ڈاکٹر آمنہ تحسین
مو لا نا آزاد نیشنل اردو یو نی ورسٹی۔حیدرآباد
چلے آئو سیّاں رنگیلے، میں واری رے
چلے آئو سیّاں رنگیلے ،میں واری رے
سجن مو ہے تم بن بھا ئے نہ سنگار
نہ کاجل ،نہ سرخی ،نہ مسّی،نہ مہندی
چلے آئو سیّاں رنگیلے، میں واری رے
فلم ’’ بازار‘‘ میں فلمایا گیا یہ گیت شائقینِ موسیقی نے بارہا دیکھا اور سنا ہو گا۔ لیکن اس گیت کی خا لق کے متعلق شاید ہی کسی کو پتہ ہو گا۔خیّام کی مو سیقی سے سجا ‘یہ گیت دراصل حیدرآباد ی ڈھولک کے گیتوں کی ماہر اور مقبولِ عام خاتون محترمہ ارجمند نظیر کا تحریر کردہ اور ان ہی کی آواز میں ریکارڈ کیا ہوا ہے۔ ارجمند نظیر کو طب کی دنیا کے افراد ڈاکٹر بلقیس جہاں نادری کے نام سے جا نتے ہیں۔اور آل انڈیا ریڈیو حیدرآباد کے سامعین ڈھولک کے گیتوں کی ماہر’’ارجمند نظیر ‘‘کے نام سے واقف ہیں۔آل انڈیا ریڈیو سے نشر ہو نے والے ثقافتی پروگرام’’ ڈھولک کے گیت ‘‘ سے اپنی سحر انگیز آواز نیز ڈراموں میں اپنی صدا کاری سے جان ڈا ل دینے والی شخصیت ارجمند نظیر حیدرآباد میں ۱۹۳۸ء میں پیدا ہوئیں۔ان کے آبا واجداد کا تعلق نادر شاہی خاندان سے رہا ہے ۔اس خاندان کے افراد آصف جاہ اوّل کے دور میں حیدرآباد آکر بس گئے تھے ۔ حیدرآباد میں انھیں منصب دار و جاگیردار کی حیثیت حاصل تھی ۔ محلہ چنچل گوڑہ اور پرانی حویلی میں ان کی جاگیریں تھیں۔ ارجمند نظیر کے والد سلطان چنگیز علی خاں تجارت کے سلسلے میں مختلف اضلاع میں سکونت پذیر ہو ئے تھے ۔اسی لیے ارجمند نظیر کی ابتدائی تعلیم حیدرآباد کے علاوہ گلبرگہ اور نظام آباد کے اسکولوںمیں بھی انجام پائی۔انھوں نے چادر گھاٹ ہائی اسکول سے سینئر سکنڈری میںکامیابی کے بعد نظامیہ طبیہ کالج سے ۱۹۵۶ء میں یو نانی میڈیسن کی تعلیم مکمل کی۔پھر علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی سے طبِ یونانی میں اعلیٰ مہارت کے کورس کی تکمیل کے بعد ڈگری کی مستحق قرار دی گئیں۔ انھوں نے ابتداء میںمختلف اضلاع کے یونانی شفاخانوں میں خدمات انجام دیں۔ بعد میںنظامیہ جنرل ہاسپٹل ، حیدرآباد کے نہایت اہم عہدوں پر فائزہوئیں اور ایڈیشنل ڈائرکٹر کے باوقار عہدے پر خدمت انجام دینے کے بعد ۱۹۹۶ء میںسبکدوش ہو ئیں۔اس تمام عرصہ میں ارجمند نظیر کے نام سے آل انڈیا ریڈیو پر ڈھو لک کے گیتوں اور ریڈیائی ڈراموں میں مختلف کرداروں کی پیش کشی کے ذریعہ حیدرآباد کی تہذیبی زندگی کااہم حصّہ بنی رہیں۔ارجمند نظیر کے رفیقِ حیات ڈاکٹر نظیر احمد صدیقی بھی نہایت کا میاب طبیب تھے ۔وہ پہلے طبیب تھے جنھوں نے فالج کے موضوع پر نہایت اہم تحقیقی مقالہ قلمبند کیا تھا ۔ ارجمند نظیر کی یادوں میں حیدرآباد کی معاشرتی و تہذیبی زندگی کے بے شمار نقوش محفوظ ہیں۔ہمارے ساتھ ہوئی طویل گفتگو میں انھوں نے حیدرآباد کی تہذیبی زندگی کے مختلف پہلو ئوں پر روشنی ڈالی۔اس کی ایک چھوٹی سی جھلک ملاحظہ کیجیے۔
