خانہ جنگی کے بادل منڈلارہے ہیں

ڈاکٹر مجید خان
حالات زمانہ جس برق رفتاری سے ہندوستانی سیاست میں بدل رہے ہیں وہ ناقابل فہم ہوتے جارہے ہیں ۔ اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ 2014ء کے لوک سبھا انتخابات کے بعد سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اسکا اندازہ لگانا بھی ممکن نہیں ہے ۔ پرانی کہاوتیں بھی حالات کو بیان نہیں کرسکتی ہیں ۔ ممکن ہے اونٹ بیٹھے گا ہی نہیں ۔ ہندوستان میں روزانہ کچھ نہ کچھ انتہائی فکر انگیز تبدیلی آرہی ہے ۔ جس طرح سے ہندوستان کے سیاسی افق پر مودی کے بادل منڈلارہے ہیں وہ جمہوریت کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں ۔ بجلیاں کڑک رہی ہیں اور کس کے سر پر گرنے والی ہیں وہ غور طلب مسئلہ ہے ۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کئی مسلمانوں کے دل انتخابات کی خاطر موہ لینے کی جو ایک نئی حکمت عملی عمل میں لاتی جارہی ہے وہ بھی ایک فریب ہی ہے ۔ ایک طرف مودی طوفانی دوروں پر دھواں دھار تقاریر سے عوام کو متوجہ کرنے کی کوشش کررہا ہے تو دوسری طرف اسی پارٹی کے سربراہ راجناتھ سنگھ سے لیکر سب لوگ اس کی تقاریر سے جو غلط فہمیاں خاص طور سے مسلمانوں کے متعلق سے پیدا ہورہی ہیں انکے تعلق سے صفائیاں پیش کرنے کی مہم میں لگے ہوئے ہیں ۔ ساری سیاسی پارٹیاں ٹوٹ رہی ہیں اور انتشار کا شکار ہورہی ہیں ۔

یہ سلسلہ بھارتیہ جنتا پارٹی میں نہیں شروع ہوا کیونکہ اس پارٹی کے پیچھے راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ جیسی منظم جماعت ہے ۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد پہلی مرتبہ بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے مضبوط موقف میں آچکی ہے ۔ اقتدار حاصل کرنے میں صرف مسلمانوں کی حمایت یا مخالفت ہی اسکا بیڑا پار یا غرق کرسکتی ہے ۔ مودی تو کٹر ہندو راشٹرا کے مجاہد ہیں اس لئے وہ کھل کر مسلمانوں کی تائید نہیں کریں گے ۔ اسی لئے راجناتھ سنگھ اس مہم کو اپنے ذمے لئے ہوئے ہیں اور شاہنواز حسین اور نجمہ ہپت اللہ جیسی ہستیاں انکا ہاتھ بٹارہی ہیں ۔
ساری غیر فرقہ وارانہ ذہنیت رکھنے والی پارٹیاں مودی کے خطرے سے پوری طرح واقف ہوگئی ہیں اور اس کو اقتدار سے دور رکھنے کی کوشش میں متحد ہورہی ہیں ۔

جس جماعت سے یہ امید تھی کہ وہ بی جے پی کے سیلاب کو روکے گی وہ اتنی کمزور ہوچکی ہے کہ اسکا رہنا نہ رہنا برابر ہے ۔ کیا مودی اپنی فرقہ پرست ذہنیت کو خیرباد کہہ سکتا ہے ۔ ذرا اس موضوع پر غور کیجئے ۔ اسکی پرانی تقاریر میں وہ مسلمانوں کے خلاف جتنا زہر اگل سکتا تھا وہ اگل چکا ہے ۔ مسلمانوں کا جو گجرات میں موقف ہے اس سے کون واقف نہیں ۔ گو کہ بی جے پی یہ کہتی ہیکہ مسلمان گجرات میں بہ نسبت دوسرے مقامات کے خوشحال ہیں سراسر جھوٹ ہے اور مسلمانوں کو وہاں کی حکومت میں کسی قسم کا اختیار نہیں ہے ۔
اس کی کٹر فرقہ وارانہ ذہنیت اسکے کارناموں سے ظاہر ہوتی ہے ۔ سب سے پہلا کام جو اس نے کیا وہ امیت شاہ کو اترپردیش میں ایک اہم عہدہ دیا ۔ اگر مایا کوڈنانی طویل ضمانت پر رہا ہوتی تو وہ اس کو بھی اپنی موجودہ انتخابی مہم میں شریک کرلیا ہوتا ۔ مظفرنگر کے فسادات کے محرک ملزمین کو وہ اپنے ساتھ اسٹیج پر نوازا ۔ کیا شاہنواز حسین اور نجمہ ہپت اللہ یہ سب نہیں دیکھ رہے ہیں ۔ ایسی کئی حرکات وہ مسلسل کررہا ہے جس سے اس کی مسلم دشمنی علانیہ ثابت ہورہی ہے ۔

