سعودی عربیہ جہاں پر دنیا میں سب سے زیادہ سزائے موت سنائی جاتی ہے‘ وہ ایک 29سالہ خاتون جہد کار کو سزائے موت سنانے کا اقدام اٹھارہا ہے جس پر شیعہ مسلم اقلیت کے حقوق کے لئے احتجاج کی حوصلہ افزائی کا الزام ہے۔ ہومین رائٹ واچ کی اڈوئزری گروپ نے اس بات کی جانکاری دی ہے۔
ولعہد سعودی محمد بن سلمان دنیابھر میں خود کو قدامت پسند مملکت میں اصلاحات کا موجد کے طور پر پیش کرتے ہیں تاکے آزاد معیشت بن سکتے ۔
مگر اس کے برعکس ہومین رائٹس اور قانون کی بالادستی کی ان کی کوششوں کو کمزور بنارہی ہے۔سعودی عرب میں زیادہ تر سزائے سر قلم کی ہوتی ہیں‘ ایک طریقے کار جس کے ذریعہ پچھلے چار سالوں میں48لوگوں کا قتل کیاگیا ہے۔
سعودی عرب نے کئی خواتین کو سزائے موت سنائی ہے اور شیعہ کارکنوں کو دہشت گردی اور سیاسی جرائم کے الزام میں موت کی سزا بھی سنائی گئی ہے۔
پرامن سیاسی جرم کے لئے ایک عورت کو سب سے بڑی سزاء کا مطالبہ بڑا غیر معمولی ہے۔منگل کے روزجاری کردہ اپنی رپورٹ میں ہیومن رائٹ واچ نے کہاکہ مذکورہ کیس’’ سلاخوں میں پیچھے قید دیگر خواتین کے لئے ایک خطرناک مثال پیش کرتا ہے‘‘۔
واشنگٹن میں موجود سعودی سفارت خانہ ردعمل کی درخواست پر فوری جواب نہیں دیا۔کیس کی مرکز توجہہ اسرا الگھوم گھام جو ایسٹرن صوبے کے قطیف میں احتجاج کرنے کے لئے الزام میں گرفتار چھ لوگوں کے ساتھ قید ہیں۔
بھڑکاؤ نعرے‘ مملکت کے خلاف سازش ‘ عوامی رائے کو اکسانے کی کوشش‘ احتجاج کی منظر کشی اور سوشیل میڈیاپر پوسٹ کرنے اور فساد برپا کرنے والوں کو بنیادی مدد فراہم کرنے کا الزام عائد کیاگیا ہے۔ وکیل استغاثہ نے پانچ بشمول گھوم گھام کو سزائے موت کی مانگ کی ہے۔
حال ہی میں سعودی عربیہ نے ایک درجن سے زائد خاتون کارکنوں کو ڈرائیونگ کے حقوق کے لئے احتجاج کرنے کے الزام میں گرفتار کرلیاہے‘ ان کی گرفتاری اس لئے بھی قابل غور ہے کیونکہ ایک کنگ سلمان کی اڈوائزری پر ہوئی ہے ‘ ولعیہد وہیں خاتون ڈرائیور پر سے تحدیدات ہٹارہے ہیں۔