٭پولس ایکشن اور حیدرآباد کا ماحول
حیدرآباد کا ماحول عرصہ دراز تک پیار و محبت سے بھر ہوا اور منفرد تہذیب کا حا مل تھا۔ آج وہ ماحول کہیں نظر نہیں آتا۔ہر طرف اجنبیت کا احساس ہو تا ہے ۔پو لس ایکشن کے بعد سے حیدرآباد کا ماحول دھیرے دھیرے بدلنے لگا تھا۔ مجھے یاد ہے جس وقت پو لس ایکشن ہوا تھا ،تمام خواتین اور بچّے ’’الاوہ سر طوق‘‘ میں کئی دنوں تک جمع ہو گئے تھے۔اسکول سارے بند کر دیے گئے تھے ۔ کئی نوجوان رضا کاروں میں شامل ہو گئے تھے۔اتنا ضروریاد ہے کہ بہت خوف کا ماحول تھا۔ہمیں روزانہ سمجھایا جاتا تھا کہ اگر بم آگرے تو کیا کر نا چا ہیے ۔چھوٹے بچّوں کو بم کی آوازوں سے محفوظ رکھنے کے لیے روئی کے پیاکٹ دیے گئے تھے۔ ہمارے کھانے کے لیے ستّو بنایا جاتا تھا۔جس دن ریڈیو سے اعلان ہوا کہ نظام سر کار نے ریاستِ حیدرآباد کو انڈین یو نین میں ضم کر نے کے متعلق معاہدہ کرلیا ہے اور مخالفت ختم کر دی گئی ہے تو ہم سب با ہر نکل آئے تھے۔
٭صدر شفا خانہ
مو جو دہ نظامیہ جنرل ہاسپٹل پہلے’’ صدر شفا خانہ ‘‘کے نام سے مو سوم تھااور محلہ دارالشفاء میں الاوہ سرطوق کے بالکل پاس میں ہی موجود تھا۔اس سے ملحق سالارجنگ میوزیم کے بالکل پچھلے حصّہ میں ایک باغ تھا ۔جو اکبر باغ کہلاتا تھا جہاں(HERBARIUM) ہوا کر تا تھا۔اس ہر بیریم میں جڑی بو ٹیوں کی کاشت ہوا کر تی تھی ۔ان جڑی بو ٹیوں کو مختلف دوائوں کی تیاری میںاستعمال کیا جاتا تھا۔دور دراز مقامات سے علاج کے لیے مریض آیاکرتے تھے ۔زیرِ علاج مریض صدر شفا خانہ کی عمارت میں یا الاوہ سرطوق کے احاطہ میں قیام کیا کر تے تھے۔جب صدر شفاخانے کی شہرت بڑھنے لگی اور مریضوں کی تعداد میںبھی اضافہ ہو نے لگا تب ایک با قاعدہ بڑے ہسپتال کی ضرورت محسوس ہوئی۔لہذا حکمرانِ وقت میر عثمان علی خاں نے ۱۹۳۸ء میں چارمینار کے دامن میں مکّہ مسجد کے رو برو ایک ہسپتال تیار کرایا۔ان کا نظریہ یہ تھا کہ مریض کو دوا کے ساتھ ساتھ دعا کی بھی ضرورت ہو تی ہے اسی لیے مسجد کے قریب شفاخانہ کی تعمیر کی گئی۔ ساتھ میں ’’نظامیہ طبیہ کا لج‘‘ کا بھی قیام عمل میں لایا گیا۔ اس شفا خانے میں تمام سہو لتوں سے آراستہ ایک خاص کوارٹر بھی تعمیر کرایا گیا تھا جہاں شاہی اور امراء کے گھرانوں کی خواتین علاج کے لیے قیام کر تی تھیں۔ عربی ،فارسی،اردو اور انگریزی زبانوں میں لکھی یا تر جمہ کی گئیں طب کی سینکڑوںکتابوں سے سجی عمدہ لائبریری میر عثمان علی خان کی دور اندیشی اور روشن خیالی کی دین ہے۔انھوں نے دنیا بھر سے کتابیں منگوانے اور ان کے ترجمے کرانے پر خاص توجہ دی تھی۔ابتداء سے ہی اس شفاخانے سے نامور حکیم و طبیب وابستہ رہے۔