؓ کے معجز بیان خطبات و ارشادات کا ایک عظیم اور انمول خزانہ علم ہے ، جو رہتی دنیا تک اہمیت کا حامل ہے اور اس کی ہر سطح بیش بہا موتیوں کی لڑی ہے ۔ یہ تاقیامت قابل تقلید ہے اور ذی شعور انسان کے لئے دنیا اور آخرت میں کامیابی کا ضامن بھی ۔ ظاہر ہے کہ یہ عربی زبان میں ہے ۔ مختلف زبانوں میں نہج البلاغہ کے ترجمے ہوئے ہیں ۔ اپنی ذہانت ، اپنی قابلیت اور عربی زبان پر عبور رکھنے والے عالموں نے جانفشانی سے کام لیا ہے تاکہ لوگ اس سے مستفید ہوسکیں ۔ تقی عسکری ولا نے حجتہ الاسلام علامہ مفتی جعفر حسین کے ترجمے کا سہارا لیا اور حضرت علیؓ کے لفظی اعتبار سے اختصار بے داماں اور معنوی لحاظ سے ہمہ گیر ارشادات کو شعری پیرہن دیا ہے ۔ ان کے دل میں یہ خیال جاگزین تھا کہ شاعر کو دربار آل محمد میں ہمیشہ مرتبہ حاصل رہا ۔ تقی عسکری ولا شاعر ہیں ، وہ کتنے اعلی پایہ کے شاعر ہیں ۔ بحث اس سے نہیں کیونکہ مذہبی نثر یا نظم لکھنے میں تحریر کوادب کی کسوٹی پر نہیں عقیدت پر پرکھا جاتا ہے اور تقی عسکری ولا اس میں صد فیصد ڈوبے دکھائی دیتے ہیں ۔ حضرت علیؓ کے ارشادات کو شعری ہیئت دینے کے بعد تقی عسکری ولا صاحب نے اپنا کلام نادرۃ الزمن استاد حضرت میر ابراہیم علی حامی کی خدمت میں پیش کیا ، جنھوں نے بہ نظر تجزیہ دیکھ کر اپنی مہر ثبت کردی ۔’’خزینۂ بلاغت‘‘ پڑھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ تقی عسکری ولا نے حضرت علیؓ کے ارشادات کے ترجمے کے الفاظ میں کسی طرح کی رد و بدل نہیں کی ، بلکہ انہیں لفظوں سے اشعار بنالیتے ہیں مثلاً حضرت علیؓ کا ارشاد ہے ’’جسے اس کے اعمال پیچھے ہٹادیں اسے حسب نسب آگے نہیں بڑھاسکتا‘‘ ۔ اس کو شعر میں اس طرح ڈھالا ہے ۔
اعمال بد گرادیں کسی آدمی کو گر
اس کو حسب و نسب بھی نہ آگے بڑھاے گا
ایک دوسرا ارشاد دیکھئے ’’کسی مضطرب کی داد فریاد سننا اور مصیبت زدہ کو مصیبت سے چھٹکارہ دلانا بڑے گناہوں کا کفارہ ہے ؎
کفارہ گناہان کبیرہ کا یہی ہے
فریاد غریبوں کی سنو داد کو پہنچو
حضرت علیؓ کا کہنا ہے کہ لوگوں سے اس طریقے سے ملو کہ اگر مرجاؤ تو تم پر روئیں اور زندہ رہو تو تمہارے مشتاق ہوں ۔ اب اس کی شعری صورت گری بھی ملاحظہ ہو ؎
یوں ملو لوگوں سے مرجاؤ تو روئیں تم پر
زندہ اس طرح رہو سب ہوں تمہارے مشتاق
حضرت علیؓ کے ارشادات کی آفاقیات نثر میں سنائی جائے یا نظم میں ہر صورت ان کی دلنشینی اور مسلمہ افادیت ہمارے دل ودماغ کو روشن کردیتے ہیں ۔ تقی عسکری بس اس سوچ میں مبتلا ہوئے کہ شعر بہ آسانی ذہن میں نقش ہوجاتا ہے ۔ اس لئے انھوں نے ایسے ارشادات کو منتخب کیا جو ہماری زندگی میں وقتاً فوقتاً کام آتے ہیں اور اصلاح نفس میں مددگار ثابت ہوں گے ۔تقی عسکری ولا کی ’’خزینۂ بلاغت‘‘ سولہویں کتاب ہے ۔ مختلف کتابوں پر بڑے بڑے عالم دین اور دانشوروں نے مقدمے تحریر کئے ہیں ۔ علامہ نجم آفندی (جن کے وہ شاگرد ہیں) ، پروفیسر سید مجاور حسین ، پروفیسر سیدہ جعفر ، ڈاکٹر صادق نقوی ، ڈاکٹر شوکت علی مرزا ، ڈاکٹر تقی عابدی ، پروفیسر فاطمہ پروین جیسی قابل شخصیتوں کے اظہار خیال کے بعد تقی عسکری ولا کا مجھ سے کچھ لکھنے کا اصرار میرے لئے ان کے خلوص کے سوا کیا معنی رکھتا ہے ۔ میرا تو قلم کانپنے لگا ۔ اس عزت افزائی کے لئے میں ان کی ممنون ہوں اور اس دعا کے ساتھ اپنی بات ختم کرتی ہوں کہ تقی عسکری ولا کی یہ کاوشیں دربار امیر المومنین میں مقبول و ممدوح ہوں اور اہل بیت اطہار کے ہر در سے ان پر عطا کا سلسلہ جاری رہے ۔ آمین اور ان کی زبان تاعرصہ محشر دم ہمہ دم علیؓ علیؓ میں مشغول رہے ، اسی کو ولا کہتے ہیں ۔