کے این واصف
سعودی عرب میں برسرکار خارجی باشندوں کو ایک عرصہ بعد ایک اچھی خبر ملی۔ وہ یہ کہ خارجی باشندے جو اپنے اہل و عیال کو لمبی چھٹی پر وطن بھیجے ہوئے ہوتے ہیں ، ان متعلقین کی سعودی عرب میں غیر موجودگی کے باوجود ان کے اقامے (Residence Permit) تجدید کروائے جاسکتے ہیں۔ یہاں کے مقامی اخبارات میں شائع ایک مصدقہ خبر کے مطابق محکمہ پاسپورٹ (جوازات) نے بتایا ہے کہ مرافقین (فیملی) یا تابعین (دیگر رشتہ دار) کے اقاموں کی تجدید ان کے بیرون مملکت میں موجود ہو اور ان کا خروج و عودہ موثر ہو۔ سعودی عرب میں مقیم ایک غیر ملکی نے ٹوئیٹر پرمحکمہ پاسپورٹ سے دریافت کیا تھا کہ میرا اقامہ ربیع الثانی 1440 ھ میں ختم ہورہا ہے ۔ میرے اہل و عیال خروج و عودہ (Exit, Re-entry) پر بیرون م لک ہونے کی صورت میں بھی ہوسکتی ہے۔ بشرطیکہ فیملی کا سربراہ، مملکت گئے ہوئے ہیں کیا میں رجب 1440 ھ تک مرافقین فیس ادا کر کے اقامہ کی تجدید کراسکتا ہوں ؟ مقیم غیر ملکی کا مقصد یہ بھی ہے کہ آیا وہ اپنے مرافقین اور تابعین کے خروج و عودہ کے ویزے میں توسیع بھی کراسکتا ہے ؟ محکمہ پاسپورٹ نے اس کے جواب میں بتایا کہ اگر فیملی کا سربراہ مملکت میںموجود ہے اور اس کے مرافقین یا تابعین خروج عودہ پر باہر گئے ہوئے ہیں تو ایسی حالت میں ان کے اقامے کی تجدید کی جاسکتی ہے ۔ جہاں تک خروج و عودہ کے ویزے میں توسیع کا تعلق ہے تو اس حوالے سے اسے وزارت خارجہ سے رجوع کرنا ہوگا ۔
اکثر خارجی باشندے جب ان کے بچے بڑے ہوجاتے ہیں اور اسکولی تعلیم مکمل کرلیتے ہیں تو وہ انہیں اعلیٰ تعلیم کیلئے لمبی چھٹی پر وطن بھیج دیتے ہیں لیکن وہ اپنے بیوی بچوں کو خروج (Exit) پر نہیں بلکہ خروج و عودہ پر وطن بھیجتے ہیں ۔ اس صورت میں یہ ہوتا تھا کہ اگر اہل و عیال طویل خروج عودہ پر ہیں اور اس درمیان ان کا اقامہ ختم ہورہا ہے تو انہیں سعودی عرب آکر اقامہ تجدید کرواکر پھر سے لمبی چھٹی لگاکر وطن جانا پڑتا تھا ۔ اس کارروائی کی تکمیل میں سعودی عرب کے آنے جانے سے بچوں کی تعلیم پر اثر ہوتا بلکہ یہ ایک بڑے خرچے والی بات بھی ہوتی تھی لیکن اب فیملی کے یہاں موجود نہ ہونے پر بھی اقامہ تجدید کروایا جاسکتا ہے ۔ خارجی باشندوں کیلئے اسے سعودی حکومت کی جانب سے ایک بڑی سہولت کہا جاسکتا ہے ۔
پچھلے ہفتہ whatsapp پر خارجیوں کے لئے اچھی خبر کے نام پر دو افواہیں بھی پھیلائی گئیں تھیں ۔ حکومت کی جانب سے تردید کے بعد یہ خبر کا وائرل ہونا بند ہوا ۔ خبریں یہ تھیں کہ حکومت نے لیبر فیس اور فیملی فیس کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو ایک بے بنیاد خبر تھی ۔ بہرحال Whatsapp پر افواہیں پھیلانے والے ہر ہفتہ دو ہفتہ بعد کچھ نہ کچھ افواہ پھیلاتے ہیں جس کے بعد حکومت کو ان کی تردید کرنی پڑتی ہے ۔ اب پتہ نہیں افواہیں پھیلانے والوں کو اس سے کیا حاصل ہے۔