ان میںحکیم عبدالرحمٰن ،حکیم اعظم، حکیم ہبت اللہ، حکیم حمیداللہ ، حکیم یوسف حسین خان ،میڈم ڈاکٹر بلگرامی،ڈاکٹر زیب النساء ،ڈاکٹر کملا جین،ڈاکٹر رانی کیسر موہنی ،ڈاکٹر پنیا،ڈاکٹر اوما ،ڈاکٹر اشرف وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ فالج و لقوے کی بیماری کے علاج کے علاوہ خواتین کی مخصوص بیماریاں،ان کی تو لیدی صحت کا بھی نہایت موثر علاج ہوا کرتا تھا۔پہلے اس دواخانے کو بھر پورسرکاری سر پرستی حاصل تھی۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ طریقہ علاج عدم توجہی کا شکار ہو گیا۔ آج یونانی دوائوں کے ساتھ ایلو پیتھی دوائیں بھی استعمال میں لائی جا رہی ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ ایک طرف سماج میں خالص یو نانی طریقہ علاج کا رجحان کم ہو تا نظر آتا ہے تو دوسری طرف کچھ افراد ہی سہی نیچر کی طرف لوٹتے بھی نظر آرہے ہیں۔دراصل کسی بھی مرض سے شفاء عام قدرتی چیزوں میں ہی چھپی ہوتی ہے ۔ ضرورت ہو تی ہے کہ ہم اس کا علم حا صل کریں۔کائنات کی کو ئی چیز بے کار نہیں ہے ۔ان چیزوں کی تحقیق اور انسانی زندگی کے لیے ان کی افادیت پر ایقان ہی اصل علم ہے۔آج اس طرح کے علم اور ان باتوں کی اہمیت گھٹ گئی ہے۔آج بڑی بڑی ڈگریاں تو حا صل ہو رہی ہیں لیکن اصل علم سے دوری پیدا ہوتی جارہی ہے۔
٭حیدرآباد کی معاشرتی زندگی
آج کے دور میں طرزِ زندگی بالکل بدل گئی ہے۔پہلے نہ اتنی بیماریاں تھیں اور نہ اتنے ڈاکٹرس اور دواخانے ہوا کر تے تھے۔ خاندان کے بزرگ کئی ایک بیماریوں کا علاج گھریلو ٹوٹکوں سے کردیتے تھے۔مثال کے طور پر اکثر گھرانوں میں جمعہ کے دن نہانے کے بعد سب کو اجوائن کھلائی جاتی تھی تاکہ سردی زکام سے بچے رہیں۔چونکہ سردی کئی ایک بیماریوں اور الرجی کی جڑ ہو تی ہے اسی لیے حیدرآباد میں موسم کے اعتبار سے غذا ئیں کھلا نے کا طریقہ بھی رائج تھا۔مسواک کر نا سب پر لازم تھا۔کلونجی کا با قاعدہ استعمال ہو تا تھا۔ہماری نانی ماں کے پاندان میں ہمیشہ مولی،ٹماٹر،آلو،کوتھمیر رکھی ہوتی تھی۔بچوں کے ہاتھ یا پیر کے جلنے کٹنے یا کسی طرح کے زخم کا فوراً علاج ہو جا تا تھا۔ رات میں جھاڑو دینے کو منحوس تصور کیا جاتا تھا۔ہمیں رات میں جھاڑو دینے کی بالکل اجازت نہیں تھی۔ کہا جا تا تھا کہ رات میں سورج کی روشنی نہیں ہو تی اسی لیے کچرا صاف کر نا نہیں چاہیے۔ آج سائنس کی تعلیم بھی یہ ثا بت کر تی ہے کہ رات میں چونکہ درختوں سے کاربن ڈائی آکسائڈ کا اخراج زیادہ اور آکسیجن کم ہو جا تی ہے اسی لیے انفکشن کے بڑھنے کا خطرہ زیادہ رہتا ہے ۔لہذا گرد وغبار والے کام کیے جا ئیں تو انسانی زندگی متاثر ہو تی ہے۔پاکی اور صفائی کے لیے سورج کی روشنی اور پودوں سے خارج ہو نے والی آکسیجن دونوں ضروری ہو تے ہیں۔پہلے زیادہ تر گھروںکی چھتیں کویلوسے بنی ہو تی تھیں۔ اس میںسانپ اور بچھو کے ہو نے کا ڈر لگا رہتا تھا۔اس سے بچنے کے لیے چھت کے چار وں کو نوں پر مولی لٹکائی جا تی تھی۔