خامہ فرسائی سے گریز کیوں؟

ڈاکٹر مجید خان
یہ میری فکر کی نئی دوڑ ہے ۔ تعلیم یافتہ اور دنیا کے حالات سے واقف لوگ اپنی سوانح عمری کیوں نہیں لکھتے ، مجھے دکھ ہوتا ہے یہ دیکھ کر ، مجھے نہیں معلوم کہ میری نانا نانی اور دادا دادی کے والدین کون تھے ۔ کاش میرے خاندان کے بزرگ خاندان کی تاریخ کہیں لکھ دئے ہوتے ۔ یہ بہترین خاندانی ورثہ اور اثاثہ ہمیشہ کیلئے غائب ہوچکا ہے ۔ یہ کیا ضروری ہیکہ نامور ہستیوں ہی کی سوانح عمریاں لکھی جائیں ۔ ان لوگوں کی جو سوانح عمریاں لکھی جاتی ہیں وہ اکثر پیشہ ور لوگ لکھتے ہیں ۔ ان میں ذاتی خیالات ، احساسات اور جذبات کی پہلے قلم سے عکاسی نہیں ہوتی ۔ سو سال پہلے کے واقعات اگر میرے دادا اور نانا لکھے ہوتے تو میری اپنی معلومات کتنی مفید ہوتی ۔ ہر پڑھا لکھا شخص اس موقف میں ہونا چاہئے کہ وہ اپنی زندگی کے تاثرات اس کے دور سے جڑے ہوئے لکھے مگر مجھے یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہیکہ 90 فیصد خواندہ لوگ بھی اپنی ذہنی کیفیت الفاظ میں ڈھال نہیں سکے وہ اس نفسیاتی حقیقت سے واقف نہیں ہیں کہ خیالات کے زبانی اظہار اور ان کو قلمبند کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔
یہ ہمارا موجودہ طریقہ تعلیم اور تدریس کی خامیاں ، گذرے ہوئے حالات سے شاکی رہنا ، سماج کی عصری تعمیری میں کوئی مدد نہیں کرتا ۔ مگر اس سے سبق حاصل کرتے ہوئے ہم کو چاہئے کہ کچھ ٹھوس کام کریں ۔ میری نظروں میں خاندانوں کیلئے یہ ایک کارآمد مشق ہوگی ۔ اگر ہر پڑھا لکھا شخص خاندان کی تاریخ اسکے اپنے مشاہدے کے مطابق ضبط تحریر میں لائے بظاہر یہ ایک غیر ضروری اور مہمل عمل سمجھا جاسکتا ہے مگر سنجیدہ طور پر اس پر غور کریں تو اسکی اہمیت اور افادیت واضح ہوجائے گی ۔
پہلی بات تو یہ کہ یہ آپ کے آبا و اجداد کی تاریخ کا ایک قیمتی اثاثہ ہے جو آپ کی زندگی کے بعد دھندلا ہوتا جائے گا اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مٹ جائے گا ۔ اب طبعی عمریں طویل ہوتی جارہی ہیں اور جن کا حافظہ محفوظ ہے ان کو تو کم از کم یہ کام کرنا چاہئے ۔ کوئی شعر و شاعری نہیں کرنی ہے ، تواریخ ، واقعات اور ناموں کا بھی اندراج ہوجائے تو اس کے ساتھ خیالات اور تصورات جڑنے کی خواہش پیدا ہوجائے گی مثلاً مجھے یاد ہیکہ میرے نانا کا غصہ مشہور تھا ۔ اسی طرح سے امراض کی تاریخ کی اہمیت بڑھ رہی ہے اور مستقبل میں اور بھی بڑھتی جائے گی ۔ خاص طور سے موروثی بیماریوں کی روک تھام کیلئے ۔ آجکل کے لوگ موبائل کے استعمال سے بخوبی واقف ہیں ۔ اسی طرح سے ان معلومات کو بھی نئی ٹکنالوجی سے محفوظ کیا جاسکتا ہے ۔ صرف ارادہ اور پیش قدمی درکار ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مدارس اور کالجوں میں اس موضوع پر توجہ دی جائے گی گوکہ عصری تعلیم میں مسائل کے حل کرنے پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے مگر زیادہ دماغی طاقت تو رٹنے یا بغیر سمجھے یادداشت میں محفوظ کرنے ہی میں لگ جاتی ہے اور یہ معلومات عارضی طور پر ہی محفوظ رہتی ہیں ۔ ان کا مسلسل اعادہ کرنے سے ہی برقرار رہتی ہیں ۔
ترسیل کے فن میں تقاریر اور مباحثے زیادہ ہوا کرتے ہیں اور تحریر کی تربیت بہت کم ہی دی جاتی ہے ۔
Communication skills ۔ اس ہنر میں مشق سے مہارت پیدا کی جاسکتی ہے ۔ آجکل چونکہ اعلی قسم کی ٹکنالوجی ہر کام کیلئے بآسانی دستیاب ہے اس کو بھی اپنی غور و فکر کا مددگار بنانا ضروری ہے ۔ یہ صرف آپ کا اپنا شخصی سرمایہ اور خزانہ ہوگا ۔ چونکہ قلم سے لکھنے میں دشواری ہوسکتی ہے اسلئے کمپیوٹر کے استعمال سے یہ عمل اور بھی آسان ہوگیا ہے ۔ رشتہ داروں کو جب معلوم ہوجائے گا کہ آپ اپنے خیالات محفوظ کررہے ہیں تو خواہشمند لوگ ضرور اسے پڑھنا چاہیں گے ۔ جب تک کہ ان کا اصرار شدت اختیار نہ کرے ان کی خواہش کو ٹالتے رہئے ۔ اس عمل سے ان میں نہ صرف اشتیاق بڑھے گا بلکہ وہ اس میں مزید اضافہ کرنے کی جستجو بھی کرینگے ۔ آج کل بچوں سے لیکر بوڑھوں تک عدیم الفرصت ہوتے جارہے ہیں ، ایکدوسرے کے ساتھ بیٹھ کر گفتگو کرنے کی عادت کم ہوتی جارہی ہے ۔ اب آپ کا موبائل آپ کا رفیق سفر بنتا جارہا ہے ۔ اسی کے استعمال سے مستفید ہوتے رہئے اور اپنے خیالات اور واقعات کا اندراج کرتے جایئے ۔ یہ ذوق پیدا ہونے کے بعد آپ لیپ ٹاپ کا استعمال کرسکتے ہیں تو لکھنا اور بھی آسان ہوجائے گا اور آپ اپنا ایک خاص کالم شروع کرسکتے ہیں جو صرف آپ کی آنکھوں کیلئے محدود کیا جاسکتا ہے اس کو Blog کہا جاتا ہے ، اس کے لئے آپ کو کوئی نامور ہستی ہونا ضروری نہیں ہے ۔ آپ اپنے خاندان کی تاریخ آپ کے دور میں جس سے آپ گذر رہے ہیں ان معلومات کو تحریر میں لانے سے ڈر اور خوف کی ضرورت نہیں ، املے اور زبان کے قواعد اور گرامر کو نظر انداز کیجئے ۔ میں دیکھتا ہوں کہ کئی لوگ تنقید کے خوف سے خاموش رہتے ہیں اب آپ ان پابندیوں سے اپنے آپ کو آزاد کرتے ہوئے حالات کا اپنے طور پر جائزہ لیجئے اور قلمبند کرتے رہئے ۔
یہ ہمارا سماجی اور خاندانی فریضہ ہے ۔ نامور تاریخی ہستیاں ، پیشہ ور مورخین اور تاریخ دانوں کی مدد سے اپنی زندگی میں یا بعداز مرگ انکے چاہنے والے لکھواتے ہیں ۔
