تلنگانہ و اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
شہر حیدرآباد کی طرزِ زندگی اور رہائشی زندگی کا جائزہ لینے والے ایک سروے رپورٹ میں بلاشہ خوش آئند اور قابل تحسین بات یہ درج کی گئی ہے کہ حیدرآباد شہر ساری دنیا میں 139 واں مقام اور مرتبہ رکھتا ہے جو انسانوں کے لئے زندگی گذارنے کا بہترین مقام ہے۔ حیدرآباد کو ترقی دینے والے ماضی کے حکمرانوں نے انسانوں کی بستیوں کو رہنے کے قابل بنایا تھا۔ حضور نظام کے دور میں جو کچھ ترقی ہوئی تھی، اس کا نتیجہ ہے کہ آج کی دوڑ دھوپ اور گنجان آبادی والے اس شہر میں انسانوں کے رہنے کے قابل ماحول دستیاب ہے مگر موجودہ حکمرانوں نے اس شہر کی فضاء اور رہنے کی زمین کو اتنا تنگ کردیا ہے کہ اس کے اپنے مسائل پیدا ہوتے جارہے ہیں جو عالمی سروے کی نظر سے اوجھل دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں رہنے والوں کو ہی اندازہ ہے کہ اس شہر کے سینے میں کتنے تکلیف دہ راز پوشیدہ ہیں۔ ایک اچھے رہائشی علاقہ والے شہر میں پینے کا پانی، صاف ستھری ہوا، اسکولس، دواخانے اور حمل و نقل کی عمدہ سہولتیں ہونی چاہئے۔ شہر حیدرآباد کے مکینوں کو ان سہولتوں سے کس حد تک استفادہ کا موقع مل رہا ہے ، وہ خود جانتے ہیں۔ جو شہر عالمی سروے رپورٹ میں گزشتہ سال 138 ویں مقام پر تھا، اب وہ ایک سیڑھی نیچے اُتر گیا ہے تو یہ موجودہ حکومت اور اس کے نظم و نسق کے لئے غور طلب امر ہے۔ حالیہ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن انتخابات میں عوام الناس کا بھروسہ حاصل کرتے ہوئے کامیاب ہونے والی حکمراں ٹی آر ایس کے سامنے عالمی سروے کی زمرہ بندی ،اس کی کارکردگی اور ایک سالہ حکمرانی پر سوالیہ نشان لگاتی ہے کیوں کہ گزشتہ سال جس شہر کا درجہ 138 واں مقام پر تھا، وہ گھٹ کر 139 ویں مقام پر آگیا ہے تو انسانوں کی رہنے کی بستیوں میں بلاشبہ بے شمار مسائل پیدا ہوئے ہوں گے ۔ شہریوں کے لئے خوشی کی بات یہ ہے کہ سارے ہندوستان کے شہروں میں حیدرآباد اول درجہ کا مقام رکھتا ہے، اس کے بعد پونے کو دوسرا مقام حاصل ہوا۔ بنگلورو جیسے میٹرو پولیٹن شہر کو تیسرا مقام دیا گیا ہے۔ تلنگانہ اور حیدرآباد میں سرکاری اسکولوں کی ابتر حالت پر خود چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے تشویش ظاہر کی ہے۔ چیف منسٹر کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ تلنگانہ ریاست کے دارالحکومت کی بنیادی ضرورتوں اور تقاضوں کو جنگی بنیادوں پر پورا کرنے پر توجہ دیں۔ بلدیہ کی ٹیکس وصولی ٹیموں کو متحرک کرنے کے ساتھ بلدی قوانین میں مزید اصلاحات لاکر موجودہ قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرکے یہاں سے ریوینیو کو بہتر بناتے ہوئے شہریوں کو بھی بہتر خدمات فراہم کی جاسکتی ہے۔ وہ اب تک بلدیہ میں اًللّے تللّیوالے سرکاری کلچر اور بلدی مزاج کو ہی اختیار کیا جاتا رہا ہے لیکن اب ٹی آر ایس کے کارپوریٹرس نے اقتدار سنبھالا ہے تو مقامی جماعت کے چونچلے اور اَللّے تللّے کی سیاست کو دور رکھ کر عوام کی خدمت کی جائے، بلدیہ کی دولت کو لوٹ کر اپنے گھروں کے فانوس روشن کرنے کی عادت فوری ترک کردینی چاہئے ۔