تلسی کا پودا بھی کئی ایک خصوصیات کا حا مل ہو تاہے ۔ گیندے کے پھول بہترین اینٹی الرجک ہو تے ہیں ۔وہ فضاء میں پھیلے انفکشن کو اپنے اندر جذب کر نے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔دروازوں پر گیندے کے پھول اسی لیے لگائے جاتے ہیں کہ با ہر سے آنے والے افراد کا انفکشن گھر میں داخل ہو نے نہ پائے۔پہلے ہر گھر میں تلسی و گیندے کے پودے لگائے جاتے تھے ۔ لیکن آج یہ پھول صرف ایک مذہبی رسومات کے لیے مختص ہو کر رہ گئے ہیں۔حیدرآباد میں کونڈوں کی خوب دعوتیں ہو تی تھیں۔اس مو قع پر اصلی گھی اور خشک میوہ جات کا بھر پور استعمال ہو تا تھا۔کھیر اور پوریاں مٹی کے کونڈوں میں رکھی جا تی تھیں۔کھیر کے لیے دھات کے بر تن سے زیادہ مٹی کے بر تن کا استعمال ہوتاتھا۔ان کونڈوں کے نیچے ماٹ کی بھاجی رکھی جاتی تھی اور شام میں نیاز کے اختتام پر اس بھاجی کوسالن کی طرح استعمال کیا جا تا تھا ۔دراصل ماٹ کی بھاجی جسم سے کو لیسٹرال کو صاف کر نے میںمعاون ثابت ہو تی ہے۔ چونکہ دن بھر میں نہایت ثقیل غذا کا استعمال ہو تا تھا لہذا اس کے تدارک کے لیے خاص طور پر اس بھاجی کا استعمال کیا جاتا تھا بلکہ اس بھا جی کا استعمال ایک ماہ میں کم از کم دو مرتبہ کیا جا تا تھا۔یہ چھوٹی چھوٹی باتیں رسم ورواج یا عقائد کے نام پر رائج تھیں جن پر سختی سے عمل کیا جا تا تھا۔
لیکن ان سب کے پیچھے اگر غور کیا جائے تو صحت و تندرستی کا خیال اور خوشحال زندگی گذارنے کا ہنر پو شیدہ تھا۔حیدرآباد کی معاشرتی زندگی میںیہ خیالات و نظریات کسی ایک مذہب سے مخصوص نہیں تھے ۔ بلکہ تمام افراد ان نظریات و خیالات کے یکساں ما ننے والے اور ان پر عمل پیرا تھے ۔آپس میں کو ئی تعصب پسندی نہیں تھی۔حقیقت یہ ہے کہ ان مفید باتوں کا علم انھیں بڑی بڑی ڈگریوں سے حا صل نہیں ہوا تھا بلکہ ان کے بزرگوں و اجداد کا سکھایا ہوا تھا۔ اور ان کے اپنے تجربات کی دین تھا۔ جس کو قیمتی ورثہ کی طرح سنبھال رکھا تھا۔ اسی لیے سب ہی صحت مند اور خوش وخرم زندگی گذارتے تھے۔آج کے دور میںسیکڑوں بیماریاں پیدا ہو گئی ہیںاور ہر بیماری کے لیے ہزاروں قسم کے اسپیشلسٹ پیدا ہوگئے ہیں۔
٭حیدرآباد کا نسائی کلچر
حیدرآباد میں بیسویں صدی کے اوائل سے ہی لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ دی جا نے لگی تھی۔اس دور میں بھی نہایت قابل خواتین تھیں۔میری نانی سکندر بیگم ،حسینی علم اسکول میں ٹیچر تھیں۔دکنی زبان میں نہایت بہترین قصائد،منقبت اور نو حے لکھا کر تی تھیں۔ان کے کلام کا مجموعہ ان کے انتقال کے بعد شائع ہوا ۔خالہ راحت جہاں اور چچی محمدی بیگم نو حے اور قصائد لکھتی تھیں۔ایک اور خالہ ڈاکٹر مہر جہاں جو حسینی علم کا لج سے بہ حیثیت اردو لیکچرر خدمات انجام دینے کے بعد سبکدوش ہو ئی ہیںبرسوں تک آل انڈیا ریڈیو پربہترین ڈھولک کے گیت بھی پیش کرتی رہی ہیں۔ اس دور میں گھروں پرمیلاد یا محرم کی مجالس نہایت اہتمام سے منعقد کی جاتی تھیں۔ خواتین اور بچّے نہایت عقیدت سے اس میں حصّہ لیتے تھے۔گھروں میں بڑے بڑے ہال ہو تے تھے۔ان میں فرش کر دیا جاتا تھا۔صندل ،عطر اور گلاب کے عرق کا چھڑکائو ہوتا۔نوجوان لڑکیوں کو انتظامات کی نگرا نی سونپی جاتی۔خواتین اپنا موثر کلام پیش کر تی تھیں۔محترمہ لطیف النساء صاحبہ نے چند خواتین کے ساتھ مل کر انجمن ’’ یادگارِ حسینی‘‘ قائم کی۔اس انجمن کے قیام کے بعد سے حیدرآباد میںخواتین کی عزاداری کی مجلسوں کی باقاعدہ شروعات ہوئی ۔حیدرآباد میں محرم کی مجلسیں ہوں یا میلاد کی محفلیں ہندو اور مسلم خواتین کی شرکت ہوا کرتی تھی ۔غیر مسلم خواتین بھی سلام ونوحے لکھ کر مجالس میں پڑھا کر تی تھیں یا نہایت عقیدت سے سنا کر تی تھیں۔عالی جاہ کو ٹلہ کے پاس محبوب کرن کی دیوڑھی تھی ۔اس دیوڑھی میں ماہ محرم میں مجلسیں منعقد کی جاتی تھیں۔دیوڑھی پرمحرم کی پہلی تاریخ سے ہی ہرے اور کالے جھنڈے لگادیے جاتے۔دیوڑھی کے باہر مٹکوں میں شربت بنا کر رکھا جاتا۔اس گھر کی عورتیں ہرے کپڑے جس پر کالے رنگ کی پٹی لگی ہو تی پہنا کرتی تھیںاور نوحہ خوانی میں حصّہ لیتی تھیں۔بچپن میں ہم نے دیکھا کہ خواتین کے لیے خواہ وہ کسی مذہب کی ہوں پردہ کا اہتمام ہو تا تھا۔خاتون کی سواری گھر سے نکلتی تو گھر پر ایک پردہ لگایا جاتا اور گلی کے نکڑ پر بھی پردہ لگا یا جاتا اور آواز لگائی جاتی کہ فلاں گھر کی خواتین باہر جا رہی ہیں پردہ کا خیال رکھا جائے۔
٭آل انڈیا ریڈیو اور ثقافتی پروگرام
ٹی وی کی ایجاد سے پہلے ریڈیو ہی تفریح کا اہم ذریعہ تھا۔لوگ بہت شوق سے ریڈیو کے پروگرام سنتے تھے۔آل انڈیا ریڈیو سے ڈرامے ،تفریحی و معلوماتی پروگرام نیز ڈھولک کے گیت بھی نشر کیے جاتے تھے، جسے کافی پسند کیا جاتا تھا۔ اس دور میںعلم و ادب کی دنیا کے اہم افراد ریڈیو سے وابستہ تھے ۔ ڈراموں اور ڈھولک کے گیتوں کی پیش کشی میں جن افراد کا بھر پور ساتھ رہا ان میںقابلِ ذکر جناب عز یز قریشی،احمد جلیس،اسلم فرشوری،موہن سنہا،جعفر حسین،ڈاکٹر مہر جہاں، افشاں جبین،کنیز فاطمہ ،بشیر موسوی، وغیرہ شامل ہیں۔ مہر جہاں،کنیز فاطمہ اوربشیر موسوی بھی ڈھولک کے گیت بہترین گاتی تھیں۔بلکہ کنیز فاطمہ کی آ واز اور انداز بہت اچھی تھی پیشکش اتنا خوبصورت کہ شہزادی پاشاہ (دختر میر عثمان علی خان آصف صابع) بھی اُنہیں اپنے محل میں بلا کر سنا کرتی تھیں۔
٭ڈھولک کے گیت