ابھی سے وہ اپنی مطلق العنانی کا سکہ منوانے کی مہم میں لگا ہوا ہے ۔ مگر کیا مودی صحیح معنوں میں آئندہ چند مہینوں میں ہندوستان کا وزیراعظم بن سکتا ہے ۔ گو کہ قرائن یہ بتاتے ہیں کہ انتخابی اعداد و شمار کے مطابق یہ ممکن نظر نہیں آرہا ہے مگر جس طرح سے سیاسی پارٹیاں اپنا رنگ بدلتی ہیں اسکی وجہ سے صورتحال غیر یقینی ہوتی جارہی ہے ۔
جو لوگ آج اس کے کٹر مخالف نظر آرہے ہیں وہ اپنے مفاد کی خاطر اس کی طرف جھک سکتے ہیں ۔ موجودہ حکومت سے بیزارگی اسکی معقول وجہ ہوسکتی ہے ۔ مودی کی حکومت کے پیچھے سنگھ پریوار کھل کر اپنی ہندوتوا کی پالیسیوں کو دستور ہند میں تبدیل کرنا چاہتا ہے ۔

عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی جارہی ہے ۔ بی جے پی کس منہ سے یہ کہہ سکتی ہے کہ وہ فرقہ پرست جماعت نہیں ہے جب کہ اس کے ساتھ سنگھ پریوار ، بجرنگ دل اور وشوا ہندو پریشد جڑے ہوئے ہیں ۔ اقتدار حاصل کرنے تک یہ لوگ خاموش رہیں گے ۔
فوج کے کئی سربراہ اور حال حال میں وظیفے پر علحدہ ہوئے عہدہ دار جوق در جوق بی جے پی میں جوش و خروش سے شامل ہورہے ہیں ۔ کل تک وہ عہدہ دار جو غیر جانبداری کی قسمیں کھاتے تھے اور حکومت کے انتہائی حساس شعبوں کے سربراہ رہے ہیں ۔ انکا ایک فرقہ پرست جماعت میں دوسرے ہی دن شامل ہونا کیا ان کے سیکولر کردار پر شک کی انگلی نہیں اٹھاتا ہے ۔ وہ بی جے پی کی نہج پر ہی سوچتے تھے اور کیا ان کے اہم فیصلوں کو مکمل طور پر غیر جانبدارانہ کہا جاسکتا ہے ؟

یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ انکا کردار ہمیشہ سے سیکولر رہا ہے اور رہے گا ۔ اگر یہ صحیح ہے تو ان میں اتنی تو اخلاقی جرأت ہونی چاہئے کہ یہ کہیں کہ ہم بی جے پی میں شرکت کررہے ہیں مگر وشوا ہندو پریشد ، بجرنگ دل اور سنگھ پریوار جیسی مشہور فرقہ پرست تنظیموں سے ہم متفق نہیں ہیں ۔ کسی نے بھی ایسا نہیں کیا ۔ بس یہ ایک اعلان انکے کردار کو بالاتر کردے گا اور انکے سچے سیکولر کردار کی برسرعام تصدیق کرے گا ۔ مودی اور انکے حامی مسلسل یہ دعوے کررہے ہیں کہ انکی حکومت میں فرقہ وارانہ فسادات بالکل نہیں ہوا کرتے ہیں ۔ گذشتہ دس سال میں گجرات میں ایک بھی فساد نہیں ہوا ۔ اسکے بجز اترپردیش میں مظفر نگر کے علاوہ بے حساب فسادات ہورہے ہیں ۔