مورخ کی اپنی سوچ اور شخصیت کی جھلک اس میں نظر آتی ہے ۔ کوئی مورخ تاریخ میں کسی کے تعلق سے مدح کے سوا اور کچھ نہیں لکھتا بلکہ اس ہستی کے مشہور تنقیدی واقعات کو نظر انداز کرتا ہے تو اس کی صداقت پر کس کو بھروسہ آئے گا ۔ توصیف نامے نہیں بلکہ شخصی معلومات چاہئے ۔
بعض لوگ اپنی زندگی میں اپنی سوانح عمری لکھواتے ہیں اور اسکے لئے وہ پیشہ ور لکھنے والوں کی خدمات منہ مانگی قیمت ادا کرتے ہوئے حاصل کرتے ہیں ۔ اس کی حالیہ بہترین مثال Apple Computer کے موجد STEVE JOBS کی ہے ۔ عوام اسکی زندگی کے حالات جاننا چاہتے تھے کیونکہ اس نے کمپیوٹر کی ٹکنالوجی کے لانے میں انقلابی اور تاریخی کارنامہ انجام دیا مگر اپنی سوانح عمری خود لکھ نہ سکا بلکہ لکھوایا ۔ یہ پڑھنے کے قابل ہے ۔ نوجوانوں کو تو کم از کم اس کو پڑھنا چاہئے ۔ وہ ایک سڑک چھاپ فٹ پاتھ پر کبھی کبھار رات گذارنے والا ، آوارہ ، خانہ بدوش ، لاپرواہ انسان اپنا نام ٹکنالوجی کی تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر وقت سے پہلے اس دنیا سے کوچ کرگیا ۔
محض اپنی ضد کی وجہ سے وقت پر کینسر کا آپریشن نہیں کروایا ۔ انتہائی ناگفتہ بہ اسکا کردار اور رویہ تھا اور سنا کہ مہینوں غسل نہیں کرتا تھا ۔ اسکے برعکس اوباما نے بذات خود اپنی زندگی کے حالات بہت ہی متاثرکن اور دلچسپ انداز میں لکھے ہیں مگر میں نوجوانوں کو اس لکھنے کے عمل کی ترغیب دینا چاہتا ہوں تاکہ وہ اپنے تجربات کو لکھیں ۔ دیکھئے کتنی قیمتی معلومات آصفجاہی دور کے اس وقت انکے اپنے طور پر لکھے ہوئے ہمیں دستیاب نہیں ہوئی ہیں ۔ کاش مکرم جاہ اور مفخم جاہ اپنی سوچ اور خیالات سے ہم کو واقف کرواتے ۔ سالار جنگ کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں سے ہم ناواقف ہیں مگر میری خواہش ہیکہ اس سمت میں کم از کم ہم غور کرنا شروع کریں کیونکہ غور و خوض کے بعد اندرونی تحریک پیدا ہوتی ہے ۔
آپ جو گفتگو کرتے ہیں اس کو مختصر طور پر لکھتے جایئے تو اسکا فیض عیاں ہونا شروع ہوگا ۔
نوٹ : گذشتہ ہفتے کے مضمون میں بعض الفاظ سہواً غلط شائع ہوئے جسکی وجہ سے جملہ بے ربط ہوگیا اور معزز قارئین کو گراں ثابت ہوا ہوگا ۔ میں معذرت خواہ ہوں ۔
مثلاً اور عوام پر اپنے عزائم اور اپنے خیالات کی جگہ عزائم اور اشتہارات چھپا جو بے معنی ہوگیا ۔
شروع میں میں نے جناب منتصر احمد صاحب کا ذکر کیا انکا صحیح نام منتصر احمد ہے نا کہ مستنصر احمد
انکی خواہش پر میں نے حالات حاضرہ پر یہ مضمون لکھا تھا ۔