حفظ الرحمن کی وداعی تقاریب
ڈاکٹر حفظ الرحمن فرسٹ سکریٹری سفارت خانہ ہند ریاض کو وزارت خارجہ ہند نے سفیر برائے شام نامزد کیا ہے ۔ وہ جلد شام میں اپنے عہدہ کا جائزہ حاصل کریں گے ۔ حفظ الرحمن انڈین کمیونٹی میںایک مقبول ترین سفارتکار مانے جاتے ہیں۔ لہذا ریاض کی کئی سماجی تنظیموں نے اجتماعی طور پر ’’انڈین کمیونٹی ان ریاض‘‘ کے بیانر تلے بڑے پیمانے پر ایک الوداعی تقریب کا اہتمام کیا ۔ ایک مقامی پانچ ستارہ ہوٹل میں منعقدہ اس تقریب میں انڈین کمیونٹی کے مرد و خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد نے شرکت کی ۔ اس تقریب میں قائم مقام سفیر ہند ڈاکٹر سہیل اعجاز خان نے بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کی ۔
تقریب کا آغاز قاری عثمان ترمذی کی قراء ت کلام پاک سے ہوا جس کے بعد سلیم ماہی کی ڈاکٹر حفظ الرحمن پر تیار کی گئی ڈاکیومنٹری پیش کی گئی ۔
مہمان خصوصی ڈاکٹر سہیل اعجاز خاں نے اس موقع پر مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر حفظ الرحمن ایک محنتی اور ذہین سکازتکار ہیں۔ ڈاکٹر سہیل نے کہا کہ ہم نے جدہ قونصلیٹ میں ساتھ کام کیا ۔ حفظ الرحمن سفارت خانہ ہند کیلئے ایک اثاثہ مانے جاتے ہیں ۔ انہوں نے سفارت خانے میں دیگر ذمہ داریوں کے علاوہ نگران شعبہ سیاسی امور کو بڑی مہارت کیسے ساتھ سنبھالا۔ عربی زبان پر حفظ الرحمن کی قدرت ایک قابل ستائش بات ہے۔
ڈاکٹر حفظ الرحمن نے اپنے خطاب میں تمام سماجی تنظیموں کے اراکین جنہوں نے اس محفل سے خطاب کیا اور انہیں خراج پیش کیا اور شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ کوئی سفارتکار انفرادی طور پر کچھ نہیں کرسکتا جب تک اس کو کمیونٹی اور ایمبسی کے رفقائے کار کا تعاون حاصل نہ ہو ۔ انہوں نے کہا کہ ریاض میں اپنے قیام کے دوران میں نے کمیونٹی کیلئے جو کیا اس میں مجھے سفارت خانے کے رفقائے کار اور کمیونٹی کا بھرپور تعاون حاصل رہا ۔ ڈاکٹر حفظ الرحمن جو مملکت کے سارے انٹرنیشنل انڈین اسکولس کے نگران بھی تھے ، نے کہا کہ ان اسکولس میں جو کچھ طریقہ کار اپنایا جاتا ہے وہ وزارت تعلیم مملکت سعودی عربیہ کے قوانین اور رہنمانیہ خطوط پر ہوتا ہے ۔ اولیائے طلباء کو چاہئے کہ وہ اسکول انتظامی کمیٹی کی کارکردگی پرنظر رکھیں اور تعمیری تنقید کرتے رہیں اور تنقید برائے تنقید سے احتراز کریں۔