کوئی بھی سیکولر لیڈر آج تک یہ نہیں کہا کہ دنگے کروانے والے فرقہ پرست ہی جب حکومت کررہے ہیں تو کیسے فسادات ہوسکتے ہیں ۔ اب تو آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت بھی مسلمانوں سے قربت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور سنا کہ انکی مسلمان دوستی کی ایک مہم سارے ہندوستان میں شروع ہوچکی ہے مگر یہ تو بہت بڑا فریب ہے ۔ صرف اقتدار ہاتھ میں لینے کے یہ ہتھکنڈے ہیں ۔ ایک بار اقتدار ان کے ہاتھ میں آجائے تو وہ اندرونی طور پر ہندو راشٹر کی بنیادیں مضبوط کرتے جائیں گے ۔ یہ مسلمانوں سے دوستی تو کریں گے ، مگر اس کے ساتھ یہ اعلان کیوں نہیں کرتے کہ ہم بابری مسجد کی دوبارہ تعمیر کریں گے ۔ ہم مسلم دشمن تنظیموں پر جو ان کی گود میں بیٹھی ہوئی ہیں پابندی لگائیں گے ۔ محض اس بات کی دہائی دے کر کہ ہماری حکومت میں مسلمانوں کے جان و مال کی حفاظت ہوگی اپنے پوشیدہ ایجنڈہ پر وہ پوری طرح سے مصمم ارادے کے ساتھ لگے ہوئے ہیں ۔

بہرحال ہندوستان کی آزادی کے بعد کی تاریخ میں اتنے خطرناک حالات کبھی بھی پیدا نہیں ہوئے تھے ۔ کتنے لوگوں کو یہ معلوم ہیکہ گجرات کے فسادات کے بعد آر ایس ایس میں مسلم ممبران کی ایک ذیلی جماعت بھی بنائی گئی ہے ۔ The Hindu, March 10 کے مطابق گو کہ ہر پارٹی سیکولر ہونے کا دم بھررہی ہے مگر یہ انتخابات صرف اور صرف فرقہ پرستی کے موضوع پر لڑے جارہے ہیں ۔ مودی اور ہٹلر اور نازی جماعت میں کوئی فرق نظر نہیں آرہا ہے ۔ وہ کسی کی پروا نہیں کرتا ہے ۔

معصوم مسلمان تو حالات کو سمجھ بھی نہیں سکتے ۔ نازی جماعت کا یہ طریقہ رہا ہیکہ جھوٹے دعوؤں کا اتنا منظم پروپگنڈہ کرے کہ لوگ اس کو صحیح ماننے لگیں اور یہی اس کی حکمت عملی ہے ۔ان انتخابات کے پیچھے جو سوشیل نٹ ورکنگ کا رول ہے اسکی وسعت کا اندازہ کرنا بھی ممکن نہیں ہے ۔ اگر آپ ٹوئیٹر پر بی جے پی یا پھر مودی کے خلاف کچھ بھی لکھیں تو بکھری ہوئی شہد کی مکھیوں کی طرح ان کے کارندے آپ کا پیچھا کریں گے اور آپ کو اتنا برا بھلا کہیں گے کہ آپ کی نیند حرام ہوجائے گی ۔
اب امید یہی کرنی چاہئے کہ جنوبی ہند ، مغربی بنگال اور اڑیسہ اس کے خلاف اپنے زیادہ لوک سبھا کی سیٹیں جیتیں کہ ان کو کسی صورت میں بھی قطعی اکثریت حاصل نہ ہو ۔ یہ بات تو مسلمہ ہیکہ مودی کسی مخلوط حکومت میں اپنی مطلق العنانی کو چلا نہیں سکے گا ۔ وہ تو صرف ڈکٹیٹرشپ چاہتا ہے اور اپنی من مانی کرنا چاہتا ہے ۔
اس الیکشن کے تھوڑے ہی دنوں بعد بہت ممکن ہے ایک بار پھر الیکشن ہوں ، اسکا قوی احتمال ہے ۔