ٹی آر ایس کے کارپوریٹرس کی ذمہ داری ہوگی۔ بلدیہ کی آڑ میں سیاسی کنبہ پروری عروج پر ہوا کرتی تھی۔ ان حقائق کی جانکاری رکھنے کے بعد چیف منسٹر اور ان کے نئے کارپوریٹرس کو ایک صف ہوکر شہر کی ترقی کی جانب فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ سال جب بہترین شہروں کی عالمی سطح کی زمرہ بندی ہوگی تو اس میں شہر حیدرآباد کو بہتر سے بہتر مقام مل سکے۔ تلنگانہ خاص کر شہر حیدرآباد میں سرکاری اسکولوں کی حالت زار کا نوٹ لینے کے ساتھ سرکاری خزانے سے 20,000 کروڑ روپئے خرچ ہونے کے باوجود مایوس کن معیار تعلیم کی وجوہات کا پتہ چلانا ضروری ہے۔ شہر حیدرآباد کا ذکر عالمی سطح پر ہورہا ہے تو اس کے ساتھ ہی اس شہر کے اندر ہونے والے دینی اجتماعات اور مسلمانوں کے طرز زندگی کی کیفیت کا بھی تذکرہ ایک دن عالمی سطح پر ہوسکتا ہے، کیونکہ حیدرآباد میں ماضی کے مقابل ان دنوں دینی درس گاہوں کی تعداد قابل لحاظ ہوچکی ہے۔ کل تک تاریخی جامعہ نظامیہ اور اس کے فارغین ہی شہر کی اصل شناخت ہوا کرتے تھے، اب شہر میں مختلف مکتب فکر کی حامل شخصیتوں نے اپنے وجود کے ذریعہ مسلمانوں کی رہنمائی کا ذمہ لیا ہے۔ شہر میں ہر خاص و عام موقع پر دینی جلسے اور اجتماعات ہوتے ہیں جن میں مسلمانوں کو اسلامی زندگی کے تقاضوں سے باخبر کیا جاتا رہا ہے۔ اس کے ساتھ مسلمانوں میں فروغ پانے والی دینی، مسلکی اور فروعی اختلافات پر بھی تشویش ظاہر کی جاتی رہی ہے، مگر برسوں سے ایسے اجتماعات اور تقاریر ان کے ذریعہ مسلمانوں کو متحد کرنے کی کوشش کا نتیجہ صفر ہی نکلتا رہا ہے۔ جو لوگ مقرر کے ادا کردہ جملوں اور مصنف کے لکھے ہوئے لفظ میں من مانا مطلب تلاش کرتے ہیں اور پھر مشتعل ہوجاتے ہیں۔
دینی مدرسوں، دینی اجتماعات اور مذہبی مجلسوں میں اپنی اسلامی قابلیت کا مظاہرہ کرکے اب تک ہزاروں اللہ کے نیک بندے اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں لیکن مسلمانوں میں پائے جانے والے فروعی اختلافات، دینی مسائل اور مسلکی جھگڑے ختم نہیں ہوئے۔ حال ہی میں شہر کی دینی درس گاہ ’’المعہدالعالی الاسلامی‘‘ کی جانب سے سہ روزہ ’’سیرت النبیؐ سیمینار‘‘ منعقد کیا گیا جس میں مقررین نے مسلمانوں کو یہی تلقین کی کہ وہ فروعی اختلافات فراموش کرتے ہوئے متحد ہوجائیں جن مسلمانوں کی زندگی اسوۂ نبی کریمؐ کی رہنمائی میں گذارتے ہوئے باہمی اختلافات کو اپنے قریب پھٹکنے نہیں دینا چاہئے۔ اس طرح کی تلقین مسلمانوں کیلئے نئی بات نہیں ہے۔ گذشتہ کئی عشروں سے ہندوستانی مسلمان خاصکر حیدرآباد کے مسلمان ایک کرب سے زندگی گذار رہے ہیں۔ سیاستدانوں کی سازشوں کے ذریعہ تیارکردہ خطرناک منصوبوں اور چیلنجس مسلمانوں کیلئے مسلسل درپیش رہے ہیں۔ لیکن یہ مسلمان ہیں کہ اپنے باہمی اختلافات کو فراموش کرکے متحدہ طور پر حقوق، سلامتی ، تعلیم، روزگار، تحفظات پر توجہ نہیں دیتے۔ ملک کی ایک ریاست ہریانہ سے تعلق رکھنے والا جاٹ طبقہ اپنے لئے کوٹہ کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت کی نیند حرام کرسکتا ہے اور مٹھی بھر آبادی رکھنے کے باوجود ریاستی چیف منسٹر سے لیکر مرکزی حکومت کے سامنے لنجس کھڑا کرکے اپنے حق میں کوٹہ منظور کرانے میں کامیاب ہوسکتا ہے تو ہندوستان کی دوسری سب سے بڑی آبادی کا موقف رکھنے والا مسلمان محض اپنے فروعی اختلافات، مسلکی جھگڑوں اور عود دان، اگالدان، پاندان کی چکر میں خود کا بڑا خسارہ کرتا جارہا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ کیا نہیں ہوا، آج کا مسلمان اندرونی و بیرونی دونوں خطرات سے گھرا ہوا ہے۔ اندرونی خطرہ یہ ہے کہ اس کے مذہبی معاملوں اور فروعی اختلافات میں منتشر کرکے رکھا گیا ہے تو بیرونی خطرہ فرقہ پرستوں، حکومت کی سازشوں سے ہے۔
اس پس منظر میں ہندوستان میں سرچڑھتی ہندو بنیاد پرستی مسلمانوں کی آنے والی نسلوں کیلئے نئے چیلنجز پیدا کردے گی۔ مسلمانوں کی موجودہ نسل اس بات پر غور کرسکتی ہے کہ اگر ان کے اندر بتدریج اختلافات کا زہر فروغ پاتا رہے اور وہ انتشار پسندانہ زندگی گذار کر چلے جائیں تو ان کی اولاد اور پھر اولاد کی اولاد کے لئے وہ کونسی اسلامی زندگی چھوڑ کر جائیں گے۔ بہر حال ذکر چل رہا تھا شہر حیدرآباد کی ترقی اور اس کی خوشحالی کا، اس شہر کی اکثریتی آبادی میں مسلمان ہی سرفہرست ہیں۔ یہ مسلمان جن بستیوں میں رہتے ہیں ان کے گلی کوچے بتاتے ہیں کہ یہاں مسلمان رہتے ہیں۔ جبکہ مسلمانوں کو تعلیم دی جاتی ہے کہ پاکیزگی آدھا ایمان ہے پھر بھی ان کے گھروں کے سامنے سے موریوں کو ابلتے اور گندے پانی کو بہتے ہوئے دیکھا جاتا ہے، اس اُبلتی ہوئی موری کے پانی کو پھلانگ کر مسلمان مسجد کو پہنچتے ہیں، جاتے جاتے راستہ میں کچرے سے اُبلتی ہوئی کنڈیوں اور اس سے پھیلنے والی بدبو سے بچنے اپنی ناک کو رومال کو بند کرلیتے ہیں یا کرتے کی آستین سے ناک میں گھسنے والی بدبو کو روکتے ہیں اور بلدی نظم و نسق کی لاپرواہی پر کوستے ہیں جبکہ یہ نہیں سوچتے کہ غلاظت، اُبلتی موریاں اور کچرے کے انبار ان ہی کے گھروں سے نکل کر باہر پھیلتے ہیں۔ اگر ہم ایک لاپرواہی کرتے ہیں تو نظم و نسق کئی لاپرواہیوں کا مظاہرہ کرتا ہے۔ لہذا اگر ہم کئی گنا پاکیزگی کا مظاہرہ کریں تو بلدی نظم و نسق سے ایک حصہ اچھائی کی توقع کی جاسکتی ہے مگر اپنے اندر کے مزاج کو نہیں بدلتے دوسروں کا مزاج بدل جانے کی امید رکھتے ہیں۔ یہ ایک دوسرے پر تنقید کرنے کا وقت نہیں ہے بلکہ نہایت ہی سنجیدگی کے ساتھ ساری صورتحال کا جائزہ لینے کا وقت ہے۔
kbaig92@gmail.com