اس محفل سے پرواسی بھارتیہ ایوارڈ یافتہ کے شہاب ، صدر سائنٹسٹ اینڈ ریسرچرز اسوسی ایشن ڈاکٹر مصباح العارفین ، نیاز احمد صدر بہار فاؤنڈیشن ، امتیاز احمد صدر تمل اسوسی ایشن ڈاکٹر ندیم ترین چیرمین دہلی پبلک اسکول ، تقی الدین میر صدر ہندوستانی بزم اردو ریاض ، محمد قیصر صدر تنظیم ہم ہندوستانی ، سید آفتاب علی نظامی صدر جامعہ ملیہ المنائی اسوسی ایشن ، عبدالرحمن صدر حیدراباد اسوسی ایشن ، ڈاکٹر انعام اللہ صدر اعظم گڑھ اسوسی ایشن ، محمد شاہین بہار انجم ، غلام خاں راجستھان اسوسی ایشن اور محمد عبدالجبار صدر تلنگانہ این آر آئیز اسوسی ایشن نے خطاب کیا ۔ اس کے علاوہ سینکڑوں کی تعداد میں ہندوستانیوں نے ڈاکٹر حفظ الرحمن کو گلدستہ، شال اور تحائف پیش کئے ۔
اس محفل میں راقم نے ڈاکٹر حفظ الرحمن پر ایک خاکہ پیش کیا جس کا عنوان ’’بے ریش سفیر حرم ‘‘ تھا جبکہ اسلم نور خاں نے منظور خراج تحسین پیش کیا ۔ محمد ضعیم خاں اور انجنیئر سہیل احمد نے دلچسپ انداز میں تقریب کی نظامت کی ۔ سابق صدر اموبا عبدالاحد صدیقی کے ہدیہ تشکر پر محفل کا اختتام عمل میں آیا ۔
ڈاکٹر رحمن نے اپنی ماسٹرز ڈگری اور پی ایچ ڈی جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی سے حاصل کی ۔ اس مناسبت سے جامعہ ملیہ اسلامیہ المنائی اسوسی ایشن نے الگ سے حفظ الرحمن کے اعزاز میں بڑے پیمانہ پر ایک الوداعی تقریب کا اہتمام کیا جس میں سابق طلباء کی ا یک بڑی تعداد کے علاوہ ریاض کی سماجی تنظیموں کے اراکین کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس محفل سے خ طاب کرتے ہوئے ڈاکٹر رحمن نے اسوسی ایشن کے اراکین میں اتحاد قائم رکھنے کی تلقین کی ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اپنے قیام ریاض کے دوران انہیں کمیونٹی کا بھرپور تعاون حاصل رہا جس کے لئے وہ کمیونٹی کے شکر گزار ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کسی بھی ادارے یا تنظیم پر تنقید کا حق سب کو حاصل ہے مگر یہ تقنید برائے اصلاح ہو نہ کہ صرف برائے تنقید
جن افراد نے اس تقریب میں ڈاکٹر حفظ الرحمن کو خراج تحسین پیش کیا ، ان میں ڈاکٹر ندیم ترین ، سلمان اعظمی ، خورشید انور ، انعام اللہ اعظمی ، مرشد کمال ، انیس الرحمن شہاب الدین ، انجنیئر عزیز الدین ، سہیل احمد ، مصباح العارفین ، شامل تھے۔ محفل کا آغاز محمد حمدان انور کی قرات کلام پاک سے ہوا ۔ سید آفتاب علی نظامی نے مہمانوں کا خیر مقدم کیا ۔ ڈاکٹر عبدالرحمن خاں نے نظامت کے فرائض انجام دیئے ۔ عابد عقیل کے ہدیہ تشکر پر محفل کا اختتام عمل میں آیا ۔