حیدرآباد میں ڈھولک کے گیتوں کی روایت برسوں سے چلی آرہی تھی۔پہلے چکّی کے گیت کافی مقبول تھے ۔چونکہ خواتین ایک جگہ جمع ہو کر چکّی پر گیہوں یا جوَ پیستیںیا اوکھلی اور مسّل کے ذریعہ مرچ ،ہلدی یا دیگر مصالحے جات پیستی تھیں ۔ایسے موقعوں پر کام کے دوران ان گیتوں کا استعمال کرتی تھیں۔ ان کے علاوہ شادی بیاہ یا دیگر تقاریب کے مو اقع پر ڈھولک پر گیت گائے جاتے تھے۔دکنی زبان کے یہ گیت مختلف علاقوں میں تھوڑے بہت الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ گائے جاتے تھے۔ ہندو مسلمان خواتین، سب ہی مل کر ان گیتوں کو گاتی تھیں۔ان میں مذ ہبی ، اصلاحی ،تفریحی اورطنزیہ و مزاحیہ ہر طرح کے مو ضوعات پر گیت شامل ہو تے ۔ ان گیتوں کے تخلیق کار کا کسی کو پتہ نہیں ہے ۔ یہ گیت صرف یادداشت کی بنیاد پر سینہ بہ سینہ چلے آرہے ہیں لیکن ان گیتوں میں ان کے سچّے اور پاک خیالا ت ، خوبصورت احساسات ، اور خوشی اور غم کے جذبات کا اظہار مو جود ہے ۔بزرگانِ دین نے بھی ان گیتوں کے طرز پر مذہبی و اصلاحی گیت لکھے ہیں۔ چکّی کا خاتمہ ہوا تو وہ گیت تو ختم ہو گئے لیکن ڈھولک کے گیتوں کا رواج عرصہ تک قائم رہا۔
اب دھیرے دھیرے اس کے رجحان میں بھی کمی ہو نے لگی ہے۔ بہت ہی کم گھرانوں میں اب اس کا رواج باقی رہ گیا ہے۔ البتہ جو افراد با ہر کے ملکوں میں جابسے ہیں۔ وہاںاپنے بچوں کی شادی کی تقریبات میں ڈھولک کے گیتوں کا اہتمام کر نے لگے ہیں۔ آج سنگیت کے نام پر باجہ ،ناچ ،گانے اور ،شور شرابہ نے جگہ لے لی ہے۔ماضی میں شادی کی تقریب کئی دنوں تک چلتی تھی۔سارے رشتہ دار جمع ہوتے ۔کام میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے ۔ایسے مو قعوں پر گیتوں میں آپسی رشتوں کے ساتھ شوخی ،چھیڑ چھاڑ ،نوک جھونک کے ذریعے ایک سماں بندھ جاتا۔رشتوں کی اہمیت کا اندازہ ہوتا۔آج رشتے بے معنیٰ ہو گئے ہیں۔ایک دوسر ے کا ساتھ دینے کے لیے وقت کی کمی ہو گئی ہے۔ گیت گانے کے لیے مراثنیں بھی ہوا کر تی تھیں۔شادی کے موقع پر دلھا اور دلھن والے ڈھولک کے گیتوں کی پیش کشی کے لیے علیحدہ علیحدہ مراثنوں کا انتخاب کر تے تھے۔اسی مناسبت سے وہ لوگ گیت گاتے تھے۔لاڑ بازار میں ایک مشہور مراثن سہاگن بیگم تھیں۔ان کے علاوہ معراج بیگم اور دلشاد نواز بھی کافی مقبول تھیں۔انھیں پیسوں کے علاوہ چاول ،پان اور ناریل کا نیگ دیا جاتا تھا۔ شادی کی شروعات ہلدی پیسنے کی رسم سے ہوتی تھی ۔اس مو قع پر چکّی کے گیت گائے جاتے تھے ۔پھر گیتوں کا سلسلہ آرسی مصحف کی رسم اور دلہن کی وداعی تک چلتا رہتا۔ ڈھولک کے گیتوں کو ہم بچپن سے ہی سنتے آئے تھے اسی لیے مجھے شوق تو تھا لیکن جب مجھے مختلف دیہاتوں میں رہنے کا اتفاق ہوا اور وہاں کے گیتوں کو سننے کا مو قع ملا تو میرا رجحان اس طرف بڑھنے لگا۔دیہاتوں میںدن بھرمزدوری کر نے کے بعد گھر لوٹ کر رات میں اکثر خواتین ایک جگہ جمع ہو جا تی تھیں اور مختلف گیت گاتی تھیں۔میں نے بھی ان گیتوں کی طرز میں کئی گیت لکھے ہیں۔اور انھیں ریڈیو پر پیش کیا ہے۔ ہماری درخواست پر محترمہ ارجمند نظیر صاحبہ نے مختلف مو قعوں پر گائے جانے والے گیتوں کی جھلکیاں بھی سنائیں ۔